کتاب
:
مخطوطاتِ تاریخ و حدیث
(قدیم عربی پپائرس کا مجموعہ)
مصنفہ
:
نابیہ ایبٹ
مترجم
:
ریحان عمر
صفحات
:
659 قیمت:2000روپے
ناشر
:
قرطاس، کراچی
رابطہ
:
03213899909
دریائے نیل کے ساتھ اگنے والے ایک پودے کو قدیم مصر میں کتابت کے لیے ایک طرح کا کاغذ بنانے میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اس پودے کو پپائرس پودا (papyrus plant) کہا جاتا ہے اور اس سے تیار ہونے والا ورق ’پپائرس‘ (جمع: papyri) کہلاتا ہے۔ عربی میں اسے القرطاس المصری، ورق البردی اور ابردی بھی کہتے ہیں۔ سطح میں چپک کی وجہ سے اس کی روشنائی دیر تک قائم رہتی ہے۔ دوسری تحریر لکھنے کے لیے اسے دھویا بھی جاسکتا ہے۔ اسے تہہ بھی کیا جا سکتا ہے اور رول بناکر بھی رکھا جاسکتا ہے۔ کئی اوراق پر مبنی اس رول کو کئی کئی فٹ لمبی شیٹ کی شکل بھی دی جاسکتی ہے۔ یہی ’پپائرس‘ کم ازکم 3000 ق۔ م۔ میں بھی مصر میں کتابت کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ رومیوں اور بازنطینیوں نے اسے سرکاری دستاویزات میں برتا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت سے لے کر پورے اموی اور اوائل عباسی دور میں لکھنے لکھانے کے لیے مسلمان بھی اسے استعمال کرتے رہے۔
جب رومیوں، بازنطینیوں اور اسلامی ادوار کے پپائرس مخطوطات دریافت ہوئے تو ان تحریری دستاویزات کی اقسام، ساخت، تالیف و تصنیف، روشنائی، رسم الخط، طرزکتابت و انشاء، تاریخ، ملکیت کا تجزیہ و مطالعہ وقت کے ساتھ باقاعدہ ایک شعبہ علم پپائرولوجی (papyrology) میں ڈھل گیا۔ پھر مخطوطات کب، کہاں، کس لیے اور کس کے لیے لکھے گئے، ان کا کاتب و مالک کون تھا، مخطوطے کی تاریخ، اس کے متن کی نقل و روایت، کتابیں، کتابیں جمع کرنے والے اور کتب خانوں جیسے امور پر تحقیق کو کوڈیکولوجی (codicology) یا مخطوطہ شناسی (manuscriptology)سے موسوم کیا جانے لگا۔ جب کہ فن تحریر شناسی یا علمِ تحاریر قدیمہ (Palaeography) ان شعبوں میں ایک اور اہم شعبہ ہے جس میں سامانِ کتابت مثلاً روشنائی، طرزِ تحریر و انشاء، رسم الخط جیسے امور سے (اگر دستاویز میں تاریخ درج نہ ہو تو) تحریر کا زمانہ متعین کیا جاتا ہے۔
سلوسترے دی ساسی (Silvertre de Sacy) وہ پہلا اسکالر تھا جس نے 1825ء میں عربی پپائرس کی طرف توجہ مبذول کروائی اور ’مجلہ علماء‘ (Journal des savans) میں دو پپائرس شائع کیے، جس کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلا گیا۔ پیش نظر کتاب کی مصنفہ نابیہ ایبٹ (1897ء۔1981ء) نے 1933ء میں پی ایچ۔ ڈی کے لیے اورینٹل انسٹی ٹیوٹ میں ”افروڈٹو کی قرہ پپائری“ (The Kurrah Papyri from Aphrodito in the Oriental Institute) کے عنوان سے ان پپائرسوں پر کام کیا جو شکاگو سے1939ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ فاضل محققہ نے پپائرولوجی کی تاریخ، عربی کتابت، قرہ کے چھے پپائرسوں پر تحقیق کے ساتھ ساتھ مصر کی اسلامی فتح، قرہ کی سوانح پر روشنی ڈالی اور اس سے منسوب ناروا باتوں کی ان پپائرسوں کی روشنی میں تفصیلاً تردید کی۔
یہ پپائرس ازمنہ گزشتہ کی معاشرت، صنعت و تجارت اور حکومت کے بارے میں بیش بہا معلومات کا براہِ راست ذریعہ ہیں۔ انھی پپائرس دستاویزات سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ”پاسپورٹ“کی ایجاد کا سہرا بھی مسلمانوں کے سر ہے۔ پپائرس پر درج تحریروں سے عربی خط کی نشوونما سے متعلق ایک دیرینہ مسئلہ بھی حل کرنے میں مدد ملی ہے، اور یہ معلوم ہوا ہے کہ اسلام سے قبل بھی اعراب اور ہم شکل حروف میں امتیاز کے لیے نقطے استعمال کیے جاتے تھے۔
مستشرقین کو عام طور پر اسلامی تاریخی ادبی مصادر پر شکوک و شبہات لاحق رہے ہیں۔ اسلامی مصادر پر عدم اطمینان انھیں کلی انکار کی طرف لے جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اسلامی ذخیرئہ حدیث و تاریخ چوں کہ ٹھوس دستاویزی ثبوت و شواہد سے محروم ہے اس لیے اسے علمی ابحاث میں بنیاد بنانا مشکل ہے۔ جب کہ نابیہ ایبٹ نے قدیم پپائرس مخطوطات کے اپنے تحقیقی مطالعے کے بعد یہ اعلان کیا کہ مخطوطاتی روایت روایتی بیانیہ کی تائید کرتی ہے۔ اور ان کے نزدیک تاریخی ثبوت و شواہد کا تنقیدی اور مفصل تجزیہ روایتی مؤقف کی تائید کرتا ہے۔ پپائرس سے ملنے والے مواد کا اسلامی تاریخی مصادر سے موازنہ کرکے دیکھا گیا تو اس سے اسلامی مؤرخین کی تاریخوں کی عمومی صحت ہی کا اظہار ہوا۔ قرہ پپائری، شمالی عربی خط جیسی کتابوں اور الف لیلہ کے پپائرس پر مقالے کے بعد نابیہ ایبٹ نے ”عربی ادبی پپائری“ کے عنوان سے پپائرس مطالعات کے ایک سلسلے کا آغاز کیا جس نے اس شعبے میں انقلاب برپا کردیا۔ اس سیریز میں تین جلدیں شامل ہیں: جلد1: تاریخی تحریریں، جلد2: تفسیرقرآن اور حدیث، جلد3:زبان وادب
پیش نظر کتاب اس سلسلے کی دوسری اور تیسری جلد کا ترجمہ ہے۔ تاریخی متون پر مشتمل جلد میں نابیہ ایبٹ نے اپنے مبسوط مقدمے میں ادبی تحریروں میں برتے جانے والے خطوط اور کاتبانہ اعمال و عادات، مسلمانوں میں اسلام کے پیدا کردہ تاریخی شعور، اور مسلمانوں کی اولین تاریخ نویسی کے نشو و ارتقاء پر مفصل گفتگو کی ہے۔ اس کے بعد آٹھ پپائرس دستاویزات کا جائزہ لیا ہے جن میں سیرت ابن ہشام، تاریخ الخلفاء ابن اسحٰق اور ابن عقدہ کی ذکرالنبی جیسی تحریریں شامل ہیں۔ پپائرس کے مطالعے میں مروجہ طریقہ کار کے مطابق ہر دستاویز میں اس دستاویز کی کیفیت، اس کا رسم الخط وغیرہ بیان کرنے کے بعد متن، اس کا ترجمہ اور پھر ہر سطر کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ پھر اس پر بحث کی گئی ہے کہ زیربحث دستاویز کہاں اور کس نے لکھی۔ ساتھ ساتھ فاضل مصنفہ نے اسلامی تاریخ، ادب، حدیث اور اسمائے رجال و طبقات اور غیراسلامی مصادر اور جدید تحقیقات سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔
تفسیر و حدیث پر مشتمل دوسری جلد کے حصہ اوّل میں نابیہ ایبٹ نے حدیث کی نشوونما، شروع دن سے کتابتِ حدیث اور اس کے تسلسل، ذخیرئہ حدیث کی وسعت، حفاظت اور صحت پر، اور دوسرے حصے میں حدیث کی چودہ پپائرس دستاویزات کا جائزہ لیا ہے۔ ان دستاویزات میں مقاتل بن سلیمان کی الوجوہ والنظائر، موطا امام مالک، قتیبہ بن سعید، فضل بن غانم، یحییٰ بن سعید انصاری، رشدین بن سعد، بقیہ بن ولید، اسد بن موسیٰ، علی بن معبدکبیر اور صغیر سے منسوب تحریریں شامل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ فاضل مصنفہ نے ذخیرئہ حدیث پر دیگر مستشرقین کے اعتراضات کا بھی رد کیا ہے، اور باربار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ کتابت و حفاظتِ حدیث کا آغاز صحابہ کرام کے عہدِ مبارک ہی سے ہوچکا تھا اور یہ سلسلہِ کتابت وحفاظتِ حدیث تدوینِ کتب ِصحاح تک پورے تسلسل سے جاری رہا، اور اس کاسب سے راست اور ٹھوس ثبوت یہ پپائرس دستاویزات ہیں۔ دوسری طرف ان دستاویزات سے اسلامی تاریخی مصادرکی صحت کی تائیدکی طرف بھی وہ مسلسل اشارے کرتی جاتی ہیں۔
اسلامی فنِ تاریخ و حدیث پر مشتمل ان اہم تحقیقات کے پیش نظر جناب ریحان عمر نے اپنی علمی ذمے داری سمجھتے ہوئے اس قدرے مشکل کتاب کا ترجمہ بڑی عرق ریزی اور اس امید کے ساتھ کیا ہے کہ یہ ترجمہ ایک طرف ذخیرئہ تاریخ و حدیث کی صحت پر اہم و جدید دلائل کی فراہمی کا باعث ہوگا اور دوسری جانب مغربی علمی دنیا میں پپائرس اور اس سے مربوط ابحاث کو سمجھنے اور ان پر اردو میں بھی کام کرنے کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی وجہ بنے گا۔ ضمناً خلفائے بنوامیہ، ان کی علمی فیاضیوں، ان کی جانب سے اکابر علماء و فقہاء کی سرپرستیوں، اور دربار اموی سے ان کی وابستگیوں کا شاندار پہلو بھی اجاگر ہوگا۔
فاضل مترجم لکھتے ہیں:
”اس سلسلہِ تحقیقات میں فاضل مصنفہ نے بالکل خالی الذہن ہوکر دستاویزات کا جائزہ لیا ہے۔ پپائرس کی غیر مکمل عبارتوں میں وارد ہونے والے لوگوں، کتابوں، جگہوں اور مضامین کا کتبِ تاریخِ طبقات اور دفاترِحدیث و اسمائے رجال میں کھوج لگایا ہے۔ گویا جس طرح کوئی تفتیشی افسر کسی واقعے کی چھان بین میں بظاہرادنیٰ و غیر متعلقہ ثبوت وشواہدکی مددسے اصل وقوعہ تک پہنچ جاتاہے بعینہٖ اسی طریقے سے ہماری فاضل مصنفہ ان قدیم دستاویزات کے باقی ماندہ اشاروں سے کام لیتی ہوئی آہستہ آہستہ تحریر کے اصل منبع ومصنف تک جاپہنچتی ہیں۔تلاش و تفحص کایہ پوراسفرقارئین کو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ کسی قدرسنسنی خیزبھی محسوس ہوگا۔ اس طرزِتحقیق سے برآمدہونے والے نتائج چونکہ بے لاگ ہیں اس لیے دل ودماغ کو سخت متاثربھی کرتے ہیں اورخود فاضل مصنفہ جن بعض مغربی تحقیقات کودرست سمجھتی تھیں اپنی اس تحقیق کے بعدوہ بھی روایتی بیانیے کوقبول کرنے پرمجبورہوگئیں۔یہی وجہ ہے کہ مغرب میں فنِ حدیث پران کتابوں کے بعد شاید ہی کوئی جدیدتحقیق سامنے آئی ہو جس میں نابیہ ایبٹ کاحوالہ نہ دیاگیاہو۔“
فاضل مترجم کا انتہائی عالمانہ علمی و تحقیقی مقدمہ کتاب کی اہمیت کو بخوبی واضح کرتا ہے اور مفید معلومات فراہم کرتا ہے۔(یہ مقدمہ اس قابل ہے کہ اسے استفادئہ عام کے لیے الگ سے بھی ضرور شائع کیا جانا چاہیے۔)
پیش نظر کتاب میں شامل دستاویزات قبل اسلامی اور قدیم اسلامی تاریخ کے 9 شعبوں اور کئی ادوار سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا دائرئہ کار قصہِ آفرینش سے لے کر دسویں صدی عیسوی کی عسکری تاریخ جیسے موضوعات پر محیط ہے۔ پپائرس قطعات کی تاریخیں اندازاً وسط آٹھویں سے وسط دسویں صدی عیسوی تک قریباً دو سو برس پر پھیلی ہوئی ہیں۔ مزید، یہ مخطوطات زیادہ تر قدیم ترین اسلامی مؤرخین سے تعلق رکھتے ہیں، ہرچند کہ ان میں سے بعض کی شناخت اب تک نہیں کی جاسکی۔ پھر، ان میں سے ہر پپائرس اس شعبہِ علم کا جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، بلاشک و شبہ محفوظ رہ جانے والا قدیم ترین معلوم مخطوطہ ہے۔ ان کی انتہائی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ دستاویزات اسلامی تاریخ نگاری کے منبع اور ابتدائی منہج کے ’کب‘، ’کیوں‘اور ’کیسے‘ سے بلاواسطہ و بالواسطہ تعلق رکھتی ہیں۔
مشہور مستشرق ایچ۔ اے۔ آر۔ گب (1895ء۔1971ء) کی رائے بھی قابل ِ ذکر ہے:
”پروفیسر ایبٹ نے ان دستاویزات کے ادبی علمی مواد اور متعلقات کو جس جامعیت اور استادانہ طریقے سے پیش کیا ہے وہ بلاشک و شبہ متاثر کن ہے۔ پروفیسر ایبٹ نے جلد کے شروع میں قدیم اسلامی تاریخ نویسی پر جو تفصیل پیش کی ہے، اس پر ہم خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس ریویو کا اختتام کرتے ہیں۔ بے شک، اس موضوع پر یہ حرفِ آخر نہیں، تاہم انھوں نے راستہ صاف کردیا ہے، اور یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ عرصہ دراز سے قائم بہت سے مزعومات، اسی طرح بعض جدید بے بنیاد تصورات کے تناظر میں، پروفیسر ایبٹ نے (اسلامی ادبیات کی) پوری بحث کو ہی حقیقی مواد اور استدلال کی کہیں زیادہ ٹھوس بنیاد پر قائم کردیا ہے۔“
یہ کتاب اردو زبان میں اسلامی ادبیات کے موضوع پر ایک گراں قدر اور بیش بہا اضافہ ہے۔ اس وقیع علمی خدمت کی انجام دہی پر فاضل مترجم جناب ریحان عمر اور ناشر (قرطاس، کراچی) لائقِ صد تحسین و قابل ِ صد مبارک باد ہیں۔
nn