سب سے خطرناک پلان 2023ء کے الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے بعد شروع ہونا تھا۔ سادہ سی بات ہے‘ جن کے سہاروں سے حکومت بنائی جارہی تھی‘ کیا ان کے کوئی مطالبات نہیں ہوں گے؟ نہ صرف ملک کی خارجہ پالیسی بلکہ معیشت کو بھی جس طرح گروی رکھنے کا منصوبہ تھا‘ وہ کوئی بھی ذی شعور بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ افسر شاہی کی جو فہرستیں ان چند پارٹیوں نے مرتب کی ہوئی تھیں‘ اگر یہ کسی وقت شائع ہوگئیں تو پتا چل جائے گا کہ کس طرح انہوں نے ملک کی شہ رگ کو اپنے انگوٹھوں تلے دباکر رکھنا تھا۔ کس قدر افسوس ناک امر ہے کہ جو شخص ملک کی سیکورٹی فورسز پر کھلم کھلا حملے کررہا ہے‘ اُس کا بھائی اِس وقت اپوزیشن کی صفوں میں موجود ”ملک کو درست ڈگر پر گامزن کرنے کے مشن“ میں مصروفِ عمل ہے۔ ایسے افراد کا مشن کیا ہوسکتا ہے‘ یہ ڈھکا چھپا نہیں۔ صوبہ سندھ میں پچھلی چار دہائیوں سے دو ہی جماعتوں نے حکومت کی ہے، اور وہاں جتنا بھی بگاڑ ہے، انہی دو پارٹیوں کی لوٹ کھسوٹ کا نتیجہ ہے، آج وہ دونوں پارٹیاں ایک ہی فورم تلے جمع ہوکر سندھ کی ترقی کے لیے کام کرنے کے دعوے کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک انہوں نے ٹھیک کرنا ہے تو خراب کس نے کیا تھا؟
قدرت نے ان کی یہ تمام پلاننگ ناکام بناکر رکھ دی ہے۔ ایک غیر ملکی عہدیدار اس وقت بھی نئی دہلی میں بیٹھ کر اپنے مہروں کو مانیٹر کرنے کے علاوہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے۔ جو لوگ اس غیر ملکی سازش کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں‘ انہیں وہ پریس ٹاک دیکھ لینی چاہیے کہ جب اس سے سوال کیا گیا کہ وزیراعظم پاکستان نے آپ پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش کررہے ہیں، تو نہ صرف یہ کہ اس الزام کی تردید نہیں کی بلکہ یہ کہہ کر کہ ”پاکستان کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں“ اس سازش کے حقیقی ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کون کون اس میں آلہ کار بنتا ہے۔ پاکستان‘ جس نے انہیں عزت‘ رتبہ اور دنیا کی ہر آسائش مہیا کر رکھی ہے‘ جس کی عزت اور وقار کے تحفظ کی انہوں نے قسم کھائی ہوئی ہے‘ انہیں اس کا مفاد عزیز ہے یا اپنا ذاتی و سیاسی مفاد؟ بات الزامات کی نہیں بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جو نجانے کتنی مرتبہ ملک کے ہر ٹی وی چینل پر دہرائی اور بتائی جا چکی ہے۔ اگر قارئین کو یاد نہیں رہا تو ان سب کو ہم یاد دلائے دیتے ہیں کہ جولائی1996ء کی ایک دوپہر جنوبی ایشیا اور سینٹرل ایشیا کے لیے ایک غیر ملکی اسسٹنٹ سیکرٹری خاتون میاں نوازشریف سے ملاقات اور دوپہر کے کھانے کے لیے ان کی کشمیر پوائنٹ پر واقع رہائش گاہ پر پہنچتی ہے جہاں تین گھنٹے تک نوازشریف اور ان کے تین ساتھیوں سے اس کی میٹنگ جاری رہتی ہے۔ جیسے ہی وہ واپس جانے کے لیے گیراج میں کھڑی اپنی گاڑی میں بیٹھتی ہے تو میاں صاحب اپنے ساتھ کھڑے ”ساتھی“ سے کہتے ہیں ”بس ہن تِن مہینیاں دی گل اے‘‘ (بس اب تین مہینے کی بات ہے)۔ اس سے قبل دورانِ میٹنگ مری میں ہی اس سیکرٹری نے صدر فاروق لغاری سے بات کرنے کے بعد انہیں اور میاں صاحب کو ہدایت کی کہ آپ نے آپس میں رابطہ رکھنا ہے۔
اس کے بعد میاں صاحب نے ملک کے پانچ معروف صحافیوں کو کھانے پر مدعو کیا اور انہیں بتایا کہ ہم دوبارہ حکومت میں آنے والے ہیں‘ آپ لوگوں کو اس لیے زحمت دی ہے کہ آپ سب وعدہ کریں کہ ہماری حکومت کے پہلے 100 دن تک آپ ہماری حکومت کی کسی قسم کی مخالفت نہیں کریں گے۔ (میری اطلاعات یہ ہیں کہ غیر ملکی عہدیدار ہی کی جانب سے ان کے نام دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ آپ ان سے رابطہ کرکے اپنی حکومت کی بہتری کے لیے انہیں اعتماد میں لیں) مذکورہ سبھی صحافی اپنے پروگرامز اور ٹاک شوز میں متعدد بار یہ قصہ سنا چکے ہیں کہ جب میاں صاحب نے انہیں کھانے پر مدعو کیا تو اُس وقت نہ صرف یہ کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کوئی ایسی چارج شیٹ نہیں تھی کہ وہ رخصت ہو، بلکہ مسلم لیگ کے برسراقتدار آنے کا بھی کوئی چانس نہیں تھا۔ آج کوئی لاکھ عمران خان کو سلیکٹڈ کہے‘ کم از کم وہ کسی دوسرے ملک کا سلیکٹڈ تو نہیں۔ اگر اُس وقت کے حالات کو دیکھا جائے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد دسمبر 1998ء میں انتخابات ہونا تھے، مگر 1996ء میں‘ اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے دو سال قبل ہی کس کے کہنے پر اور کیسے کہہ دیا گیا تھا کہ تین ماہ بعد ملک کی حکومت ہمارے پاس آنے والی ہے؟ حیران کن طور پر اس ملاقات کے کچھ ہی ہفتوں بعد وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا کراچی کلفٹن میں قتل ہوتا ہے اور اس کے بعد حالات ایسے خراب ہوتے ہیں کہ صدر فاروق لغاری نومبر میں اسمبلیوں کو گھر بھیج دیتے ہیں۔ آج یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ صدر فاروق لغاری کے اپنی جماعت کی لیڈر اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے تعلقات ایک مخصوص ملاقات کے بعد ہی کشیدہ ہونا شروع ہوئے تھے۔ اُس وقت کی ایک معروف اخباری شخصیت میاں نوازشریف اور فاروق لغاری کے مابین نامہ بر کے فرائض سرانجام دے رہی تھی، حالانکہ اس سے قبل میاں صاحب نے لغاری صاحب کے رضی فارم پر حملہ کرکے علاقے میں ان کی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچایا تھا، مگر پھر نومبر 1996ء کا وہ دن بھی طلوع ہوا جب بے نظیر حکومت کو گھر بھیج دیا گیا اور چند ماہ بعد میاں صاحب دو تہائی اکثریت کے ساتھ مسندِ اقتدار پہ براجمان تھے۔
2008ء کے انتخابات کیسے ہوئے‘ اس کی کہانی چودھری شجاعت حسین اپنی کتاب اور پریس کانفرنسوں میں بیان کرچکے ہیں۔ ایک غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار نے ان کے گھر میں بیٹھ کر ان سے کہا تھا ”اگر قاف لیگ جیت گئی تو بھی ہم اس کامیابی کو تسلیم نہیں کریں گے“۔ یہ براہِ راست اور کھلی دھمکی تھی۔ 2013ء کے انتخابات میں ایک انٹرنیشنل ٹرائیکا نے عمران خان کی جیت کو شکست میں تبدیل کیا۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں ”شاکا“ نے جو کردار ادا کیا‘ وہ آسانی سے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
(منیر احمد بلوچ۔ روزنامہ دنیا،6اپریل 2022ء)