مشاعرے برصغیر کی ایک ایسی تہذیبی روایت ہیں جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں اور نہیں ملتی،پاکستان میں یہ روایت اس لحاظ سے ممتاز و ممیز ہے کہ یہاں مشاعروں میں آداب و تقدس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور شرکاء ان مشاعروں سے فرحت ہی حاصل نہیں کرتے بلکہ ان کی ادبی فضاء سے فیض یاب بھی ہوتے ہیں،ان مشاعروں میں جہاں شعراء اپنے اشعار میں بے خوفی و خوبصورتی کے ساتھ کہہ جاتے ہیں جسے کہنے کے لیےسماج کے دوسرے افراد نہ صرف کئی بار سوچتے ہیں بلکہ مصلحتوں کا شکار بھی ہوجاتے ہیں،لہذا مشاعرے جہاں اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں وہیں ہمارے معاشرے،سماج ،ہماری سیاست اور ماحول کی خوبیوں اور خامیوں کی طرف بھی توجہ مبذول کراتے ہیں اور پاکستان میں مشاعروں کی عظیم روایت کو ترقی دینے اور مسلسل جاری رکھنے میں ساکنان شہر قائد نے تاریخی کردار ادا کیا ہے،1989سے اب تک کراچی میں منعقد ہونے والے مشاعروں نےپاکستان کے تہذیبی اورادب کے میدان میں جو تاریخ مرتب کی ہے وہ آئندہ آنے والی نسلوں تک میدان ادب کی زمین کو سیراب کرتی رہے گی،ساکنان شہر قاید کے زیر اہتمام عالمی مشاعرے کی داغ بیل اظہر عباس ہاشمی ،سید صفوان اللہ،مسعود نقوی،ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور ان کے رفقاء کار نے ڈالی،1988 میں علم و ادب سے محبت کرنے والےکراچی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ کی تنظیم یونی کیرین کی جانب سے ایک اجلاس بلایا گیا اور اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہم ایک ادبی ماحول پیدا کرکے لوگوں میں امن و محبت کا پیغام عام کریں گےاور 1989 میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پہلا عالمی مشاعرہ منعقد ہوا اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے خوبصورت کہکشاں سجائی گئی ،ساکنان شہر قائد کے زیر اہتمام نیشنل اسٹیدیم کراچی میں ہونے والے اس پہلے عالمی مشاعرے میں 40 ہزار سے زائد سامعین نے شرکت کرکےعلم و ادب سے اپنی محبت کا بر ملا اظہار کیا ،1989 میں شروع ہونے والی یہ روایت آج بھی برقرار ہے اور ہر سال باقاعدگی کے ساتھ ساکنان شہر قاید عالمی مشاعرے کا انعقاد کرتی ہے،عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے دو سال تعطل کا شکار ہونے کے بعد 22 مارچ2022 کی شب ساکنان شہر قائد کی جانب سے کراچی ایکسپو سینٹر میں 27ویں عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا، اس مشاعرے میں ملک اور بیرون ملک سےشعراء کا خوبصورت گلدستہ سجایا گیا،جن شعراء نے 27 ویں عالمی مشاعرے میں اپنا کلام پیش کیا ان میں اکناف عالم سے اشفاق حسین (کینیڈا)،خالد عرفان (امریکہ)،عرفان مرتضیٰ (امریکہ)،ڈاکٹر حنا عمبرین طارق (کینیڈا)، ظہور اسلام جاوید(یو اے ای) اور سویڈن سے جمیل احسن شامل تھے،این او سی نہ ملنے کے باعث ہندوستان سے شعراء عالمی مشاعرے میں شریک نہیں ہوسکے،بیرون کراچی سے شریک شعراء میں افتخار عارف(اسلام آباد)،شکیل جاذب(اسلام آباد)،امجد اسلام امجد(لاہور)،عباس تابش(لاہور)،وصی شاہ(لاہور)،ڈاکٹر سعدیہ بشیر(لاہور)، رحمٰن فارس(فیصل آباد)،خالد ہما(گوادر)،قادر بخش سومرو (نوشہرو فیروز) اور عطااللہ عطاء(کشمیر) شامل تھے،27ویں عالمی مشاعرے میں کراچی سے جن شعراء نے اپنا کلام پیش کیا ان میں پروفیسر سحر انصاری ،ڈاکٹر پیرزادہ قاسم،انور شعور،احمد نوید،طارق سبزواری،اجمل سراج ،رخصانہ صباء،ناصرہ زبیری، شائستہ مفتی،قمر رضوی،وحید نور،سبیلہ انعام صدیقی،دلاور علی آزاد،ریحانہ روحی،جاوید صباءحکیم ناصف شامل تھےجنہوں نے اپنے خوبصورت کلام سے سامعین کے دل جیتے،27 ویں عالمی مشاعرے کے مہمان خصوصی معروف قانون دان سنیٹر اعتزاز احسن تھے جبکہ نظامت کے فرائض معروف شعراء وجیہہ ثانی اور عنبرین حسیب عنبرکے حصہ میں آئی اورمشاعرے کے آغاز سے اختتام تک اپنی ذمہ داری اس خوبصورتی سے نبھائی کہ شاعر اور سامعین کے مابین تعلق کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ مشاعرے میں ہر سال کی طرح جتنے خوبصورت شعراء شریک ہوئےسامعین بھی اتنے ہی باذوق تھے،اسٹیج پر مشاعرے کے ناظم کسی شاعر کو کلام پیش کرنے کے لئے ابھی مدعو ہی کرتے تو سامعین بلند آاواز میں شاعر کے اشعار پڑھ کر اپنی فرمائش کا اظہار کرتے، مشاعرے میں شریک مہمانوں میں صوبائی وزیر سعید غنی ،شہلا رضا،ڈی جی رینجرز سندھ میجرجنرل افتخار حسین چوہدری،کمشنر کراچی اقبال میمن،ڈاکٹر فاروق ستار،حافظ نعیم الرحمن،حیدر عباس رضوی،مرزا اختیار بیگ،مرزا اشتیاق بیگ، محمد احمد شاہ،سرمد علی ،واثق نعیم ، سید افضل حمید ، فہد احسن سمیت شہر کی دیگر قد آور شخصیات نے شرکت کی۔ایکسپو سینٹر کے کھلے مقام پر منعقد ہونے والا مشاعرہ اس لحاظ سے پاکستان کے ادبی افق پر نمایاں مقام رکھتا ہے کیونکہ عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث 2سال وقفہ کے بعد منعقد ہوااوردو سال کے وقفہ کے بعد منعقد ہونے کے باوجود اس مشاعرے میں سامعین کی تعداد 15 ہزار سے زائد سے تھی،مشاعرے میں شریک سامعین کے لیے بہت بڑا پنڈال سجایا گیا تھا جس میں کرسیوں کے علاوہ مشاعرے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے فرشی نشست کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس میں بڑی تعداد میں آرام دہ گائو تکیے لگائے گئے تھے،جہاں پر بیٹھ کر سامعین اپنے پسندیدہ شعراء کے اشعار سن کر محظوظ ہوتے رہے اور داد بھی دیتے رہے،شعراء کی نشست کے لیے ایک بلند وسیع و عریض اسٹیج بنایا گیا تھا،مشاعرے کو فیملی فیسٹیول کا رنگ دینے کے لئے کھانوں کے اسٹالز اور کتابوں کے اسٹالز کے علاوہ کوچہ ثقافت بھی بنایا گیا تھا جہاں پر پاکستان کی مختلف ثقافتوں کو اجاگر کیا گیا ،ساکنان شہر قایدکےزیر اہتمام منعقد ہونے والے عالمی مشاعروں میں اردو شاعری کا شاید ہی کوئی ایسا بڑانام باقی ہو جن کےاشعار نہ گونجیں ہوں،جس کی خوشبوئوں سے تہذیب و ادب کی فضاء اس قدر معطر ہے کہ آنے والی کئی نسلوں پر اس اثر باقی رہے گا۔عالمی مشاعرے کی ابتداء سے اب تک جن شعراء نے اپنی شرکت کرنے والوں کی یاد میں ان کی تصاویر اور اشعار بھی آویزاں کیے گئے تھےجس سے نئی نسل کو عالمی مشاعرے کی تاریخ سے روشناس کرایا گیا،22 مارچ 2022 کی شب شروع ہونے والے عالمی مشاعرہ میں رات کے 12 بجتے ہی پاکستان کا قومی ترانہ بجایا گیا اور مشاعرے میں شریک شعراء،مہمانان گرامی اور سامعین نے کھڑے ہوکر ہاتھوں میں تھامے قومی پرچم لہرا کر 23 مارچ یو م پاکستان کی
خوشی کا اظہار کیا۔اعتز ازاحسن کے کلام اور گفتگو سے مشاعرہ کا اختتام ہوا، سامعین نے جوش وخروش سے ان کا کلام سنا اور فرمائشیں کرتے رہےاور یہیں وجہ ہے کہ شہر قاید کے ساکنان کو ان مشاعروں کا شدت سے انتظار رہتا ہے،بقول ڈاکٹر جمیل جالبی ،شہر قاید کےیہ مشاعرے وہ روایات ہیں جس نے ہمارے باطن کی گہرائیوں میں حقیقی محبتوں کے جذبوں کو جنم دیا وہ روایت جس نے شائستگی،رواداری،اور رکھ رکھائو کو محفل شعر و سخن کو ہماری عام سماج اور تہذیبی اندگی کا حصہ بنا کر ہمیں خوش گوار اور لطیف زندگی بسر کرنے کا ایسا سلیقہ بخشا جو ہم سب کے لئے باعث رشک ہے،اس روایت نے ہماری تہذیب کو ایک نئی مہک اور خوشبو دے کر اسے گل و گلزار بنادیا۔ اظہر عباس ہاشمی نے اپنی زندگی میں ہی عالمی مشاعرے کی باگ ڈور محمود احمد خان کے حوالے کردی تھی بطور منتظم اعلیٰ محمود احمد خان عالمی مشاعرے کے انتظامات میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑی مشاعرے اعلان، تیاریوں اور پھر مشاعرے کے دن مشاعرے کے آغاز سے اختتام پر جس طرح محمود احمد خان اپنی ذمہ داریاں نبھاتے دکھائی دئے انہوں نے ثابت کردیا کہ اظہر عباس ہاشمی کا انتخاب درست تھا،اس حوالے سے محمود احمد خان نے کہا کہ عالمی مشاعرے کی ذمہ اریاںسنبھالناان کے لئے باعث فخر ہے۔ مشاعرے میں کراچی کے شہریوں نے بڑی تعداد میں شریک ہوکر یہ ثابت کردیا کہ کراچی کی فضاعلم و ادب سے ہم آہنگ ہے، ساکنان شہر قائد کے منتظمین جنہوں نے اپنی ان تھک محنت اور کوششوں سے نہ صرف عالمی مشاعرے کی اس روایت کو زندہ رکھا بلکہ اپنی بھر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مشاعرے کو کامیاب بنا کر شہر قائد کی ہوائوں کو شعر و سخن سے معطر کردیا،ساکنان شہر قائد کے منتظمین پیرزادہ قاسم رضا صدیقی ،محمود احمد خان ،فرحان الرحمٰن،جمال اظہر، پروفیسر اعجاز فاروقی،حاجی رفیق پردیسی، خالد شمسی اور ندیم ماز جی ، فہیم صدیقی ،اشرف میّا، فیصل ندیم، سید افضل حمید، راشد عالم وہ نام ہیں جن کا ذکر کئے بغیر ساکنان شہر قائد کے عالمی مشاعرے کا تذکرہ مکمل نہیں ہوسکتا۔