حسین خاں،جاپان میں

ماہِ گزشتہ کی 19 تاریخ تھی، جب پیغام موصول ہوا: ”حسین خاں ٹوکیو میں انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔“
حسین خاں کون تھے؟
پاکستان کی اسلامی جماعتوں کے بیشتر ارکان و ذمہ داران مرحوم کی خدمات سے واقف نہ ہوں گے۔ ہاں فرائیڈے اسپیشل میں اُن پر دو ایک تعارفی مضمون چھپے ہیں۔ راقم زیرِ نظر سطور میں ”حسین خاں، جاپان میں“ کی چند جھلکیاں اور وہاں اُن سے ایک ملاقات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہے۔
2000ء میں ٹوکیو کی دائتوبنکا یونی ورسٹی نے راقم کو چار ہفتوں کے لیے اپنے ہاں مدعو کیا تھا۔ فروری 2000ء میں جاپان پہنچتے ہی حسین خاں کا اتا پتا معلوم کرنے کی کوشش شروع کردی۔ تیسرے ہفتے میں اُن کے مستقر کے بارے میں معلومات مل گئیں۔ پتا چلا کہ پہلے وہ کوبے میں تھے، اب ٹوکیو آگئے ہیں۔ توداکوئن کی مسجد میں قیام پذیر ہیں۔ فون پر رابطہ ہوا اور ملاقات طے ہوگئی۔ انھوں نے کہا: ریلوے اسٹیشن پہنچ کر مجھے فون کردینا، میں آکر لے لوں گا۔
اگلے روز حسین خاں صاحب سے ملاقات کے لیے توداکوئن (Toda-koin) جانے کی مہم پر نکلا۔
خاں صاحب تقریباً 35 برس سے جاپان میں مقیم ہیں۔ 1964ء میں جاپان مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر ٹوکیو آئے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ انھوں نے ٹوکیو یونی ورسٹی سے ایم اے معاشیات کی ڈگری حاصل کی، دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہے، اور اس کے ساتھ کچھ کام کاج اور کاروبار بھی کرتے رہے۔ وہیں ایک اور شادی بھی کر ڈالی۔
میں نے سوچا: حسین خاں صاحب سے تقریباً 35 برس بعد ملاقات ہوگی، میری طالب علمی کے زمانے میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ تھے۔ اُس زمانے میں بس ایک بار ملاقات ہوئی تھی۔ پھر میں ان کی تحریریں اخبارات و رسائل میں دیکھتا رہا۔ انھیں تو کچھ یاد بھی نہ ہوگا۔ پھر سوچا کہ ممکن ہے میری کوئی تحریر اُن کی نظر سے گزری ہو۔ بہرحال حسین خاں جاپانی سے ملاقات دل چسپ اور مفید رہے گی۔
توداکوئن ریلوے اسٹیشن سے باہر نکل کر ٹیلی فون بوتھ سے خاں صاحب کو فون کیا اور ان کے انتظار میں کھڑا، آتے جاتے مسافروں کو دیکھنے لگا۔ 15، 20 منٹ کے اس انتظار میں مسافروں کی آمدورفت کا مشاہدہ دلچسپ تھا۔ ٹیکسی اسٹینڈ سامنے تھا۔ صاف ستھری، خوب صورت اور چمکیلی کاریں ایک قطار میں کھڑی تھیں۔ مسافر اسٹیشن سے نکلتے ہی قطار کی سب سے پہلی ٹیکسی کے پاس پہنچتا تو عقبی دروازہ خودبخود کھل جاتا۔ جوں ہی مسافر اندر بیٹھتا، ٹیکسی چل پڑتی اور یہ جا، وہ جا۔ دوسری ٹیکسی آگے بڑھتی۔ یوں مسافر آتے اور ٹیکسیاں انھیں لے کر روانہ ہوجاتیں۔
خاں صاحب خود تو نہیں آسکے، اپنے ایک بنگالی ساتھی کو بھیج دیا، جو مجھے توداکوئن مسجد لے چلے۔ ہم بروقت مسجد پہنچ گئے۔ نمازِ جمعہ میں خاصے لوگ تھے۔ زیادہ تر پاکستانی اور شاید کچھ بھارتی اور بنگلہ دیشی بھی۔ امام صاحب بھی بنگالی تھے، مگر ان کی تقریر اردو میں تھی۔ ایک بہت بڑے کمرے کو نماز ہال میں تبدیل کیا گیا تھا۔ اوپر کی منزل میں مسجد کے انتظام سے وابستہ افراد مقیم تھے۔ نماز کے بعد کچھ لوگوں سے علیک سلیک ہوئی۔ پھر ہم اوپر کی منزل میں خاں صاحب کے کمرے میں جا بیٹھے۔ میں نے انھیں مسلم سجاد صاحب کا دیا ہوا پیکٹ دیا، جس میں ترجمان القرآن کے چند تازہ شماروں کے علاوہ خرم مراد مرحوم کی چند مطبوعات بھی تھیں۔ کھانے پر کچھ اور لوگ بھی موجود تھے۔ کسی بنگلادیشی ساتھی نے کھانا تیار کیا تھا۔ اُبلے ہوئے چاول، دال گوشت، سلاد اور جوس، بعد میں چائے۔۔۔ باتیں بھی ہوتی رہیں۔ گفتگو کا بڑا موضوع حالاتِ حاضرہ تھا۔
میرا خیال تھا کہ حسین خاں صاحب کے ساتھ دو تین گھنٹے گزاروں گا، لیکن کھانے کے بعد بعض احباب انھیں کہیں لے جارہے تھے۔ انھوں نے دعوت دی کہ ہمارے ساتھ چلیں۔ سوچا: دوبارہ آنا مشکل ہوگا، اس لیے ان کے ساتھ ہی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ یوں کار کے اس لمبے سفر کے دوران ان سے تھوڑی بہت گفتگو رہی۔ وہ بتانے لگے کہ انھوں نے اپنے حالیہ مضامین میں افغانستان پر امریکی حملے کی شدید مذمت کی ہے اور وہ پاکستان کی پالیسیوں کے بھی شدید ناقد ہیں۔ پھر بتایا کہ ’’حال ہی میں امریکہ گیا تو لاس اینجلس کے ہوائی اڈے سے مجھے واپس بھیج دیا گیا کہ امریکہ میں آپ کا داخلہ بند ہے، اور امریکہ کو خوش کرنے کے لیے پاکستان نے بھی اپنے ہاں میرا داخلہ بند کررکھا ہے، لیکن میں اپنے کام میں لگا ہوں۔ کم از کم انٹرنیٹ پر تو اپنی بات کہنے کی آزادی ہے‘‘۔ خاں صاحب نے مزید بتایا کہ وہ انٹرنیٹ پر تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں، غیر مسلموں کے سوالات کے جواب دیتے ہیں۔ انھوں نے اسلامی لٹریچر کا جاپانی ترجمہ بھی کیا ہے۔
کار کے اس سفر میں دو گھنٹے گزر چکے تھے اور اب منزل قریب تھی۔ یہ لوگ اپنے کسی کام میں مصروف ہونے والے تھے، اس لیے مجھے ان سے رخصت لینا مناسب معلوم ہوا۔ میں نے خاں صاحب سے کہا: چند اشیائے خوردنی کی خریداری میں میری مدد کیجیے کیوں کہ مجھے بعض چیزوں کی پہچان نہیں ہے۔
ہم میزوے (Mizue) اسٹیشن کے قریب رکے۔ ان کے دوست آگے چلے گئے اور میں حسین خاں صاحب کے ساتھ ایک اسٹور میں داخل ہوا (طے ہوا کہ حسین خاں، کچھ دیر میں انھیں جا ملیں گے)۔ اندازہ ہوا کہ خاں صاحب کچھ تکان (fatigue) محسوس کررہے تھے۔ انھوں نے ایک فرحت بخش مشروب Pokari کی دو بوتلیں خریدیں اور ایک مجھے تھمادی۔ موٹر کار میں بیٹھے ہوئے، کچھ حبس کی سی کیفیت رہی تھی۔ اس مشروب سے طبیعت بشاش ہوگئی۔ یہ مشروب سکنجبین سے قریب تر تھا۔ ایک بڑے اسٹور سے خاں صاحب کی راہ نمائی میں ڈبل روٹی، پنیر، مکھن وغیرہ خریدا۔ ہر چیز کے لیبل پر اس کے مشمولات جاپانی زبان میں درج تھے۔ خاں صاحب دیکھ دیکھ کر بتاتے جاتے تھے کہ یہ ٹھیک ہے اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں بہت زیادہ تحقیق و تفتیش مناسب نہیں ہے۔
خاں صاحب نے مجھے قریبی سب وے (زیرِ زمین) اسٹیشن کے دروازے تک پہنچا دیا۔
حسین خاں صاحب غیرمعمولی شخص تھے۔ یہاں اُن کا کچھ اور تعارف: وہ کراچی میں زیرِ تعلیم تھے جب 1955ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اگلے برس دوبارہ ناظم اعلیٰ چنے گئے، مگر نظامت سے معذرت کرکے مشرقی پاکستان چلے گئے کہ: ’’میں مشرقی پاکستان میں جاکر جمعیت کی دعوت و تنظیم کا کام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ 1964ء تک جمعیت اور جماعت کا کام کرتے رہے۔ پھر جاپان چلے گئے اور وہاں فروغِ اسلام کے لیے مسلسل کام کیا۔ ”تفہیم القرآن“ کا جاپانی میں ترجمہ بھی کرنا شروع کیا مگر یہ مکمل نہ ہوسکا۔
وہ جاپان میں اسلام، پاکستان اور اُمتِ مسلمہ کے سفیر تھے۔ سلمان رُشدی کی کتاب کی اشاعت پر، افغانستان پر امریکی حملے (نائن الیون پر، اور مغربی ممالک میں توہینِ رسالت کے واقعات اور گستاخاںہ خاکوں کی اشاعت پر انھوں نے جاپانی مسلمانوں کو منظم کیا اور بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکالے۔ دو تین برس پہلے ایک جاپانی اخبار نے ایک فرانسیسی اخبار سے نقل کرکے چند ایک گستاخانہ خاکے شائع کیے۔ حسین خاں نے مسلمانوں کو جمع کرکے اس اخبار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور پھر جلوس لے کر اس کے دفتر پہنچے اور اخبار کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان خاکوں کی اشاعت بند کریں اور مسلمانوں سے ان کی دل آزاری پر معذرت بھی کریں۔ اخبار کی انتظامیہ نے اسلام کے بارے میں اپنی کم علمی کا اعتراف کیا اور اگلے روز اخبار میں مسلمانوں سےمعذرت بھی کی۔
ان کی وفات پر پروفیسر خورشید احمد نے لکھا: ’’حسین خاں جاپان میں پاکستان کے عوامی سفیر تھے اور دعوتِ دین کے رہبر اور مسلم اُمہ کے مسائل و مشکلات کو پیش کرنے والے دلِ بے تاب۔ وہ 2؍فروری 1933ء کو پیدا ہوئے اور 19؍مارچ 2022ء کو زندگی کا سفر مکمل کرکے اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خطائوں کو معاف فرمائے اور صدقاتِ جاریہ میں برکت عطا فرمائے، آمین۔