یہ جدوجہد13 برس تک مکہ میں جاری رہی، پھر وہ وقت آیا جب دشمنانِ حق کے لیے اس دعوتِ توحید کی مقبولیت اور روزافزوں ترقی ناقابلِ برداشت ہوگئی اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا انتظام کرکے اس دعوت کو فنا کردینا چاہا تو داعیِ حق اور اس کے پیروانِ صفا کیش نے مکہ کو خیرباد کہہ کر مدینہ کو اپنے مشن کا مرکز بنایا اور وہاں سے اس نصب العین کی خاطر جدوجہد شروع کردی جس کو وہ اپنا مقصدِ زندگی بناچکے تھے، اور جب کفار نے وہاں بھی چین نہ لینے دیا اور ادھر اہلِ ایمان کی ایک منظم جمعیت بھی فراہم ہوچکی تھی تو بدی کے استیصال اور حق و عدل کی بقا کے لیے تلوار اٹھائی گئی۔ ایک مدت تک تو طاغوتی طاقتیں خود بڑھ کر مدینہ پر حملہ آور ہوتی رہیں اور مسلمان صرف مدافعت کرتے رہے۔ اس دوران میں وہ خوف، دہشت، بے اطمینانی اور طرح طرح کے خطرات برداشت کرتے رہے اور جان و مال کی ہر ممکن قربانی کرکے حق کی شہادت دیتے رہے، یہاں تک کہ حدودِ عرب میں کفر کی شوکت ٹوٹ گئی اور طاغوت کا علَم سرنگوں ہوگیا۔
اس وقت مسلمانوں کا قلب اس تائید و نصرتِ الٰہی پر شکر و امتنان کے جذبات سے بھر تو گیا مگر ان کی سواریوں کے کجاوے اسی طرح بندھے کے بندھے رہے اور ان کی تلواریں اسی طرح کھنچی رہیں۔ ان کے ہاتھ، جو اب تک دفاع کے لیے اٹھ رہے تھے، اب جارحانہ اقدام کے لیے سرگرمِ کار ہوگئے کیونکہ گو عرب میں بدی نے ہتھیار ڈال دیئے تھے، مگر اس کے باہر ہر چہار طرف اس کی حکمرانی پوری شان کے ساتھ قائم تھی اور مسلمان اپنے اس مشن کو بھول نہیں سکتا تھا کہ منکرات کو مٹا دینا چاہیے جہاں کہیں بھی ہوں، اور ہر غیر اللہ کی آقائی پامال ہوجانی چاہیے خواہ وہ کسی گوشۂ ارض پر ہو، یہ زمین خدا کی پیدا کی ہوئی ہے، اس پر اسی کا حکم چلنا چاہیے، اسی کے قانون کا اتباع ہونا چاہیے، اسی کی مرضی پوری ہونی چاہیے، اور اس ’’چاہیے‘‘ کی کُل ذمہ داری میرے سر پر ہے۔ چنانچہ یہ ذمہ داری انہوں نے پورے احساسِ فرض کے ساتھ ادا کی، اور جب تک وہ ایسا کرتے رہے، اللہ تعالیٰ کی موعودہ تائید و نصرت ان کے ہمرکاب رہی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے باندھا ہوا عہد اقامتِ دین فراموش ہونا شروع ہوا اور دینِ حق کا چڑھتا ہوا سورج مسلمانوں کی قسمت کا ماتم کرتا ہوا زوال پذیر ہونے لگا۔ اور اب دوبارہ بام عروج پر آنے کے لیے اس مبارک صبح کا منتظر ہے جس میں حاملینِ قرآن عہد فراموشی کے خوابِ گراں سے بیدار ہوکر اپنے فرض ِمنصبی کو ازسرنو سنبھال لیں گے۔
(’’فریضہ اقامت ِدین‘‘، مولانا صدر الدین اصلاحی، ترجمان القرآن، نومبرو دسمبر1945ء ،صفحہ:81)