کتاب
:
روشن چہرے، اجلے لوگ
مصنف
:
ڈاکٹر سید عزیز الرحمن
صفحات
:
296
ناشر
:
زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز۔ اے۔ 18/4،
ناظم آباد نمبر4، کراچی۔ 74600
فون
:
36684790
ویب سائٹ
:
info@rahet.org
www.rahet.org
فیس بک
:
zawwaracademypublication
researchacademy for higher education & Technology
قومیں اپنے اہلِ علم و فن کی وجہ سے دنیا میں عزت پاتی ہیں، اور بڑے لوگ ایک دن میں پیدا نہیں ہوتے، بڑی مشکل اور جدوجہد سے تشکیل پاتے ہیں۔ ان کو یاد کرنا اور یاد رکھنا اپنے ہونے کا ثبوت دینا ہے۔ ڈاکٹر سید عزیزالرحمن نے اُن بڑے لوگوں کو یاد کیا اور یاد رکھا ہے جن سے ان کے تعلقات رہے۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’ہم نے برادر بزرگ جناب ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری کے مجلّے ماہ نامہ ’تعمیر افکار‘ کی ادارت غیر اعلانیہ کوئی 2000ء کے اواخر میں سنبھالی۔ البتہ اس پر ہمارا نام شائع ہونا اس کے کہیں بعد شروع ہوا۔ اس ذمے داری کے اپنے تقاضے تھے، چنانچہ ادارتی تحریروں کے علاوہ مختلف النوع تحریریں ہمارے قلم سے نکلیں۔ اس دوران دنیا سے رخصت ہونے والے حضرات اہلِ علم پر بھی لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا، اس سلسلے کی پہلی تحریر پروفیسر سید محمد سلیم مرحوم پر تھی، جو ’تعمیر افکار‘ میں جنوری 2001ء میں شائع ہوئی۔ اُس وقت سے یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
اردو میں تذکرہ نویسی اور خاکہ نگاری اپنے علیحدہ علیحدہ تشخص اور تعارف کے ساتھ مضبوط روایت کے طور پر موجود رہی ہیں، مگر اب عرصے سے یہ روایت کم زور پڑتی دکھائی دے رہی ہے، حالانکہ دنیا سے رخصت ہونے والے افراد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کی شخصیت آئندہ آنے والوں کے لیے الفاظ کے پیرہن میں محفوظ کردی جائے۔ یہ مجموعہ اسی نوع کی ایک بے مایہ کاوش ہے۔
ان مضامین کا دورانیہ کوئی اٹھارہ بیس برس پر مشتمل ہے، اس لیے ان مضامین کو یک جا کرتے ہوئے ان پر نظرثانی کرلی گئی ہے اور کہیں کہیں مناسب اضافے بھی کیے گئے ہیں۔
اس مجموعے کو ترتیب دیتے ہوئے درج ذیل چند باتوں کا اہتمام کیا گیا ہے:
الف: تمام شخصیات کو تاریخ وفات کی ترتیب سے یک جا کیا گیا ہے۔
ب: ہر شخصیت کی تاریخ ولادت اور وفات کے ساتھ ساتھ ان کا مقامِ ولادت و وفات بھی درج کیا گیا ہے، ایک دو شخصیات کے سوا یہ اہتمام ہر ایک شخصیت کے ذکر میں موجود ہے۔
ج: صرف ایک شخصیت کے سوا تمام سے ذاتی تعلق کوہی ان کے خاکے کی بنیاد بنایا گیا ہے، خواہ وہ تعلق جس قدر بھی رہا ہو۔
د: البتہ زیادہ تر شخصیات کے کوائفِ حیات کو بھی جس قدر ممکن ہوسکا، درج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ھ: اس مجموعے میں موجود شخصیات کے سوا بھی بہت سوں کا اس کم سواد قلم کار پر حق ہے، خدا کرے کہ حسبِ دل خواہ مضامین ان پر بھی لکھے جاسکیں۔ حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خاں رحمہ اللہ، مفتی مظہر بقا، پروفیسر سید محمد سلیم اور تایا محترم حضرت سید محمد مختار شاہ صاحب رحہمم اللہ ان میں سے چند نام ہیں۔
یہ تاریخ کے چند اوراق ہیں، ان کی روشنی میں ہم اپنا ماضی بھی دیکھ سکتے ہیں اور کوشش کرلیں تو کسی قدر اپنے مستقبل کی بھی تشکیل کرسکتے ہیں۔ سو:
گر قبول افتد ہے زہے عز و شرف‘‘
ڈاکٹر صاحب نے کتاب میں جن اصحاب کو یاد کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
مولانا سید زوار حسین شاہ، قاری فتح محمد پانی پتی، خالد اسحاق ایڈووکیٹ، ڈاکٹر منظور قریشی، مفتی غلام قادر، حضرت نفیس شاہ صاحب، کشفی صاحب (ڈاکٹر ابوالخیر)، ڈاکٹر خالد علوی، پروفیسر عبدالجبار شاکر، سید ذوالکفل بخاری، مولانا اسماعیل آزاد، سید قاسم محمود، غازی صاحب (ڈاکٹر محمود احمد غازی)، مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی، پروفیسر علی محسن صدیقی، مفتی جی (عبدالرحیم سعیدی)، مولانا اعجاز اعظمی، مولانا عبیداللہ، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، مولانا سلیم اللہ خاں، مولانا محمد ابراہیم فیضی، سید عطا المومن بخاری، مولانا سالم قاسمی، مولانا سمیع الحق، انوار احمد زئی، اصغر ترمذی، ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی، مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید، مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، ندیم شفیق ملک، مفتی مزمل حسین کپاڈیا، مولانا وحید الدین خاں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان-
کتاب کی حروف چینی احتیاط سے نہیں کی گئی۔ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔