اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں امریکہ کو اُس وقت شدید سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا جب انسانی حقوق کونسل (UNHRC)سے روس کو نکالے جانے کی قرارداد پر ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے زیادہ تر ملک یا تو غیرجانب دار رہے، یا امریکی مؤقف کے خلاف ہاتھ اٹھا دیے۔ یوکرین اور واشنگٹن کے اتحادیوں کا کہنا تھا کہ روسی فوج یوکرین میں سنگین جنگی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے۔
انسانی حقوق کی کونسل 2006ء میں قائم کی گئی تھی، جس کا مقصد دنیا بھر میں انسانی حقوق کو یقینی بنانا ہے۔ جنیوا اس ادارے کا صدر مقام ہے اور اس کے 47ارکان افریقہ، ایشیا و بحرالکاہل، مشرقی یورپ، لاطینی امریکہ و غرب الہند (Caribbean)، مغربی یورپ و شمالی امریکہ کے لیے مختص نشستوں پر منتخب ہوتے ہیں، جن کی مدت تین سال ہے۔ ایشیا و بحرالکاہل کے لیے مختص 13 نشستوں میں سے 4 پر 2023ء تک چین، نیپال، پاکستان اور ازبکستان براجمان ہیں، جبکہ ہندوستان کی مدت 2024ء میں ختم ہورہی ہے۔
بدقسمتی سے اقوام متحدہ کے دوسرے اداروں کی طرح انسانی حقوق کونسل بھی بس ”گپ شپ“ کی ایک آرام دہ جگہ ہے۔ کشمیر اور فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی، امریکہ میں سیاہ فاموں سے امتیازی سلوک، مغرب کے منظورِ نظر آمروں کی جانب سے اپنے مخالفین پر بدترین تشدد، برمی اور اویغوروں کی نسل کُشی جیسے معاملات پر UNHRC بیانات اور ”تشویش“ سے آگے نہیں بڑھی۔ روسی تاتاروں اور اہلِ شیشان پر ہونے والے مظالم کا UNHRCنے کبھی کوئی ذکر تک نہیں کیا۔
تکنیکی اعتبار سے تو یہ قرارداد دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگئی کہ 24 کے مقابلے میں 93 ممالک نے اس کے حق میں رائے دی اور ادارے سے روسی رکنیت کی معطلی اب دنوں کی بات ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے اسے ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیتے ہوئے روس کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زبانِ خلق کو نقارئہ خدا سمجھے۔ لیکن بین الاقوامی سیاست کے علما ایک دوسری تصویر پیش کررہے ہیں۔
یہ درست کہ رائے شماری میں حصہ لینے والے دو تہائی ممالک نے قرارداد کی حمایت کی اور اس پر واشنگٹن کو مبارک سلامت کے ڈونگرے برسانے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اگر اسے مجلس کے کُل 193ارکان کے تناسب سے دیکھا جائے تو جنرل اسمبلی کے نصف سے بھی کم ارکان نے قرارداد کی حمایت میں ہاتھ بلند کیے۔ 18 ممالک اجلاس سے غیر حاضر رہے اور وہاں موجود 58 ارکان رائے شماری کے دوران غیر جانب دار رہے۔
مسلم دنیا یعنی OIC کے 57ملکوں میں سے صرف ترکی، چاڈ، لیبیا اور البانیہ نے حمایت کی۔ الجزائر، ایران اور شام سمیت 10مسلم ممالک نے مخالفت میں ووٹ ڈالے، اور باقی تمام مسلم اکثریتی ممالک غیر حاضر یا غیر جانب دار رہے
سارے براعظم افریقہ سے صرف چاڈ اور لیبیا نے حمایت کی، 6 ممالک مخالفت میں کھڑے ہوئے اور باقیوں نے غیر جانب داری کا علَم بلند کیا۔ حال ہی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا مراکش، اجلاس میں سرے سے شریک ہی نہیں ہوا۔ اسرائیل کا دوسرا نیا افریقی دوست سوڈان غیر جانب دار رہا اور مغرب کی کوششوں سے سوڈان کو دوٹکڑے کرکے جنوبی سوڈان کے نام سے جو ملک تراشا گیا ہے اُس نے بھی امریکہ کی حمایت کے بجائے غیر جانب دار رہنے کو ترجیح دی۔
ہندوستان اور سعودی عرب سمیت امریکہ کے غیر یورپی اتحادیوں میں سے کسی ایک نے بھی قرارداد کی حمایت نہیں کی، اور سب کے سب خود کو غیر جانب داری کے گھونگھٹ میں چھپائے رہے۔
وسط ایشیا سے قرارداد کو ایک بھی ووٹ نہ ملا۔ قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان نے مخالفت کی، جبکہ آذربائیجان اور ترکمانستان اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ افغانستان کی رکنیت عملاً معطل ہے۔
برصغیر کے تینوں ممالک یعنی پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش رائے شماری کے دوران غیر جانب دار رہے۔ ایشیا میں ترکی، فلپائن، جنوبی کوریا، جاپان اور برما کے سوا تمام ایشیائی ممالک مخالف یا غیر جانب دار رہے۔
مشرق وسطیٰ میں صرف اسرائیل نے دوستی کا حق ادا کیا۔ واشنگٹن کے تمام خلیجی اتحادی اور مصر غیر جانب دار رہے۔
اس سے پہلے 26 فروری کو سلامتی کونسل میں رائے شماری کے دوران بھی ہندوستان اور متحدہ عرب امارات غیر جانب دار رہے تھے۔ یوکرین میں فوری جنگ بندی کی اس قرارداد کو روس نے ویٹو کرکے غیر مؤثر کردیا تھا۔ اس موقع پر چین نے مخالفت کے بجائے غیر جانب دار رہنے کو ترجیح دی تھی جسے واشنگٹن میں ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا گیا۔
میدانِ سفارت کے ساتھ امریکہ کو مالیاتی محاذ پر بھی شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ واشنگٹن نے روس پر جو اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں اُن میں سب سے اہم امریکہ، جاپان، برطانیہ اور یورپی یونین کے بینک ہائے دولت (State Banks) کی وہ ہدایت ہے جس کے تحت امریکی ڈالر، برطانوی پائونڈ، یورو اور جاپانی ین میں کوئی رقم روسی بینکوں کو منتقل نہیں کی جاسکتی۔ عالمی نیٹ ورک سے تعلق مسدود کرنے کے لیے رابطے کے محفوظ نظام SWIFTیا BIC Codeسے روس کا رابطہ ختم کردیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں روسی بینکوں کے لیے نہ صرف غیر ملکی مالیاتی اداروں سے لین دین مشکل ہوگیا ہے بلکہ اب روسی صارفین اپنے ملک میں اعتباری (Credit)کارڈ بھی استعمال نہیں کرسکتے۔
ان پابندیوں کی وجہ سے یورپ کو فروخت کی جانے والی گیس کی ادائیگی معطل ہے، یعنی صارفین روسی توانائی سے تو مستفید ہورہے ہیں لیکن روس کو قیمت کی ادائیگی نہیں ہورہی۔ لطف یہ کہ گیس فراہم کرنے والے روسی ادارےGazprom اور یورپی تقسیم کنندگان کے درمیان جو معاہدے ہیں ان کی رو سے ”عدم ادائیگی“ کا اطلاق بھی قانونی طور پر ممکن نہیں، کہ ادائیگی کے لیے خریداروں کی صلاحیت اور نیت دونوں بہت واضح ہیں۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ ہم نے بل کی رقم آپ کے کھاتے میں جمع کرادی ہے، رقم کی منتقلی کے لیے آپ کے دیے ہوئے SWIFTکوڈ کی ہمارا بینک تصدیق نہیں کر پارہا جس کی وجہ سے رقم کی منتقلی میں خلل پڑرہا ہے۔
امریکی حالیہ پابندیوں کا ہدف روس ہے لیکن وینزویلا، ایران اور شمالی کوریا ان پابندیوں کو بہت پہلے سے بھگت رہے ہیں۔ چین بھی امریکہ کے اس ہتھیار یعنی ڈالر کی اجارہ داری سے خوف زدہ ہے۔ اسی بنا پر بیجنگ درآمد و برآمد کے لیے ڈالر کے بجائے اپنی کرنسی یووان (Yuan)میں لین دین کرنا چاہتا ہے، اور وہ اپنی ان کوششوں میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوتا نظر آرہا ہے۔ روس اور چین باہمی تجارت روسی روبل (Ruble) اور چینی یووان میں کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ شنید ہے کہ سعودی عرب، چین سے اپنے تیل کی قیمت یووان میں وصول کرنے پر آمادہ ہے۔ کچھ ایسی ہی خبریں متحدہ عرب امارات اور قطر سے بھی آرہی ہیں۔ روبل، یووان اور مقامی کرنسیوں میں لین دین سے جہاں ایشیائی ممالک کا ٖڈالر پر انحصار کم ہوگا وہیں روس پر لگائی جانے والی پابندیاں بھی قدرے غیر مؤثر ہوجائیں گی۔
بھارت نے سرکاری طور پر اب تک روبل میں لین دین کا اعلان نہیں کیا لیکن خبر گرم ہے کہ بھارت کی قومی توانائی کمپنی ONGCکا ذیلی دارہ او این جی سی ودیش لمیٹڈ(OVL) اپنی بیرونِ ہند شاخوں کے ذریعے روسی تیل روبل میں خرید کر ہندوستان بھیجنے پر غور کررہا ہے۔ او وی ایل کے اثاثے برازیل، قازقستاں، ویت نام، شام، بنگلہ دیش، لیبیا اور عراق سمیت دنیا بھر کے 37 سے ممالک میں ہیں۔ روس میں سائبیریا کے علاوہ جزیرہ سخالن (Sakhalin)پر او وی ایل کئی پیداواری اثاثوں کا مالک ہے جن میں سخالن ایک (Sakhalin-1) میدان میں او وی ایل کا حصہ 20 فیصد ہے۔ اس میدان سے تیل کی پیداوار کا تخمینہ سوا دو لاکھ بیرل یومیہ سے زیادہ ہے۔ تیل کے علاوہ یہاں سے گزشتہ سال 12 ارب مکعب میٹر گیس بھی حاصل کی گئی۔ اس مشارکے میں امریکی تیل کمپنی ایکسون (Exxon)کا حصہ 30 فیصد ہے۔ پابندیوں کی بنا پر ایکسون یہاں سے نکلنا چاہتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ مشارکے میں ایکسون کے حصص اووی ایل خرید لے۔
بھارت معاہدہ اربعہ (QUAD)کا سرگرم رکن ہے۔ بحرالکاہل سے بحرہند کو نکلنے والے راستوں کی نگرانی کے لیے یہ اتحاد ہندوستان، جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ امریکہ کے دفاعی ماہرین کواڈ کو بحرہند کا نیٹو کہتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت روسی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس کے ماسکو سے مراسم خاصے گہرے ہیں، چنانچہ یوکرین کے معاملے پر دہلی کی غیر جانب داری بلکہ کسی حد تک روس کی طرف جھکائو واشنگٹن کے لیے حیرت کا باعث نہیں۔
مارچ کے آخر میں کریملن نے جو صدارتی فرمان جاری کیا ہے اس کے بارے میں ہم گزشتہ نشست میں تفصیل سے بتا چکے ہیں۔ اس حکم میں بہت صراحت سے کہا گیا ہے کہ یکم اپریل سے یورپ کو فراہم کی جانے والی گیس کی قیمت روبل میں وصول کی جائے گی۔ صدارتی فرمان کے بعد Gazprom قانونی طور پر قیمتیں روبل میں لینے کی پابند ہوگئی ہے۔ حسبِ توقع مغربی حکومتوں نے اس مطالبے کو یہ کہہ کر ترنت مسترد کردیا کہ خرید و فروخت کے معاہدوں میں ان کرنسیوں کا تعین کیا جاچکا ہے جس میں یک طرفہ تبدیلی معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
لیکن 5 اپریل کو آسڑیا کی توانائی کمپنی OMVنے روسی ادارےGazprom سے ایک معاہدے پر رضامندی ظاہر کردی ہے جس کے تحت او ایم وی روسی گیس کی قیمت روبل میں ادا کرے گی۔ دوسرے دن دارالحکومت بڈاپیسٹ (Budapest) میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربن نے بھی روسی گیس کی قیمت روبل میں ادا کرنے کا عندیہ دے دیا۔ جب ایک صحافی نے ان سے یورپی یونین کی جانب سے روس کے معاشی بائیکاٹ کا ذکر کیا تو جناب اوربن نے کہا: یہ روس اور ہنگری کا باہمی معاہدہ ہے جس کا یونین یا نیٹو سے کوئی تعلق نہیں۔
کچھ ایسی ہی خبریں سلاواکیہ (Slovakia)سے بھی آرہی ہیں۔ سلاوک وزیر اقتصادیات رچرڈ سولک نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ سلاواکیہ روسی تیل اور گیس کی قیمت روبل میں ادا کرنے کو تیار ہے۔ تاہم پولینڈ کی سرکاری تیل کمپنی PGNiG کے سربراہ پال میجیسکی نے کہا کہ ان کا ادارہ معاہدے کی پاس داری کرتے ہوئے یورو میں ادائیگی جاری رکھے گا۔
غیر یورپی اتحادیوں کی سردمہری اور لین دین کے لیے روبل پر رضامندی سے امریکہ بہادر سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ امریکی مرکز ہائے دانش (Think Tanks)میں اس معاملے پر تفصیلی بحث مباحثہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف امریکی جرنیلوں کا خیال ہے کہ یوکرین کی جنگ جلد ختم ہونے والی نہیں۔ گزشتہ دنوں ایوانِ نمائندگان(قومی اسمبلی) کی مجلسِ قائمہ برائے دفاع کے سامنے بیان دیتے ہوئے امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے کہا کہ اثر رسوخ بڑھانے کے لیے عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی اور اسلحے کی دوڑ میں تیزی آرہی ہے اور اس خطرے کے سدباب کے لیے مالیاتی، عسکری اور سفارتی ہرسطح پر مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔
روس نے نیٹو کی متوقع رکنیت کو یوکرین پر حملے کا جواز بنایا ہے۔ اس کے باوجود نیٹو میں توسیع کی مہم جاری ہے۔ گزشتہ دنوں نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اگر فن لینڈ اور سوئیڈن نیٹو کی رکنیت اختیار کرنا چاہیں تو انھیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ فن لینڈ کی 1340کلومیٹر طویل سرحد روس سے ملی ہوئی ہے۔ نیٹو کی اس پیشکش پر تبصرہ کرتے ہوئے فن لینڈ کی وزیراعظم محترمہ ثنا میرن نے فرمایا کہ نیٹو کی چھتری کے نیچے آنے میں فائدے کے ساتھ نقصان اور خطرات بھی ہیں۔ ان کی حکومت متوقع امکانات، مواقع اور مضمرات کا جائزہ لے رہی ہے۔
امریکی اثر رسوخ میں کمی سے جہاں امریکی وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ کے بابوئوں کو شدید تشویش ہے، وہیں صدر بائیڈن اپنی صدارت کے بارے میں بھی اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہیں۔ اس سال نومبر میں یہاں پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں جب ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کی تمام کی تمام 435 اور سینیٹ کی 100میں سے 34 نشستوں پر چنائو ہوگا۔ سینیٹ میں صدر بائیڈن اور حزب اختلاف کی ری بپلکن پارٹی 50-50سے برابر ہیں، جبکہ مہنگائی کی وجہ سے رائے عامہ کے جائزے برسرِاقتدار جماعت کے لیے بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ دوسرے معاملات کے علاوہ امریکہ کے قدامت پسندوں نے عالمی مالیاتی نظام میں ڈالر کی کمزور ہوتی گرفت کا الزام صدر بائیڈن پر لگانا شروع کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹ صدر قائدانہ صلاحیت سے محروم ہیں جس کی وجہ سے عالمی اسٹیج پر امریکہ اپنے اتحادی اور اثر رسوخ کھورہا ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں خود کو دبنگ ثابت کرنے کے ہونکے میں امریکی صدر کوئی ایسا قدم نہ اٹھالیں جس سے عالمی امن خطرے میں پڑ جائے۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹوئٹر Masood@ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔