سوئیڈن میں 81 فیصد، فن لینڈ میں 70 فیصد، آسٹریا میں 30، جبکہ جرمنی میں صرف 3 فیصد آبادی کو ایٹمی حملے کی صورت میں بنکر کی سہولت میسر ہے
برسوں پہلے امریکہ میں ’’دی ڈے آفٹر‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی گئی تھی، جس میں ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کی عکاسی کی گئی تھی۔ اس فلم میں دکھایا گیا تھا کہ جو لوگ اینٹی نیوکلیئر بنکر تک پہنچنے میں کامیاب رہے تھے بس وہی بچ پائے تھے۔ یوکرین پر روس کی لشکرکشی کے بعد سے اب تک ایٹمی جنگ کی بات ہورہی ہے۔ اس سے امریکہ اور یورپ کے لوگ بہت خوف زدہ ہیں۔ اِس وقت مغرب کے باشندے یہ جاننے کے لیے بے تاب ہیں کہ ایٹمی جنگ کی صورت میں اُن کے بچنے کا امکان کتنے فیصد ہے، اور یہ کہ ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں سے مکمل طور پر محفوظ رہنے کی صورت کیا ہوسکتی ہے۔ مغرب کے باشندے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایٹمی جنگ چھڑی تو دیکھتے ہی دیکھتے کتنی تباہی واقع ہوگی۔ مغرب میں حکومتیں بھی ایسے بیانات جاری کرتی رہتی ہیں کہ اگر ایٹمی جنگ چھڑ جائے تو لوگوں کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے تیاریاں مکمل ہیں۔ اس تیاری کا مطلب ہے زیرِ زمین بنائے جانے والے اینٹی نیوکلیئر بنکر۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کے متعدد ممالک نے 1950ء کے عشرے میں ایٹمی جنگ کی تباہی سے بچاؤ ممکن بنانے والے بنکرز بنانے کی کوشش کی تھی۔ جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ چل رہی تھی تب برطانیہ میں کیلویڈون بنکر تیار کیا گیا تھا جو اب بھی استعمال میں ہے۔ زمانۂ امن میں یہ بنکر عجائب گھر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ہر سال ساٹھ ہزار افراد اِسے دیکھنے آتے ہیں۔ یہ بنکر باہر سے ایک عام سے مکان جیسا دکھائی دیتا ہے مگر جب اندر داخل ہوں تو پتا چلتا ہے کہ یہ تو اچھا خاصا زیرِ زمین ہے جس کی تین منزلوں میں ایک ہزار سے زائد افراد پناہ لے سکتے ہیں۔ یہ بنکر 1952ء میں ایسکس کاؤنٹی میں تیار کیا گیا تھا۔ ایسا ہی ایک بنکر وِلٹ شائر میں بھی ہے۔
سوئٹزر لینڈ میں جب بھی کوئی مکان تعمیر کیا جاتا ہے تو اُس کے تہہ خانے میں ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاری سے بچانے والا بنکر ضرور بنایا جاتا ہے۔ صرف رہائشی عمارتوں ہی میں نہیں بلکہ دفاتر، فیکٹریوں اور شاپنگ سینٹرز میں بھی ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاری سے بچاؤ کے بنکر بنائے جاتے ہیں۔ اس وقت سوئٹزرلینڈ کے 80 فیصد مکانات میں اینٹی نیوکلیئر بنکر موجود ہیں، اور ایسا انتظام موجود ہے کہ ایٹمی جنگ چھڑنے کی صورت میں سوئٹزرلینڈ کے لوگ محض ایک سائرن بجنے پر زیرِ زمین بنکرز میں پناہ لے لیں۔ یہ بنکر اس طور تعمیر کیے گئے ہیں کہ کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں سے حملوں کی صورت میں بھی لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ملک بھر میں واقع ان اینٹی نیوکلیئر بنکرز کی تعمیر میں کم و بیش 30 ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی مکانات کے اندر تعمیر کیے جانے والے اینٹی نیوکلیئر بنکرز پر سالانہ دو کروڑ ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔ سوئس حکومت چند برس پہلے تک گھروں کے اندر اینٹی نیوکلیئر بنکرز کی تعمیر میں 50 فیصد سبسڈی دیتی تھی جو اب ختم کردی گئی ہے۔ اس وقت سوئٹزرلینڈ میں گھر کے اندر تہہ خانے میں بنائے جانے والے اینٹی نیوکلیئر بنکر پر تقریباً 65 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ 20 سال تک ایٹمی حملے سے بچاؤ کے بنکر والے مکانات خاموشی سے تعمیر کیے جاتے تھے۔ اب چند برس سے ایسے تمام مکانات کی تفصیل حکومت خود فراہم کرتی ہے۔ سوئس شہر لیوزرن میں ایک بہت بڑا اینٹی نیوکلیئر بنکر تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ زیرِ زمین بنکر سات منزلہ ہے اور اس میں بیک وقت 21 ہزار افراد پناہ لے سکتے ہیں۔ اس بنکر میں اتنا سامان ذخیرہ کیا جاتا ہے کہ یہ 21 ہزار افراد دو ہفتوں تک گزارا کرسکتے ہیں۔ اس میں اسپتال کے علاوہ میٹرنٹی وارڈ بھی بنایا گیا ہے۔ اِسی بنکر میں ایک جیل بھی ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں لوگوں کو معلوم ہے کہ ایٹمی جنگ چھڑ جائے تو فوری طور پر کہاں پناہ لینی ہے۔
برطانوی حکومت نے بھی ایٹمی جنگ کی تباہ کاری کا سامنا کرنے کی تیاریاں کر رکھی ہیں۔ اس حوالے سے معلومات کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ اِسے آپریشن کور لیگ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھا گیا ہے کہ ایٹمی حملے کی صورت میں لوگ لُوٹ مار بھی کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے فائرنگ اسکواڈ بھی تیار کرلیے گئے ہیں۔ اس بات کو بہت اہمیت دی گئی ہے کہ رضاکاروں کو اضافی راشن دیا جائے اور اُنہیں لوگوں کی راہ نمائی کے قابل بنایا جائے۔ ایٹمی حملے کی صورت میں بہت تیزی سے بہت بڑے پیمانے پر ہلاکتیں بھی واقع ہوسکتی ہیں۔ نزدیک ہی ایک پارک اور گالف کورس میں تدفین کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔
برطانیہ پر ایٹمی حملہ ہونے کی صورت میں تمام اختیارات 12 علاقائی کمشنرز کو مل جائیں گے۔ یہ کمشنرز ہدایات اور احکام پر عمل نہ کرنے والوں کو فوری طور پر پکڑ کر کام پر لگانے کے مجاز ہوں گے۔ لُوٹ مار کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کے احکامات موجود ہیں۔ ایٹمی حملے کی تباہ کاری سے جو لوگ بچنے میں کامیاب ہوں گے اُنہیں پہلے دو ہفتے اپنے ذرائع سے خوراک کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اُنہیں لازمی طور پر اپنے اپنے تہہ خانوں میں رہنا پڑے گا۔ وار ٹائم براڈ کاسٹنگ کے ذریعے اُنہیں بتایا جائے گا کہ اناج یا تیار شدہ خوراک کہاں سے حاصل کرنی ہے۔ لوگوں کو ریڈیو کی نشریات کے ذریعے ہی بتایا جائے گا کہ اُنہیں رفعِ حاجت کے لیے کہاں جانا ہے، نہانا کہاں ہے اور کسی کی تدفین کیسے اور کہاں کرنی ہے۔ ایٹمی حملے سے بچاؤ کی پناہ گاہ یعنی شیلٹر میں جو اشیاء لے جائی جاسکتی ہیں اُن کی فہرست بھی فراہم کی جائے گی۔ خوراک کے علاوہ لوگ الارم گھڑی، کتابیں اور کھلونے بھی شیلٹر میں لے جاسکیں گے۔ ایٹمی حملے کے بعد وارٹائم براڈ کاسٹنگ کو شروع ہونے میں کچھ دیر لگے گی۔ نشریات مختصر ہوں گی۔ ایٹمی حملے کے وقت ٹرانزسٹر ریڈیو چالو رہیں گے۔ ملک بھر میں وزرا، پارلیمنٹ کے ارکان، سرکاری افسران اور تکنیکی ماہرین سمیت ایک لاکھ افراد ریڈیائی نشریات کی مدد سے شیلٹرز تک پہنچ سکیں گے۔ ایٹمی حملے کی صورت میں ملکہ اور اُن کے خاندان کے افراد خصوصی بنکرز میں جائیں گے۔ ملکہ ویسٹ کنٹری میں واقع باتھ نامی علاقے میں جائیں گی۔ برطانیہ کی ملکہ نے ایٹمی حملے کی صورت میں کسی محفوظ ملک میں پناہ لینے سے انکار کردیا ہے۔ ملک کے ٹاپ کے سائنس دان ایک بڑے طیارے میں نیوزی لینڈ چلے جائیں گے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کو اگر لندن ہی میں رہنا ہو تو بنکرز میں جگہ دی جائے گی۔ سینئر وزرا کو علاقائی کمشنرز کا درجہ مل جائے گا۔ ان کمشنرز کو فوجی اڈوں میں بنائے ہوئے بنکرز میں پناہ ملے گی۔ لندن سے 45 منٹ کی مسافرت پر ہوتھورن نامی شہر ہے جس کے نزدیک وِلٹ شائر نام کا گاؤں ہے۔ برطانوی وزیراعظم وہاں رہیں گے۔ وہیں جنگ کا ہیڈ کوارٹرز بھی تیار کیا جائے گا۔ ہوتھورن کو کسی بھی بڑے سرکاری نقشے میں ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ ویسے مقامی راستوں کے نقشوں میں اُس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ مقام روس کی نظر سے چھپا ہوا نہیں۔ برطانیہ نے ایٹمی حملے سے بچاؤ کی مشقیں کی تھیں تو وزیراعظم کے بچاؤ کے حوالے سے مشق نہیں کی تھی۔ ہوتھورن کے نزدیک 100 مربع ایکڑ میں غار بنے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک پوری طیارہ ساز فیکٹری بھی ہے۔ ہوتھورن میں کم و بیش 20 ہزار افراد ایٹمی حملے سے بچاؤ کے بنکر میں پناہ لے سکتے ہیں۔ یہاں جنریٹرز، ایئرکنڈیشنرز اور اسپتال کی سہولت موجود ہے۔
حفاظتی انتظامات چاہے کسی بھی سطح کے ہوں، ایٹمی حملے کی صورت میں برطانیہ میں کم و بیش ڈھائی کروڑ افراد لقمۂ اجل ہوکر ہی رہیں گے۔ اگر ایٹمی میزائل سے برطانیہ کو نشانے پر لیا جائے گا تو وہ بھی ایٹمی جنگ کا اعلان کر ہی دے گا۔ اس کے لیے چار دن کا وقت رکھا گیا ہے۔ ان چار دنوں میں لوگ اپنے لیے متعین اینٹی نیوکلیئر بنکرز میں چلے جائیں گے۔ پہلا انتباہ برطانیہ کے ایک مصنوعی سیارے کے ذریعے ملے گا۔ اس کے 9 منٹ بعد برطانیہ پر ایٹم بم گر سکتا ہے۔ وار ٹائم براڈ کاسٹنگ دیگر تمام ریڈیو اسٹیشنوں کو بند کرکے نشریات کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے چکی ہوگی۔
برطانوی ماہرین نے یہ بھی متعین کررکھا ہے کہ ایٹمی حملہ کس طور ہوگا۔ ایٹمی حملے سے محض پندرہ منٹ میں پورے برطانیہ کا صفایا ہوسکتا ہے۔ روس اور چین کے ایٹمی میزائل برطانیہ کے تمام شہروں اور قصبوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
امریکہ میں ایٹمی حملوں سے بچاؤ کے بنکرز کی فروخت بڑھ گئی ہے۔ ایسا ڈرم نما بڑا بنکر جو ٹرک میں لے جایا جاسکے، اس میں 6 افراد پناہ لے سکتے ہیں۔ اس بنکر میں ہوا، پانی، بجلی، باتھ روم اور کچن کی سہولت میسر ہے۔ بایو اسفیئر نامی کمپنی ریاست منی سوٹا کے ایکریور نامی شہر میں ایسے شیلٹرز بناتی ہے۔
امریکہ میں ایٹمی حملے سے بچاؤ کے بنکرز کی حقیقی اور حتمی تعداد تو کسی کو معلوم نہیں، مگر یہ بات عام ہے کہ ہر مال دار شخص نے ایٹمی حملے سے بچاؤ کا بنکر بنوا رکھا ہے۔ امریکہ میں مونٹانا کے مقام پر معیاری بنکر تعمیر کیے گئے ہیں۔ معیشتی ابتری کی اِس گھڑی میں بہت سے لوگوں اور اداروں نے ایٹمی حملے سے بچاؤ کے بنکر بنانے کا دھندا شروع کیا ہے۔ مونٹانا میں حال ہی میں ایک بنکر فروخت کے لیے پیش کیا گیا تو اُس کی قیمت 26 کروڑ روپے تک جاپہنچی۔ کئی کمپنیاں اینٹی نیوکلیئر بنکر کرائے پر دینے کا کام بھی کررہی ہیں۔
جاپان میں ’’فال آؤٹ‘‘ کے نام سے اینٹی نیوکلیئر بنکر فروخت کرنے والی کمپنی کا کام تو خوب چل نکلا ہے۔ گزشتہ برس اس کمپنی کو دس زیرِ زمین بنکر تعمیر کرنے کا آرڈر ملا تھا۔ جاپان میں فضا کو صاف کرنے والے آلات (ایئر پیوریفائرز) کا دھندا بھی چل نکلا ہے۔ یہ آلات ایٹمی حملے کے بعد فضا میں پھیلی ہوئی تابکاری اور زہریلا مواد ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جاپان میں ایسے بنکر کی قیمت تقریباً ساڑھے تین کروڑ روپے ہے جس میں 12 تا 15 افراد پناہ لے سکیں۔ جاپان کے لوگ شمالی کوریا کے گیس والے میزائل سے بہت ڈرتے ہیں۔ جاپان میں بنائے جانے والے بنکرز میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ کیمائی ہتھیاروں سے بھرپور تحفظ فراہم کریں۔
اینٹی نیوکلیئر بنکرز کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ روس میں تمام زیرزمین ریلوے اسٹیشن اتنے مضبوط بنائے گئے ہیں کہ وہ بنکر کا کام دے سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ سوویت دور میں کیا گیا تھا۔ یوکرین بھی سوویت یونین کا حصہ تھا۔ اس کے ہاں بھی زیرِ زمین ریلوے اسٹیشن ایٹمی حملے سے بچاؤ کے بنکر کا کام بخوبی کرتے ہیں۔ اس وقت جو جنگ چل رہی ہے اُس میں بھی لاکھوں افراد نے روسی میزائل حملوں سے بچنے کے لیے زیرِ زمین ریلوے اسٹیشنوں ہی میں پناہ لی ہوئی ہے۔ سوئیڈن میں 81 فیصد، فن لینڈ میں 70 فیصد، آسٹریا میں 30، جبکہ جرمنی میں صرف 3 فیصد آبادی کو ایٹمی حملے کی صورت میں بنکر کی سہولت میسر ہے۔
ایٹمی حملے سے بچاؤ کے حوالے سے چین کی پالیسی سب سے نرالی ہے۔ دارالحکومت بیجنگ میں ایسے زیرِ زمین بنکر تیار کیے گئے ہیں جن میں لاکھوں افراد آسانی سے پناہ لے سکتے ہیں۔ چین میں کم آمدنی والے لاکھوں افراد زیرِ زمین مکانات ہی میں سکونت پذیر ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں چین نے 1960ء اور 1970ء کے عشرے میں سوویت یونین کے کسی ممکنہ ایٹمی حملے سے بچاؤ کے لیے یہ بنکر بنائے تھے۔ چین نے صنعتی علاقوں میں ایسے 10 ہزار بنکر بنائے ہیں جن میں مزدور پناہ لے سکتے ہیں۔