تحقیقی رسائل کے اشاریوں کا انسائیکلوپیڈیا [یونیورسٹیوں کے لیے روشن مثال

دنیا میں کسی معاشرہ کی ترقی کے لیے علم و تحقیق ایک لازمی جز ہے جس کا حکم ربّ العزت نے اپنی کتاب ’’فرقان حمید‘‘ میں بارہا دیا ہے۔ تحقیق دراصل حقائق کو تلاش کرنے اور چھپی ہوئی چیزوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا نام ہے۔ تحقیق کے لغوی معنی کھوج، دریافت، تلاش، چھان بین وغیرہ کے ہیں ۔ آج کے جدید سائنسی دور میں تحقیق زندگی کا لازمی جزو قرار دی جاچکی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے کی طرح تعلیمی میدان میں اس کی حیثیت اظہر من الشمس ہے۔ تقریباً دنیا کی تمام زبانوں میں تخلیقی اور تنقیدی ادب کے ساتھ ساتھ تحقیق کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ کیونکہ کسی موضوع پر تخلیق یا تنقید سے پہلے یہ جاننا کہ اس موضوع پر پہلے کیا کام ہوچکا ہے اس کی تلاش، کھوج ہی تحقیق ہے اس کے بغیر نئی تخلیق ادھوری قرار پاتی ہے۔
کسی بھی موضوع پر تحقیق کے لیے رسائل وجرائد ایک بنیادی ماخذ قرار دیے جاچکے ہیں کیونکہ ان رسائل میں شائع شدہ مواد نہ صرف اپنے اپنے زمانے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ایک موضوع پر بیسیوں اہل علم و قلم کی تحریرات کو سامنے لاکر محقق کو نہ صرف قدیم تحقیق سے آگاہی ملتی ہے بلکہ نئے گوشے بھی وا ہوتے ہیں۔ ان رسائل میں موجود مواد محقق کو بیسیوں کتب سے بے نیاز کردیتا ہے کیونکہ وہ مواد کتب میں نہیں ملتا۔ رسائل و جرائد کسی ملک ، قوم بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں تحقیق کرنے اور تاریخ کو مدوّن کرنے میں ایک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ کوئی بھی مورخ یا محقق ان کے بغیر اپنی تحقیق کو ’مکمل‘ نہیں کہہ سکتا۔
اردو زبان میں گزشتہ ڈیڑھ پونے دو سو برس میں شائع ہونے والے رسائل و جرائد میں نہ صرف برصغیر پاک وہند کی سیاسی، ادبی، معاشرتی، معاشی، لسانی تاریخ موجود ہے بلکہ مذہب کے تقریباً ہر مسئلے کے حوالے سے ان میں سیکڑوں محققین کے مقالات و نگارشات موجود ہیں۔ ان ہزاروں رسائل و جرائد میں کسی موضوع پر مواد یا مضامین تلاش کرنا کسی ’’جوئے شیر لانے‘‘ سے کم نہیں ہوتا۔ پہلا مشکل ترین مرحلہ تو ان رسائل کی قدیم فائلوں کی تلاش ہوتا ہے اور اس کے بعد ان ہزاروں شماروں میں سے متعلقہ مواد کی تلاش بھی مشکل ترین ہوتی ہے۔ اس مشکل ترین کام کرنے اور ان رسائل میں سے تحقیقی مواد کا اس اندازمیں سامنے لانے کہ محقق کے لیے آسان تر ہوجائے، لائبریری سائنس کے تحت ان کی اشاریہ سازی کی جاتی ہے۔اشاریہ سازی بنیادی طور لائبریری سائنس کی وہ شاخ ہے جو کہ بلاشبہ تحقیق کے ہر میدان میں ایک لازمی اور بنیادی جز قرار دی جاتی ہے۔
اشاریہ سازی جس قدر ضروری کام ہے اُسی قدر یہ انتہائی کٹھن کام بھی ہے۔ محقق اس کے بغیر نہ صرف بہت زیادہ سرمایہ صرف کردیتا ہے بلکہ اپنا قیمتی وقت اور صلاحیتیں صرف سابقہ مواد تک رسائی حاصل کرنے میں صرف کردیتا ہے۔ اشاریہ سازی سے نہ صرف محقق کا سرمایہ، وقت بچتا ہے بلکہ اس کی صلاحیتیں بھی تحقیق کے لیے بچ جاتی ہیں۔ لیکن اس کٹھن کام کو سرانجام دینے میں اشاریہ ساز کو جس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ صرف وہ جانتا ہے جو اس میدان سے گزرتا ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے اس کو رسالوں کی تلاش میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس کے لیے مختلف ذاتی، سرکاری لائبریریوں کو کھنگالنا پڑتا ہے۔ رسالوں کی تلاش و رسائی، ان کی فہرست سازی اور اس کے بعد لائبریری سائنس کے اصولوں کے مطابق اشاریہ سازی ایک بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
اس حوالے سے بنیادی المیہ ہے کہ خاص طور پر پاکستان میں سرکاری طور پر ادارے اور جامعات میں شعبہ جات موجود ہیں ہونے کے باوجود پر اس اہم ترین تحقیقی لوازمے کی جمع و تدوین یا اشاریہ سازی کو باقاعدہ احسن انداز میں انجام نہیں دیا جارہا ہے۔ انفرادی اور ذاتی کاوشیں سامنے آنے کے علاوہ بعض جامعات میں ایم اے، ایم فل وغیرہ کے سندی مقالات کے لیے اشاریہ سازی کا کام کروایا جاتا ہے لیکن ان مقالات کی حالت تسلی بخش بھی نہیں اور دوسرا یہ کہ یہ مقالات ویسے بھی لائبریریوں کی زینت بننے کے بعد ان میں دفن ہوجاتے ہیں اور محقق ان تک نہیں پہنچ پاتے، اس کے باوجود مجموعی صورتِ حال الحمدللہ مایوس کن نہیں۔
پاکستان میں ربّ العزت کے فضل و کرم سے بعض افراد اور ادارے مستقل طور اس بنیادی کام کو کررہے ہیں جن میں ایک اہم نام محمد شاہد حنیف کا ہے۔ جنھوں نے پاک و ہند کے ۳۰ سے زائد دینی، علمی، ادبی اور تحقیقی رسائل و جرائد کی اشاریہ سازی کرکے اہل وعلم و قلم کے نئی راہیں ہموار کی ہیں۔ قدرت نے ان کو دیگر خوبیوں کے علاوہ اشاریہ سازی کے میدان میں اعلیٰ صلاحیتیں عطا کی ہیں، وہ اپنے رفقائے کرام کے ساتھ اس اہم ترین تحقیقی کام کو سرانجام دے رہے ہیں۔ موصوف کا نیا کارنامہ ’’تحقیقی رسائل کے اشاریوں کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ (’’موسوعہ فہارس مجلاتِ علمیہ‘‘) کے نام سے سامنے آچکا ہے۔
’’تحقیقی رسائل کے اشاریوں کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ … نہ صرف اُردو زبان بلکہ کسی بھی زبان میں اپنی نوعیت کا پہلا تحقیقی کارنامہ ہے۔ اشاریوں کے اس انسائیکلوپیڈیا جس میں برصغیر پاک و ہند کے نامور ۵۴علمی، دینی، ادبی اور تحقیقی جرائد کو شامل کیا گیا ہے۔ ان ۵۴ رسائل کے سات ہزار سے زائد شماروں کے لاکھوں صفحات میں پندرہ ہزار علمائے کرام، محققین، دانشور، ادبا اور شعرائے کرام کے ایک لاکھ مضامین کو سیکڑوں موضوعات میں تقسیم کرکے یہ کثیرالجہاتی اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ اشاریہ اکیس جلدوں اور گیارہ ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ دیگر خصوصیات کے علاوہ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کثیرالجہاتی مشترکہ اشاریے میں اہلِ حدیث، دیوبندی، بریلوی اور تحریکی حلقوں کے رسائل کے علاوہ پاکستان کی اہم یونیورسٹیوں کے علمی رسائل کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اشاریوں پر مشتمل اس انسائیکلوپیڈیا کی ترتیب و تدوین سے برصغیر کے ممتاز اہلِ علم و دانش ایک سوسالہ تحقیقات سے آگاہی آسان تر ہوگئی ہے۔ اس اشاریہ سے نہ صرف علومِ قرآنی، اعجاز القرآن، تدوین وحفاظت قرآن، علوم تفسیر، حجیت و فتنہ انکارِ حدیث، فقہ و اجتہاد، علومِ سیرت النبیؐ، سیروسوانح، اسلام اور مستشرقین، ادبیات، اقبالیات، غالبیات، غزلیات، شاعری بلکہ پاک وہ ہند کی تاریخ و علمی، سیاسی، ادبی تحریکات کے متعلقہ مواد بھی ایک نظر میں سامنے آگیا ہے۔ یہ کثیرالجہاتی اشاریے فاضل محقق محمد شاہد حنیف نے لائبریری سائنس کے اصولوں کے مطابق ترتیب دیتے ہوئے ترتیب زمانی، موضوع وار کے علاوہ مصنف وار ترتیب سے مزین کیا ہے۔
اس کثیر الجہاتی اشاریے کو دس ہزار سے بنیادی و ذیلی موضوعات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جس سے کسی بھی محقق کے لیے ان رسائل کے ہزارہا صفحات میں اپنے موضوع سے متعلقہ مواد کی تلاش ایک نظر میں ہوجاتی ہے۔ یعنی کوئی بھی محقق کسی اسلامی موضوع پر اپنے مواد کے لیے صرف اس کی فہرست کے ذریعے منزل مراد تک پہنچ سکتا ہے۔
’’موسوعہ فہارس مجلات علمیہ‘‘ کے عنوان سے مرتب اس انسائیکلوپیڈیا سے ان تحقیقی جرائد میں پاک و ہند اور بین الاقوامی کسی بھی مصنف کے شائع شدہ تمام مقالات و نگارشات کو ایک نظر میں ایک جگہ یکجا دیکھا جاسکتا ہے۔ مسلکی اور جماعتی حدبندیوں سے ماورا یہ انسائیکلوپیڈیا ایک شاہکار کارنامہ ہے۔ اس میں پاک و ہند کے قدیم ترین علمی رسالے جن میں ’’اشاعۃ السنۃ‘‘ (آغاز ۱۸۷۶ء)، ’’مرقع قادیانی‘‘ (آغاز: ۱۹۰۷ء)، ’’محدث‘‘ (آغاز: ۱۹۳۳ء)، ’’برہان‘‘ (آغاز: ۱۹۳۸ء) کے ساتھ ساتھ پاک وہند کے تحقیقی جرائد ’’محدث‘‘، ’’الحق‘‘، ’’الشریعہ‘‘، ’’رُشد‘‘، ’’فقہ اسلامی‘‘، ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘، ’’علوم القرآن‘‘، ’’تحقیقاتِ حدیث‘‘ اور ’’معارف مجلہ تحقیق‘‘ کے علاوہ جدید رسائل و جرائد بھی شامل کیے گئے ہیں، مزید براں پاکستانی یونیورسٹیوں کے تحقیقی رسائل بھی شامل اشاریہ ہیں۔ پاک و ہند کے گذشتہ ایک سو چالیس برس میں شائع ہونے ۵۴ منتخب رسائل کے سات ہزار شماروں کے اس شمارہ وار، مصنف وار اور موضوع وار اشاریوں پر مشتمل یہ انسائیکلوپیڈیا کسی پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالہ سے کم نہیں ہے بلکہ کئی وجوہات کی بنا پر یہ پی ایچ ڈی تحقیق سے بڑا علمی شاہکار ہے ۔ یہ تحقیقی سوغات ہر یونیورسٹی کے طلبا وطالبات، پروفیسرز اور دیگر محققین کے لیے کسی نعمت الٰہی سے کم نہیں۔
یہ انسائیکلوپیڈیا ملک کے نامور اور ممتاز محقق محمد شاہد حنیف نے اپنے رفقا سمیع الرحمن، محمد اصغر، محمد شفیق کوکب، محمد زاہد حنیف وغیرہ کے ساتھ مل کر اسلامک ریسرچ کونسل لاہور کے چیئرمین اور ماہنامہ ’’محدث‘‘ کے مدیر اعلیٰ جناب ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی کی زیرسرپرستی اور ڈاکٹر حافظ حسن مدنی کی علمی نگرانی میں مکمل کیا ہے جب کہ ڈاکٹر حافظ انس نضر اور ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی اس تحقیقی پروجیکٹ کے منتظم ہیں۔ پاک وہند کے رسائل و جرائد میں مدفون علمی خزانے کو سامنے لانے اور جدید انداز میں اشاریوں پر مشتمل اس ’’انسائیکلوپیڈیا‘‘ کی ترتیب و تدوین پر ادارہ کو بے حد مبارک باد پیش کرتے ہوئے اور فاضل مرتب محمدشاہد حنیف اور اُن کے رفقائے کار کو اس علمی کارنامے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ____ [بشکریہ روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ لاہور]