امریکہ میں پائی جانے والی روایتی سیاسی سوچ معاشی عدل و مساوات کے ہر آئیڈیل تصور کو دیوانے کا خواب، جاہلانہ اصلاح کاری اور بائیں بازو کی انقلابی تحریکیت کا نام دیتی رہی ہے۔ ان کے خیال میں ’’ان لوگوں کو اس بات کا کوئی علم ہی نہیں کہ حقیقی دنیا کے معاملات کیسے چلتے ہیں؟‘‘ لیکن آج کے دور میں ایسے خیالوں اور خوابوں کی دُنیا میں رہنے والوں کا تعلق صرف بائیں بازو سے نہیں، بلکہ دائیں بازو کی سیاسی و معاشی ماہر ایبی انیس (Abby Innes) کے خیالات بھی جھنجوڑتے ہیں، جن کے نزدیک ’’منڈی کی معیشت ہی انسانیت کی حقیقی آزادی کا واحد دائرہ ہے، جب کہ معیشت میں حکومت کا عمل دخل اس آزادی کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘۔ اس نقطۂ نظر کو ”نیو لبرل ازم“ (Neoliberalism) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
’نیولبرل‘ کا یہ لیبل امریکیوں کے لیے سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اس لبرل ازم کا بیسویں صدی کے وسط کے ”نیو ڈیل“ (New Deal) اور ”عظیم سوسائٹی“ (Great Society) کے علَم برداروں کی سوچ سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جو یہ سمجھتے تھے کہ ’’معیشت میں حکومت کا ایک لازمی کردار ہوتا ہے۔ محنت کی اجرت، اوقاتِ کار کے تعین سے لے کر کاروباری اشتہارات اور کاروباری اداروں کے انضمام تک ہر معاملے میں عوامی مفادات کی نگرانی اور تحفظ کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے‘‘۔ مگر یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ نیولبرلز کے خیالات ان حدود کے بالکل برعکس ہیں۔ ان کی نظر صرف اپنی صنعتی اور کاروباری کارپوریشنوں کی وسعت، بڑے پیمانے پر گاہکوں کی تلاش اور ہرجگہ پر رسائی تک ہوتی ہے۔ یہ نیولبرلز لندن اسکول آف اکنامکس کی تجزیہ کار ڈاکٹر ایبی انیس کو قومی دولت بنانے والی ایک معزز دانش ور سمجھتے ہیں، جن کا ”آزادانہ ضابطہ بندی کا تصور“ ہمیشہ ریاستی عمل سے برتر مانا جارہا ہے۔
نیولبرلز کا دعویٰ ہے کہ ’’معاشی کشاکش میں ریاستی عمل کو کم سے کم کرنے کے نتیجے میں معاشرے، بغیر کسی رکاوٹ (frictionless) کے طلب و رسد میں کامل ہم آہنگی حاصل کرتے ہوئے اعلیٰ کارکردگی کے معیارات حاصل کرسکتے ہیں۔ بغیر کسی رکاوٹ کی دُنیا اور اس کامل ہم آہنگی کے ماحول میں سرمایہ دار اور شیئر ہولڈرز (حصہ دار/ ساجھی) اپنے منافع کو خودکار طریقے سے سرمایہ کاری اور منافع پانے کے لیے باربار دُہراتے چلے جائیں گے، جس سے عوام الناس کو بہت فائدہ ہوگا‘‘۔
مادر پدر آزاد ’منڈی کی معیشت‘ (Market Economy) کے اس خوش کن نعرے کی جڑیں انیسویں صدی کے اوائل تک پھیلی ہوئی ہیں، جو بیسویں صدی کے وسط تک بہت حد تک کمزور ہوگئی تھیں۔ 1944ء میں ایک معروف ہنگری نژاد معاشی مؤرخ کارل پولانی (Karl Polanyi، م:1964ء) نے مارکیٹ کے دیوتا کی اس پوجا کو ’کھلی فریب کاری‘ قرار دیا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کے آخر میں کھلی معاشی فریب کاری کا یہ نظریہ ایک بار پھر بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب زیادہ قوت، زیادہ وسعت اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ واپس آگیا۔
1979ء میں برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کی بطوروزیراعظم کامیابی اور 1980ء کے امریکہ میں رونالڈ ریگن کی بطورِ صدر کامیابی کے ساتھ ہی نیولبرل ازم کے بنیادی اصول ایک ’معیاری گیم پلان‘ [یعنی سوچی سمجھی حکمت عملی اور ہدف حاصل کرنے کا لائحہ عمل] کا حصہ بن گئے۔ اس کے بعد امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے یکے بعد دیگرے صدور نے اسی ’گیم پلان‘ کی اشاعت میں حصہ ادا کیا اور اس پر عمل درآمد جاری رکھا۔ آج چار عشرے گزرنے کے بعد ہم سب اس کے دردناک نتائج اور تکلیف دہ اثرات کا مشاہدہ کررہے ہیں۔
آج کا امریکہ وہ سب کچھ بن چکا ہے، جسے ڈاکٹر ایبی انیس ’’مادیت پسند یوٹوپیا کا آخری مرحلہ‘‘ قرار دیتی ہیں۔ یہ مرحلہ، بگٹٹ کاروباری اشرافیہ کے لیے ایسی ’چراگاہ‘ کا منظر پیش کرتا ہے، جو دنیا بھر کی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ لوگ قومی سیاست کو بدعنوانی کے ذریعے قابو کرتے ہیں۔ انھوں نے غیرمنصفانہ ہتھکنڈوں، استحصالی چالوں اور غیر مساوی معیشت کے ذریعے کروڑوں گھرانوں کو بے معنی مسابقت کے ایک ایسے جہنم میں دھکیل دیا ہے، جہاں وہ نام نہاد مڈل کلاس جیسا معیارِ زندگی پانے اور کھوکھلی نمود و نمائش برقرار رکھنے کے لیے دن رات جدوجہد کررہے ہیں۔
’سرمایہ پرستوں کی جنّت‘ [یوٹوپیا] کے اس آخری مرحلے میں دنیا بھر کی معیشت پر صرف چند امیروں اور بڑی کارپوریشنوں کا قبضہ ہے۔ انھیں حکومتی اور ریاستی کردار کو ختم کرنے یا محدود کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی ہے۔ انھوں نے حکومتی کردار کو کم کرنے کے بجائے خود حکومتی فیصلہ سازی کے ان اداروں پر قبضہ کرکے اپنے اختیار کو مزید وسعت دے دی ہے۔ ان لوگوں کا قبضہ اب صرف حکومتوں پر ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں پر بھی ہے۔ یہ اپنے ذاتی اہداف اور فائدے کے لیے خود براہِ راست انتخابی سیاست میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ جب یہ مادیت پسند اور مفاد پرست عناصر ان پارٹیوں کی سربراہی حاصل کرلیتے ہیں، تو سیاسی جماعتوں کی حیثیت کاروباری دلالوں (Corporate brokers) سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ پھر ان جماعتوں کا کام صرف عوامی محصولات کی بندربانٹ اور پوری معیشت کی نجی ہاتھوں کے ذریعے نگرانی کروانا رہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر ایبی انیس کے مطابق: ’’یہ مقبولِ عام آمرانہ سیاست (populist authoritarian politics) کا ایسا مرحلہ ہے، جو پوری کاروباری دُنیا کو گھیرنے کا ایک مؤثر نظام بن جاتا ہے‘‘۔
دولت مندوں اور سرمایہ پرستوں کی اس ’جنت‘ میں پبلک سیکٹر (سرکاری شعبہ) پہلے سے زیادہ بدعنوان اور پرائیویٹ سیکٹر (نجی شعبہ)پہلے سے زیادہ بدمعاش بن جاتا ہے۔ معاشی اعتبار سے کچلے، سسکتے، پسے ہوئوں اور معمولی آمدنی رکھنے والوں کو ہر موقعے پر خوب نچوڑا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے منافع کو ’سرمایہ کاری‘ یا ’ری انوسٹمنٹ‘ کے نام پر شیئر ہولڈروں کی چاندی اور ایگزیکٹو نشستوں پر اُٹھلانے والوں کو بھاری ادائیگیوں کی صورت میں خرچ کیا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’کیا ہم آج اس سفاک اور رنج و کرب سے بھری ’مادیت پسندانہ جنّت‘ کی تباہ کاری سے بچ سکتے ہیں؟‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ’’یقینی طور پر ایسا ممکن ہے، لیکن یہ صرف اس صورت میں کہ جب ہم اپنی سیاسی توانائیوں اور جدوجہد کو دولت اور طاقت کا ارتکاز کم کرنے پر مرکوز کریں۔ وہ سیاست کاری اور حکومتی و انتظامی کھیل، جو ہمارے مفلوج عصری سیاسی نظام، سرطان زدہ معیشت اور نفرت انگیز ثقافتی تماشے کو دبوچے ہوئے ہے۔
دولت کے ارتکاز اور سیاسی طاقت کے اس اژدھے کو ہم گزشتہ چار عشروں سے بھگت رہے ہیں۔ ’بلومبرگ بلینیئرز انڈیکس‘ (Bloomberg Billionaires Index) کے مطابق 2021ء کے سال کا اختتام دس امریکی ’گہری تجوریوں‘ (deep pockets) کے 100؍ ارب ڈالر سے زائد ذاتی اثاثوں پر ہوا، جب کہ 1982ء میں فوربز کے بقول: امریکہ کے 400 امیر ترین افراد کی سالانہ فہرست میں ان کے پاس محض 2ارب ڈالر کی دولت تھی۔ اس فہرست میں صرف 13امریکی ارب پتی شامل تھے، جن میں سے زیادہ تر پیٹرولیم کے کاروبار سے منسلک تھے۔ پچھلے سال امریکہ نے 745ارب پتیوں کی فہرست بڑے فخر سے شائع کی، جن کے مجموعی اثاثے 5 ٹریلین ڈالر سے زائد تھے۔[دُنیا کے پہلے 10 کھرب پتیوں کے پاس ایک ہزار4 سو 28ارب اعشاریہ 5 لاکھ ڈالر ہیں۔ ان دس میں صرف ایک فرانسیسی(باقی صفحہ41پر)
اور باقی 9امریکی ہیں۔حوالہ بالا، 20 جنوری 2022ء]
اس طرح دل دہلا دینے والا یہ سوال آج انسانیت کے سامنے کھڑا ہے کہ ’’کیا یہ فانی انسان، دولت کے اس بے پناہ ارتکاز کو کبھی چیلنج کر سکے گا؟‘‘ اس کا جواب ہے: ’’جی ہاں ضرور‘‘۔
معمولی ذرائع آمدن رکھنے والے عام امریکیوں نے ایسے نظام کو پہلے بھی چیلنج کیا اور نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ امریکی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو انیسویں صدی کے اختتام تک یہاں کے انتہائی امیر لوگ بالکل اسی طرح پوری قوم پر چھائے ہوئے تھے، جس طرح آج کے دور کے امیرکبیر پوری دنیا پر مسلط ہیں۔ مگر پھر عوامی جدوجہد کے سنہری دور میں انھیں شکست ہوئی اور 1950ء کے عشرے میں امریکہ نے ایک ایسے عجیب معاشرے کو جنم دیا، جو اس سے پہلے دنیا میں کہیں نہیں دیکھا گیا، اور یہ تھا بہت بڑے پیمانے پر مڈل کلاس کا معاشرہ۔ اگر آج بھی مالیاتی ارتکاز کے جال کو توڑنے کے لیے ہم اُٹھ کھڑے ہوں تو ہوسکتا ہے کہ 2021ء آج کے امیر ترین لوگوں کے عروج کا آخری سال ثابت ہو، اور مستقبل کے مؤرخین یہ لکھیں کہ ’’ 2022ء سے ان کے زوال کا دورشروع ہوا اور عوامی جدوجہد نے متوسط طبقے کو دوبارہ وسعت دی‘‘۔(کاؤنٹر پنچ، 10جنوری 2022ء)