پاکستان بھی ایسے خطے میں واقع ہے جہاں کھانے پینے کی اشیاء میں مکھن شامل کرنے کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے کھانے مکھن کے بغیر ادھورے ہیں۔ دال مکھنی کا اپنا مزا ہے، اور مکھن میں پکائے ہوئے پالک کا الگ ہی لطف ہے۔ پراٹھا مکھن کے ساتھ ہو تو کیا کہنے۔ مکھن ڈبل روٹی کے ٹکڑوں پر پھیلاکر بھی شوق سے کھایا جاتا ہے۔ پراٹھوں پر پھیلاکر بھی مکھن کھایا جاتا ہے۔ دیہات میں پراٹھے کے ساتھ مکھن کھانے کا چلن عام ہے۔ دیہات میں مکھن چونکہ گھر ہی میں تیار کرلیا جاتا ہے اس لیے کھانے پینے کی بہت سی اشیا میں یہ شامل کرنا عام بات ہے۔
فی زمانہ ٹی وی کے کوکنگ شوز میں بڑے شیف مکھن سے یا مکھن کی آمیزش سے بنائی جانے والی بہت سی ڈشیں پیش کرتے ہیں۔ خواتینِ خانہ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر پیش کی جانے والی تراکیب کی مدد سے دوسری بہت سی ڈشوں کے ساتھ ساتھ مکھن کی ڈشیں بھی تیار کرتی ہیں۔ مکھن کی خاصیت یہ ہے کہ کسی بھی ڈش میں اِسے موزوں ترین تناسب سے شامل کرنا پڑتا ہے۔ تناسب درست نہ ہو تو ڈش کا ذائقہ کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں مکھن سے شغف رکھنے والوں کی تعداد کم نہیں۔ لوگ مکھن مختلف طریقوں سے کھانا پسند کرتے ہیں۔ پسندیدہ ترین طریقہ پراٹھے سے نوالے بناکر، یا پھر پراٹھوں پر پھیلاکر کھانے کا ہے۔ اب بہت مہنگا ہوجانے کے بعد کچھ لوگ کسی ڈش میں تھوڑا سا مکھن ڈال کر اُس کا ذائقہ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ مکھن کو دال میں ڈال کر بھی کھانا پسند کرتے ہیں۔ مٹر کو بھی مکھن ڈال کر پکایا جائے تو خوب ذائقہ بنتا ہے۔ برصغیر میں سبزیاں ابال کر یا بھون کر کھائی جاتی ہیں۔ بعض سبزیوں میں اگر مکھن شامل کردیا جائے تو خاصا منفرد ذائقہ میسر ہوتا ہے۔ سبزیوں کی بعض ڈشوں پر اگر اوپر سے پگھلا ہوا مکھن ڈال دیا جائے تو ذائقہ منفرد ہوجاتا ہے۔
دنیا بھر میں مکھن ڈال کر پراٹھے اور موٹی روٹیاں پکانے کا چلن بھی عام ہے۔ اس طرح پکائی جانے والی روٹیاں بہت لذیذ ہوتی ہیں۔ بعض خطوں میں مکھن ملاکر بنائی جانے والی موٹی روٹیاں خوش ذائقہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحت بخش بھی ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگ پیڑے میں مکھن ملاکر پکائی جانے والی موٹی روٹیاں چائے یا دودھ کے ساتھ بھی کھانا پسند کرتے ہیں۔
ہم میڈیا کے دور میں جی رہے ہیں۔ کبھی کبھی اچانک ایک لہر سی اٹھتی ہے اور کسی چیز کے خلاف یا حق میں بہت کچھ کہا جانے لگتا ہے۔ دنیا بھر میں صحت کے حوالے سے بہت حساس اور محتاط رہنے کا کلچر پایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ دن رات اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کچھ ایسا ویسا نہ کھائیں جس سے پیٹ بھی خراب ہو اور صحت بھی۔ ماہرین دن رات یہ مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ مرغن غذاؤں سے بچ کر چلنا چاہیے۔ آج پوری دنیا میں یہ تاثر پایا جارہا ہے کہ مکھن اور پنیر کھانے سے موٹاپا بھی بڑھتا ہے اور مختلف امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی۔ یہی سبب ہے کہ کبھی کبھی اچانک ایک مہم سی چلتی دکھائی دیتی ہے کہ مکھن، پنیر وغیرہ نہ کھایا جائے۔ ہمارے ہاں یہی تصور مکھن اور پنیر کے ساتھ ساتھ گھی کے بارے میں بھی پایا جاتا ہے۔ گھی دراصل جلایا ہوا مکھن ہے۔ یہ مکھن کی خاصی نچلی شکل ہے۔ ماہرین گھی کے زیادہ استعمال سے بھی خبردار کرتے ہیں۔ بہرکیف، فی زمانہ مکھن کے استعمال سے ڈرانے والے بہت ہیں۔ بہت سے ماہرین مکھن کو صحت کے حوالے سے زہرِ قاتل قرار دیتے ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ مکھن کے باقاعدہ استعمال سے کولیسٹرول کی سطح بلند ہوتی ہے، دل کے امراض کی راہ ہموار ہوتی ہے اور شریانوں میں خون کی روانی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں مکھن اور پنیر جیسی ’’بھاری‘‘ چیزوں کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنے کی مہم چلائی جاتی رہتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ مکھن کھانا بالکل ترک کردیجیے، اور کبھی مارجرین کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے جو مکھن نما ہوتا ہے۔ پھر جب ماہرین بتاتے ہیں کہ مارجرین میں پائی جانے والی چربی تو اور بھی نقصان دہ ہوتی ہے تب اپنے مشورے سے رجوع کیا جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں عوام شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ حکومت کی مانیں یا ماہرین کی؟ اور ماہرین میں سے بھی کن کی؟ بعض ماہرین مکھن کو نقصان دہ قرار دینے سے گریز کرتے ہیں۔ امریکہ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے عوام کو مکھن چھوڑ کر مارجرین کھانے کا مشورہ دیا اور پھر اپنے مشورے سے اُسے رجوع بھی کرنا پڑا۔ بہت سی کمپنیوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مکھن کے متبادل کے طور پر چند اشیا متعارف کرائیں جن میں چربی کی مقدار اچھی خاصی تھی۔ مکھن اور اُس سے ملتی جلتی بعض اشیا میں چربی کی مقدار اچھی خاصی ہوتی ہے۔ اُن کی تشہیر اِس طور کی جاتی ہے کہ لوگ نقصان کا تھوڑا بہت اندازہ ہونے پر بھی کھانے سے باز نہیں آتے۔ اشتہارات اس طور بنائے جاتے ہیں کہ لوگوں کو زیادہ کھانے کی تحریک ملتی ہے۔
مکھن اور اسی قبیل کی بہت سی اشیاء ہر دور میں انسانی خوراک کا حصہ رہی ہیں۔ ماہرین اس حوالے سے سوچتے بھی رہے ہیں۔ ہر دور میں ماہرین نے مکھن اور اِسی قبیل کی دیگر اشیا کا معیار بلند کرنے پر توجہ دی ہے تاکہ لوگ صحت خراب کیے بغیر اِن اشیا سے بخوبی لذت کشید کرسکیں۔ ’’ہائیڈروجینیشن‘‘ نامی عمل کے ذریعے سبزیوں میں پائے جانے والے تیل کو پختہ شکل دینے کی کوشش کی گئی اور اس کے نتیجے میں مکھن سے بنائی جانے والی مختلف اشیائے خور و نوش کا کیمیائی ڈھانچا تبدیل ہوگیا۔
ایسا بھی ہوا کہ بہت سی کمپنیوں نے کیمیائی عمل کے ذریعے کچھ چیزیں تیار کیں جو لوگوں کو اچھی بھی لگیں، تاہم بعد میں جب ماہرین نے نقصانات گنوائے تو لوگ دوبارہ براہِ راست گائے کے دودھ سے بنائے جانے والے مکھن کی طرف مائل ہوئے۔ پھر مکھن میں وٹامن اے اور ڈی شامل کیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے فاسفورس، کلیشیم اور دیگر اجزاء تک پہنچا۔
ان تمام باتوں کے باوجود مکھن اول تا آخر چربی ہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم دوسری بہت سی اشیائے خور و نوش کی طرح مکھن بھی کم کم کھاتے ہیں اور معیار کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کا مکھن واقعی ایسی چیز ہے جس کے لیے رقم خرچ کی جائے۔
مکھن سے ہماری محبت فطری چیز ہے کیونکہ یہ ہمارے ورثے کا حصہ رہا ہے۔ شمال مغربی ترکی میں 6500 قبل مسیح کے برتنوں میں دودھ کی چربی کی باقیات ملی ہیں۔ تب خالص (کچا) دودھ شاید نہیں پیا جاتا ہوگا کیونکہ معدہ اِس میں پائی جانے والی شکر کا عادی نہ تھا۔ وہ لوگ مکھن، پنیر اور دہی ضرور کھاتے ہوں گے۔
میسو پوٹیمیا میں 2500 قبل مسیح میں دنیا کی پہلی ڈیری کے آثار ملے ہیں۔ وہاں سے ملنے والی بعض تختیوں اور کتبوں پر گائے کا دودھ دوہنے کے مناظر نقش ہیں۔ ازمنۂ وسطیٰ کے یورپ میں اعلیٰ طبقہ مکھن کھانے کو دیہی سرگرمی تصور کرتا تھا اور ایسٹر سے قبل رکھے جانے والے روزوں میں مکھن کھانے کی ممانعت تھی۔ پندرہویں صدی عیسوی میں جب روئن کیتھیڈرل کی توسیع اور تزئین و آرائش شروع ہوئی تب ایک نئے ٹاور کو ’’بٹر ٹاور‘‘ کا نام دیا گیا کیونکہ یہ ٹاور اُن لوگوں کے عطیات سے بنایا گیا تھا جو ایسٹر سے پہلے کے ہفتوں میں چِلّے کے دوران مکھن کھانے کی اجازت چاہتے تھے۔ صنعتی بنیادوں پر مکھن کی تیاری سے قبل جب گھروں میں گایوں کا دودھ جمع کرکے مکھن بنایا جاتا تھا تب اُس میں تھوڑا سا خمیر بھی ڈال دیا جاتا تھا تاکہ دودھ میں پائی جانے والی مٹھاس میں تھوڑی سی تیزابیت پیدا ہو۔
جراثیم سے پاک کرنے کے عمل کو زحمتِ کار دیئے بغیر کریم سے بنایا جانے والا کلاسک مکھن فرانس میں بہت مقبول ہے اور امریکہ بھر میں یہ ’’یوروپین اسٹائل بٹر‘‘ کے نام سے فروخت ہوتا ہے۔ خام کریم (ملائی) کے یورپی مکھن کی شیلف لائف 10 دن ہے، جبکہ امریکہ اور برطانیہ کی فیکٹریوںٖ میں تیار کیا جانے والا مکھن مہینوں تک کارآمد رہتا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ میں مکھن تیار کرنے والے بڑے اداروں کی مصنوعات میں وہ تیز خوشبو اور تیز ذائقہ نہیں ہوتا جو فرانسیسی مکھن کا خاصہ ہے۔ انیسویں صدی میں ریفریجریٹر کی ایجاد اور کریم کو الگ کرنے کے میکانیکی طریقِ کار کی ایجاد کے بعد سے مکھن اس کریم سے بنایا جاتا ہے جو جراثیم کش عمل (پاسچرائزیشن) سے گزاری جاتی ہے۔ بعد میں اِسے خرابی سے بچانے کے لیے خمیر شامل کرنے کی روایت پڑی۔ کریم سے مکھن کشید کرنے کے بعد اِس میں رنگ بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اِسے ’’کلچرڈ بٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مکھن امریکہ میں ’’سوئیٹ کریم بٹر‘‘ کے نام سے فروخت ہوتا ہے۔
مکھن میں چربی کی مقدار کسی بھی ڈش کی مجموعی کیفیت اور ذائقے پر براہِ راست اثرانداز ہوتی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں فروخت ہونے والے مکھن میں تقریباً 80 فیصد چربی پائی جاتی ہے، جبکہ یورپی مکھن میں 82 سے 85 فیصد تک چربی ہونی چاہیے۔ ہوسکتا ہے یہ فرق آپ کو معمولی محسوس ہو، مگر اِس سے ذائقے میں خاصا فرق پڑتا ہے۔
مکھن سے مشرق و مغرب میں بہت سی اشیاء روایتی طور پر بنائی جاتی ہیں۔ مکھن والی موٹی روٹی اور پراٹھوں کو لوگ آج بھی بہت پسند کرتے ہیں۔ کسی بھی ڈش کا ذائقہ بہتر بنانے میں مکھن اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر مکھن معیاری ہونا چاہیے۔ دیر تک بلوئے جانے کی صورت میں حاصل ہونے والے زیادہ چربی والے مکھن میں پانی کم ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں دستیاب مکھن کو گرم فرائی پین میں ڈالیے تو اُس کا پانی اُڑنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں فروخت ہونے والے مکھن میں فرانسیسی مکھن کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ پانی ہوتا ہے۔
آج کل بڑے ہوٹلوں کے شیف یا پھر بڑے گھرانوں کے بٹلرز معیاری مکھن کے حصول پر خوب توجہ دیتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ معیاری مکھن کسی بھی ڈش کا معیار بلند کرسکتا ہے۔ معیاری مکھن کا حصول یقینی بنانے کے لیے شیف خود بھی محنت کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو بھی اس کام پر لگاتے ہیں۔ ویسے یہ اعلیٰ طبقے کا کھیل ہے۔
Échiré نامی مکھن فرانس کا تیار کردہ ہے۔ فرانس اس مکھن کی پیداوار کا صرف 15 فیصد برآمد کرتا ہے۔ اگر آپ مکھن والی موٹی روٹی کھانے کے شوقین ہیں تو یہ مکھن آزمایا جاسکتا ہے۔ یہ مکھن 1894ء سے 66 فارمز سے حاصل شدہ دودھ سے بنایا جارہا ہے۔ یہ فارم 50 کلومیٹر کے گھیرے میں واقع ہیں اور ان میں پالی جانے والی گائیں یکساں ماحول میں ایک ہی قسم کی گھاس کھاتی ہیں۔
Le Beurre Bordier نامی مکھن تین دن میں تیار ہوتا ہے۔ موسم کی تبدیلی اور گھاس کی رنگت بدلنے سے اس مکھن کا رنگ بھی بدلتا ہے۔
Beurre d’Isigny یہ خاصا میٹھا اور بھرپور مکھن ہوتا ہے جس میں امریکہ اور برطانیہ کے مکھن کے مقابلے میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
Président نام کا برانڈ بھی فرانس میں بہت بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ مکھن لیکٹالِس نامی کمپنی تیار کرتی ہے جو 1933ء میں آندرے بیزنیئر نے قائم کی تھی۔
Plugra دراصل یوروپین اسٹائل مکھن ہے جو امریکہ میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس میں 82 فیصد تک چربی پائی جاتی ہے۔
Danish Lurpak بھی برطانیہ اور امریکہ میں مقبول برانڈ ہے۔ نام سے ظاہر ہے کہ یہ برانڈ ڈنمارک میں تیار ہوتا ہے اور اس میں کم و بیش 82 فیصد چربی ہوتی ہے۔ مکھن کو خوب پکانے سے گھی ملتا ہے۔ برصغیر میں دیسی گھی بھی مقبول شے ہے۔