جیسا کہ میں ذکر کر چکا ہوں، صفر کاربن تک رسائی کے لیے ہمیں ایسے متبادل مائع تیل کی ضرورت ہے جوفضا میں پہلے سے موجود کاربن استعمال کرتا ہے۔ جب آپ یہ تیل جلاتے ہیں تو فضا میں مزید کاربن شامل نہیں کرتے، بلکہ یہ پہلے سے موجود کاربن کی مدد سے جلتے ہیں۔ جب آپ ’’متبادل تیل‘‘ کی ترکیب دیکھتے ہیں تو ذہن میں ایتھانول کا خیال آتا ہے جو ایک بائیو فیول ہے، یہ عام طور پرگنے سے تیار کیا جاتا ہے۔ اگر آپ امریکہ میں ہیں توغالباً آپ کی گاڑی پہلے ہی بائیو فیول پر چل رہی ہے۔ امریکہ میں استعمال ہونے والی بیشتر گیسولین دس فیصد ایتھانول کی حامل ہوتی ہے۔ برازیل میں ایسی گاڑیاں بھی ہیں جو سو فیصد ایتھانول پر چل رہی ہیں۔
ٰیہاں ایک مسئلہ درپیش ہے۔ کام بیسڈ ایتھانول صفر کاربن نہیں ہوتا، اور اس کا انحصار اس پر بھی ہے کہ کس طرح اسے تیار کیا جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ کاربن کم ہی ہو۔ بڑھتی ہوئی فصلوں کے لیے کھاد درکار ہوتی ہے۔ جب پودوں کو تیل میں ڈھالا جاتا ہے تو کاربن کا اخراج ہوتا ہے۔ اس طرح کہ کاشت کاری کے لیے زمین بھی اتنی ہی درکار ہوتی ہے جتنی زمین پر اجناس کی پیداوار ہوسکتی ہے، اور اس طرح کسان مجبور ہوسکتے ہیں کہ جنگلات کاٹ کرکاشت کاری کے لیے مزید اراضی حاصل کریں۔
اگرچہ متبادل تیل بے کار نہیں، یہاں چند جدید سیکنڈ جنریشن بائیو فیول ہیں جو روایتی بائیو فیول کی خامیوں سے پاک ہیں۔ یہ ایسے پودوں سے بھی تیار کیے جاسکتے ہیں جو خوراک پیدا نہیں کرتے۔ ایسے پودوں کو کم، یا کھاد کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کی پیداوار کے لیے کھیت کھلیان کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔
میں بائیو فیول سے خاصا پُرامید ہوں، مگر یہ ایک مشکل میدان ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اس ضمن میں کوئی اہم پیش رفت کتنی دشوار ہوسکتی ہے۔ چند سال پہلے میرا واسطہ ایک ایسی کمپنی سے پڑا جو درختوں سے بائیو فیول تیار کررہی تھی۔ میں وہ پلانٹ دیکھنے گیا جو بہت متاثر کن تھا، بعد میں مَیں نے اس کمپنی پر پچاس ملین ڈالر سرمایہ کاری بھی کی۔ تاہم یہ ٹیکنالوجی اسے پیداواری طور پرکم خرچ (economical) نہیں بناسکی۔ بہت سے تکنیکی مسائل کا مطلب کم خرچ لاگت پیداوار میں دشواری کا سامنا کرنا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس پلانٹ کا میں نے دورہ کیا تھا وہ جلد ہی بند کرنا پڑگیا۔
یہ پچاس ملین ڈالر سرمایہ کاری کی موت تھی، مگر مجھے ایسی سرمایہ کاری پر افسوس نہیں تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ناکامی کے خدشات بہت زیادہ ہیں، ہمیں نت نئے تجربات اور خیالات کی کھوج میں رہنا چاہیے۔ بدقسمتی سے اب تک بائیو فیول پر کی جانے والی تحقیق فنڈز کی کمی کا شکار ہے۔ اس وقت بائیوفیول کی پیداوار ایسی سطح پر نہیں کہ ٹرانسپورٹیشن نظام سے کاربن کا خاتمہ کرسکے۔ گیسولین کی جگہ بائیو فیول کا استعمال بہت مہنگا ہے۔ ماہرین اس کی پیداواری لاگت پر متفق نہیں ہیں، اس ضمن میں کئی مختلف تخمینے اور اندازے موجود ہیں۔
گو کہ بائیو فیول اپنی توانائی پودوں سے حاصل کرتے ہیں، یہاں متبادل تیل کی پیداوار کے دیگر ذرائع بھی موجود ہیں۔ ہم صفر کاربن بجلی سے پانی میں ہائیڈروجن کاربن ضم کرکے توانائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس سے ہائیڈرو کاربن پیدا ہوتی ہے۔ یہ الیکٹروفیول بھی کہلاتی ہے۔ یہ بڑے فائدہ مند فیولز ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ فضا سے حاصل کاربن سے تیار ہوتے ہیں، اس لیے انہیں جلانے سے فضا میں اضافی کاربن شامل نہیں ہوتی۔ تاہم الیکٹرو فیول کا بھی ایک منفی پہلو ہے۔ یہ بھی بہت مہنگا پڑتا ہے۔ بغیر کاربن خارج کیے ہائیڈروجن کی تیاری خاصی مہنگی پڑتی ہے، اور اس کے لیے صاف ستھری بجلی استعمال ہوتی ہے، جس کا حصول خود ایک مہنگا سودا ہے۔
(جاری ہے)