آغا شورش کاشمیری مرحوم کہ منفرد حیثیت کے حامل قلم کار اور مقرر تھے، ان کے قلم کی کاٹ بہت کم لکھنے والوں کو نصیب ہوتی ہے اسی طرح ان کی تقریر میں جو تاثیر تھی اور جرأت اظہار کا جو سلیقہ اور ملکہ ان کو حاصل تھا، آج عنقا ہے، اپنے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں پاکستانی سیاست کی تصویر کشی کرتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوی ہے طوائف تماش بینوں میں
یہ شعر شورش مرحوم نے کم و بیش نصف صدی قبل کہا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ صورت حال آدھی صدی گزر جانے کے باوجود جس کے دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور تاریخ وطن اتار چڑھائو کے کئی مراحل سے گزر کر انقلابات زمانہ کے کئی مناظر بھی دیکھ چکی ہے، مگر سیاست کے حالات جوں کے توں ہیں، جن پر یہ شعر آج بھی صادق آتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کا طرز عمل بہت کچھ دیکھ اور بھگت چکنے کے باوجود تاریخ سے سبق سیکھنے کا روادار نہیں اور ان کی وہی چال بے ڈھنگی، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ ملک کو ان دنوں ایک بار پھر سیاسی اور آئینی بحران کا سامنا ہے۔ ایک ماہ قبل 8مارچ کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے عین رائے شماری کے وقت مسترد کردیا اور جواز اس کا یہ بتایا کہ اس قرارداد عدم اعتماد کے پس پردہ بیرونی قوت کی سازش کارفرما ہے، جس کا ثبوت اس بیرونی قوت کا وہ مراسلہ ہے جو حکومت نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کیا اور کمیٹی نے اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس ملک کو احتجاجی مراسلہ ارسال کرنے کی منظوری دی۔ وزیراعظم نے اس بیرونی مراسلہ کا انکشاف پہلی بار 27 مارچ کو اسلام آباد میں اپنے حامیوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران لہرا کر کیا تھا، پھر یہ بعض جید صحافیوں اور کابینہ کے ارکان کو بھی دکھایا گیا، اور آخر کار ڈپٹی اسپیکر نے اسی مراسلہ کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کرائے بغیر اسے مسترد کردیا، جس کے فوری بعد وزیراعظم کے مشورے پر صدر مملکت عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کردی اور ملک میں نئے عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا۔
ڈپٹی اسپیکر نے اپنے اس اقدام کی بنیاد آئین پاکستان کی دفعہ، پانچ کو بنایاہے اور یوں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بیرونی طاقت کے اشارے پر تحریک عدم اعتماد پیش کرکے حزب اختلاف کی جماعتیں، ان کے قائدین اور ارکان قومی اسمبلی ملک و قوم سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں، دوسری جانب حزب اختلاف کی قیادت کا دعویٰ یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرکے، وزیراعظم نے صدر کو قومی اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے کر اور صدر نے اس مشورہ کو تسلیم کرکے قومی اسمبلی تورنے کا اقدام کرکے دستور پاکستان کی خلاف ورزی کی ہے اور آئین کی دفعہ 6 کے تحت آئین توڑنے اور بغاوت کا ارتکاب کیا ہے جس کی سزا موت ہے۔ یوں فریقین کے دلائل کی روشنی میں دیکھا جائے تو وزیراعظم اور ان کے حامی آئین شکنی اور بغاوت کے مرتکب ہیں جبکہ ان کے مخالفین جنہوں نے ایک غیر ملکی قوت کا آلہ کار بن کر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کا سبب بنے، انہوں نے ملک و قوم سے غداری کی۔ اس بحرانی کیفیت میں عوام عجب شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں، ایک جانب اگر ملک کے غدار ہیں تو دوسری جانب آئین کے باغی۔ دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل انتخابی میدان میں کودنے کے لئے تیار ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ملک کا آئین اور قانون باغیوں اور غداروں کو قومی اسمبلی کے انتخابات میں امیدوار بننے کا حق دیتاہے؟ قانون کی رو سے تو ایسے لوگوں کا مقام جیل کی کال کوٹھری اور پھر سزا موت ہے! مگر عجب تماشا ہے کہ وزیراعظم اپنے مخالفین کو کھلے بندوں غدار قرار دینے کے باوجود انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی دعوت بھی دے رہے ہیں، حزب اختلاف کے اتحاد کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں، وہ کل تک حکومت کے جن اتحادیوں کو گردن زدنی قرار دیتے نہیں تھکتے تھے، وہ آج اس اتحاد کا حصہ بن گئے ہیں تو ان کے تمام جرائم معاف ہوگئے ہیں، اسی طرح حزب اختلاف کے جو قائدین کل تک مقتدر قوتوں کو عمران خان کا ساتھ دینے پر صبح شام مطعون کرتے دکھائی دیتے تھے، آج وہی اس بات پر مطمئن ہیںکہ یہ مقتدر قوت آج غیر جانبدار ہے، وہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک اعلیٰ فوجی قیادت سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ واضح کریں کہ کمیٹی کے سامنے پیش کئے گئے مراسلہ کی حقیقت کیا ہے؟
اس گھمبیر اور سنگین سیاسی صورتحال میں پوری قوم کی نظریں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب لگی ہوئی ہیں جس کا خصوصی بنچ منصف اعلیٰ عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کررہا ہے۔ ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک عدالت عظمیٰ کا فیصلہ قوم کے سامنے آجائے۔ تاہم اس مرحلہ پر سب سے زیادہ ذمہ داری اہل سیاست پر عائد ہوتی ہے، وہ ملک کی نازک سیاسی صورت حال کا احساس کرتے ہوئے ذمہ دارانہ طرز عمل، اختیار کریں کہ ماضی میں سیاست دانوں کی غیر ذمہ داری کے سبب ہی غیر جمہوری قوتوں کو اقتدار پر قبضہ کا جواز فراہم ہوتا رہا ہے!!!
(حامد ریاض ڈوگر)