خیبرپختون خوا :بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ تحریک انصاف کی غیر متوقع فتح

خیبر پختون خوا میں دوسرے مرحلے کے تحت 18 اضلاع میں 31 مارچ کو منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے غیر حتمی نتائج کے مطابق 54 تحصیلوں میں تحریک انصاف 24، جمعیت علمائے اسلام 8،آزاد امیدوار8، مسلم لیگ اور جماعت اسلامی 3،3 نشستوں پر کامیاب ہوئی ہیں، جب کہ اے این پی اور پی پی پی 2،2، پاکستان راہِ حق پارٹی، قومی وطن پارٹی اور مجلس وحدت المسلمین ایک ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئی ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کو 32 نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ اس طرح بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں تحریک انصاف نے سب سے زیاد نشستیں جیت کر ان تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیا ہے کہ پی ٹی آئی اپنی مقبولیت کھو چکی ہے ۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے 65 تحصیلوں میں سے 54 تحصیلوں کے جاری کردہ غیر حتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے شاہد علی تحصیل بابوزئی، سردار شجاع النبی ایبٹ آباد، کاشف علی بریکوٹ، سید احمد خان کبل، وزیر اعلیٰ محمود خان کے بھائی عبداللہ تحصیل مٹہ، شاہد علی بحرین، آفتاب علی خان خوازہ خیلہ، ناصرعلی بٹ خیلہ، محمد اسلم درگئی، افضل حسین بیزئی، وقار احمد خان الپوری، عبدالمولا پورن، سعید الرحمٰن بشام، فیروز شاہ چکیسر، عاصم شعیب بلامبٹ، اشراف الدین لال قلعہ، اشفاق الرحیم خال، آیان اللہ خان واڑی، عبداللطیف لرجم، سردار علیم خان مستوج، میر جمشید الدین ملخوتورخو، شہزادہ امان الرحمٰن چترال، جنید احمد لوئر تناول اور نواب زادہ حسام صلاح الدین اوگی تحصیل کے چیئرمین منتخب ہوگئے ہیں۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کے محمد طاہر اپراورکزئی، مولانا سید نیک زمان حقانی میران شاہ، احسان اللہ چار باغ، عرفان الدین تیمرگرہ، حاجی محمد خان جدبہ، غلام اللہ تحصیل الائی، فضل وہاب رانولیہ اور انوارالحق کندیہ کے چیئرمین بن گئے ہیں۔ کامیاب آزاد امیدواروں میں بلال خان رزمک، شاہ فیصل سروکئی، عاطف شیر خان حویلیاں، دلبر خان درابند، مومن گل حسن زئی، شاہ زمین دور میرہ، رحمت اللہ پٹن اور محمد عزیر سیو تحصیل کے چیئرمین منتخب ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بخت عالم چکیسر، محمد زادہ کلکوٹ، شیخ محمد شفیع مانسہرہ اور افتخار احمد عباسی لورا… جماعت اسلامی کے سعید احمد ثمر باغ، رفیع اللہ تحصیل دیر، اور جہان عالم براول… عوامی نیشنل پارٹی کے طاہرزیب مرتونگ اور عنایت اللہ منڈا… پیپلز پارٹی کے شاہ ولی شیرینگل، شہزادہ خالد پرویز دروش… قومی وطن پارٹی کے اسداللہ قریشی ہربند بھاشا، پاکستان راہ حق پارٹی کے محمد طارق لوئراورکزئی، جب کہ مجلس وحدت المسلمین کے مزمل حسین اپر کرم کے چیئرمین منتخب ہوگئے ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی پر پارٹی کارکنان اور کامیاب ہونے والے امیدواروں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ خیبر پختون خوا کے باشعور عوام نے ایک بار پھر لٹیروں اور چوروں کو مسترد کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ پہلے کی طرح آج بھی عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرنے پر صوبے کے عوام کے تہِ دل سے مشکور ہیں۔ صوبے کے 18 اضلاع میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے متعلق اپنے بیان میں وزیراعلیٰ نے پاکستان تحریک انصاف کی بھرپور کامیابی کو حق و سچ کی جیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات میں چترال سے لے کر جنوبی وزیرستان تک اپوزیشن جماعتوں کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں رہا، جو اُن کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات عام انتخابات 2023ء کا ٹریلر ہیں، ان بلدیاتی انتخابات کی طرح آئندہ عام انتخابات میں بھی صوبے کے عوام انہیں یکسر مسترد کریں گے۔ محمود خان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج نے ثابت کردیا ہے کہ خیبر پختون خوا کے عوام کا وزیراعظم عمران خان کی قیادت اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر مکمل اعتماد ہے، عوام گزشتہ 70 سال سے باری باری ملک کو لوٹنے والے چوروں، لٹیروں اور غداروں کو کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، عوام کی امیدوں کا واحد مرکز عمران خان ہیں اور عمران خان ہی وہ واحد لیڈر ہیں جو اس قوم کو عالمی برادری میں ایک باوقار مقام دلا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کا وعدہ بطریق احسن پورا کردیا ہے، اب ایک مضبوط بلدیاتی نظام سے لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر حل ہوسکیں گے۔ محمود خان نے کہا کہ 2023ء کے عام انتخابات میں بھی صوبے کے عوام کپتان کے کھلاڑیوں پر اسی طرح کے اعتماد کا اظہار کریں گے، عوام کے تعاون سے تبدیلی کا قافلہ بڑھتا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے پُرامن انعقاد کے سلسلے میں پولیس، انتظامیہ اور دیگر شراکت داروں کے کردار کو بھی سراہا۔ دریں اثناء عمران خان نے وزیراعلیٰ محمود خان کو ٹیلی فون کرکے بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کی شاندار کامیابی پر اُنھیں اور اُن کی ٹیم کو مبارک باد دی۔
واضح رہے کہ دوسرے مرحلے کے تحت جن اضلاع میں پولنگ ہوئی ان میں ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، تورغر، کوہستان اپر، کوہستان لوئر، کولائی پالس، سوات، مالاکنڈ، شانگلہ، لوئر اور اپر دیر، اپر اور لوئر چترال، کرم، اورکزئی اور شمالی و جنوبی وزیرستان شامل تھے۔ اس بات میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ اسلام آباد اور پنجاب میں ہونے والی حالیہ سیاسی پیش رفت کا براہِ راست اثر کے پی کے انتخابی نتائج پر بھی پڑا ہے کیونکہ لوگوں کی زیادہ ترتوجہ قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے کے بعد پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب پر مرکوز تھی۔ سامنے آنے والے نتائج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی صوبے میں مقبول ہے اور اپنے مخالفین کے لیے آئندہ عام انتخابات میں ایک سنگین چیلنج بن سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی اس غیر متوقع جیت کے بارے میں سیاسی مبصرین کہہ رہے ہیں کہ اس سے پی ٹی آئی کے کارکنان کا حوصلہ بلندہوگا۔ یوں لگ رہاہے کہ یہ جیت دیگر ملکی مسائل سے قطع نظر پارٹی کو متحد رکھنے میں بھی معاون ثابت ہوگی۔
تجزیہ کاروں کا استدلال ہے کہ دسمبر 2021ء میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت نے بہتر حکمت عملی بنائی اور عمران خان نے خود انتخابی مہم کی قیادت کی۔ دراصل یہ پی ٹی آئی کے لیے کرو یا مرو کا الیکشن تھا، کیونکہ اس شکست سے پی ٹی آئی کی سیاسی پسپائی کا دروازہ کھل سکتا تھا۔ پی ٹی آئی کی قیادت اس الیکشن کی اہمیت کو جانتی تھی، اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے عدم اعتماد کے ووٹ کے خطرے کے باوجود مختلف اضلاع میں عوامی جلسوں کا انعقاد کیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نوٹسز اور جرمانے کے باوجود نہ صرف انہوں نے بلکہ پی ٹی آئی کے وزراء اور کے پی کے حکومت نے بھی اپنی مہم جاری رکھی اور ووٹرز کو ترقیاتی کاموں اور میگا پراجیکٹس کے وعدوں سے لبھانے کا روایتی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح میں مختلف عوامل نے کردار ادا کیاہے، لیکن دوسری جانب اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں عبرتناک شکست کے فوراً بعد پی ٹی آئی کی قیادت نے صورت حال کا سنجیدگی سے تجزیہ کیا اور دوسرے مرحلے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ تجربہ کار سیاست دان پرویز خٹک کو پی ٹی آئی کا صوبائی صدر بنایا گیا، اور انہوں نے پوری مہم کی خود قیادت کی۔ پی ٹی آئی نے سرکاری وسائل کو متحرک کیا اور عمران خان کی، انتخابی مہم میں شمولیت نے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں کو متحرک کرنے میں کلیدی کردارادا کیا۔ یہ درست ہے کہ اس جیت میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ایک بڑا عنصر ہے کیونکہ مقامی حکومتوں کو اس سے تعاون اور فنڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ اس فتح کا واحد عنصر نہیں ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ اپوزیشن جماعتوں کی غیر متوقع شکست کی کئی دیگر وجوہات کے علاوہ اپنی اپنی جماعتوں کی انتخابی مہم میں اپوزیشن رہنماؤں کی عدم موجودگی بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کی قیادت نے پوری مہم کے دوران ایک بھی عوامی جلسہ منعقد نہیں کیا۔ وہ اسلام آباد میں وزیراعظم کو ہٹانے کے مشن میں مصروف رہے، جس کا فائدہ حکمران پی ٹی آئی نے اٹھایا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پچھلے مرحلے کے برعکس پی ٹی آئی نے ماضی میں جماعت اسلامی اور پی پی پی کے زیر اثر اضلاع میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی نمایاں مثال ضلع لوئر دیر کی سات میں سے پانچ تحصیلوں پر تحریک انصاف کی کامیابی ہے۔ اسی طرح مجموعی طور پر پی ٹی آئی نے مالاکنڈ ڈویژن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو پی ٹی آئی کے عروج سے قبل جماعت اسلامی، پی پی پی اور اے این پی کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے 2018ء کے عام انتخابات میں سوات، مالاکنڈ، لوئر اور اپر دیر کے اضلاع میں کلین سویپ کیا تھا، اور اب اس نے ایک بار پھر ان اضلاع پر اپنی گرفت برقرار رکھی ہے۔ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی دونوں 2018ء کے عام انتخابات کے بعد سے مالاکنڈ ڈویژن میں کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ دوبارہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ البتہ اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان انتخابات میں جے یو آئی نے ایک بار پھر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گوکہ یہ پہلے مرحلے کی طرح بڑی کامیابی سمیٹنے میں ناکام رہی ہے لیکن اس نے مختلف اضلاع میں کامیابی سے اپنے مضبوط ووٹ بینک کو برقرار رکھا ہے۔ کئی تحصیلوں میں جہاں پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں وہاں جے یو آئی کے امیدوار دوسرے نمبر پر رہے ہیں، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس نے صوبے کے عوام سے دوسرے مرحلے میں بھی خود کو پی ٹی آئی کے متبادل کے طور پر تسلیم کروایا ہے۔
پی ٹی آئی نے ہزارہ ڈویژن میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جسے روایتی طور پر مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور جہاں بعض سیاسی ہیوی ویٹس آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑنے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن پی ٹی آئی 2013ء سے اس خطے میں بڑے پیمانے پر اپنے قدم جما رہی ہے۔ ہزارہ میں مسلم لیگ (ن) کی شکست اس کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکا ہے جو اپنے روایتی گڑھ پر غلبہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ کُل 22 تحصیلوں میں سے صرف 5 تحصیلیں جیت سکی ہے، باقی پی ٹی آئی، آزاد امیدواروں اور جے یو آئی (ف) کے حصے میں آئی ہیں۔ ان نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے اندرونی اختلافات پر قابو پائے بغیر ہزارہ میں اپنا کھویا ہوا میدان دوبارہ حاصل نہیں کرسکے گی۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت اور چاروں صوبوں کی زنجیر کہلائی جانے والی پیپلز پارٹی نے بھی پہلے مرحلے کی طرح دوسرے مرحلے میں بھی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی مالاکنڈ میں ایک طاقتور سیاسی قوت تھی لیکن گزشتہ برسوں میں اس کی حمایت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر وہ کے پی کے میں اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرنے کی متمنی ہے تو اسے سنجیدگی سے اپنی سیاسی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح صوبے کی تین دیگر قابل ذکر جماعتوں اے این پی، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی جن کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا تھا کہ یہ جماعتیں پہلے مرحلے کی ناقص کارکردگی کے بعد حالیہ مرحلے میں بہتر نتائج کا مظاہرہ کریں گی، لیکن سامنے آنے والے نتائج نے ان توقعات کو بھی غلط ثابت کردیا ہے جنہیں آنے والے عام انتخابات کے تناظر میں ان جماعتوں کے نقطہ نظر سے کسی بھی طور پر خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا، البتہ حالیہ انتخابی نتائج واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی اب بھی کم از کم خیبر پختون خوا کی مقبول عام سیاسی قوت ہے جسے محض خواہشات اور تنقید سے صوبے کے سیاسی منظر نامے سے باہر کرنا کسی کی خواہش توہوسکتی ہے اس کا زمینی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، جس کاواضح ثبوت حالیہ انتخابات کے حیران کن نتائج ہیں۔