ملک میں اس وقت حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور ارکان پارلیمنٹ کی خریدوفروخت کا شور شرابہ ہے۔ اس ساری صورت حال میں جماعت اسلامی نے بڑا واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا کہنا ہے کہ اس سارے کھیل میں نہ حکومت اور نہ ہی اپوزیشن کے پاس عوام کی بھلائی کا کوئی ایجنڈا ہے، یہ صرف ذاتی مفادات اور اقتدار کی جنگ ہے، اس لیے ان میں سے ہم کسی کے ساتھ نہیں، صرف عوام کے ساتھ ہیں۔
اس سارے کھیل تماشے کے باوجود جماعت اسلامی حکومت کی نااہلی، کرپشن، لوٹ مار، ناکام معاشی پالیسیوں اور اسٹیٹ بینک کو ائی ایم ایف کے حوالے کرنے کے خلاف ملک بھر میں عوام کو منظم اور متحد کرنے کے لیے رابطہ عوام مہم چلا رہی ہے۔ جلسے، جلوسوں، مظاہروں، دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے دیگر شہروں کی طرح جنوبی پنجاب میں بھی دھرنے دیئے جارہے ہیں۔ ملتان میں مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ کی قیادت میں دھرنا دیا گیا- جبکہ اپنی کرپشن چھپانے، لوٹ مار کا مال ہضم کرنے اور ”اسٹیٹس کو“ برقرار رکھنے کے لیے حکومت اور نام نہاد اپوزیشن ایک پیج پر ہیں، ہر مشکل گھڑی میں اپوزیشن نے حکومت کا ساتھ دیا ہے، ان کا شور شرابہ عوام کو بے وقوف بنانے اور اسٹیبلشمنٹ کا فیڈر حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ عدم اعتماد کی تحریک بھی اپنی کرپشن اور لوٹ مار سے توجہ ہٹانے اور دم توڑتی عمرانی حکومت کو آکسیجن کی فراہمی کے لیے ہے۔ عوام خوب جانتے ہیں کہ ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات ان ہی لوگوں کے پیدا کردہ ہیں۔ اس تمام شور شرابے میں مہنگائی، بے روزگاری، کریپشن کے خاتمے کا کہیں کوئی ذکر نہیں، ہاں اس پورے ڈرامے میں بے ضمیر عوامی نمائندوں کی خرید و فروخت نے بکنے والوں اور خریداروں کو ننگا کردیا ہے۔ حکومتی اتحادی جماعتیں یا خود پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی سب برائے فروخت ہیں اور اپنی قیمت کے انتظار میں ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں عمران خان اپنی حکومت بنانے کی خاطر جن کے گلوں میں پی ٹی آئی کے پٹے ڈال رہے تھے اور کہتے تھے یہ ضمیر کی اواز پر ائے ہیں۔ اج یہی ”باضمیر“ ٹولہ اپ کی حکومت گرانے جارہا ہے۔ یہاں بے ضمیروں کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ بکنے والے اور خریدنے والے دونوں ہی مجرم ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کو اس کا ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم خود کہہ رہے ہیں کہ ارکان اسمبلی کو 20۔20 کروڑ روپے کی آفر ہورہی ہے۔ تحریک انصاف کے انتہائی ذمہ دار فرد نے بلوچستان اسمبلی کےاربوںروپے میں بکنے کی بات کی ہے۔ عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ کیا انہی چور اچکوں، لٹیروں اور بکائو مال کوووٹ دے کر اپنے سروں پرمسلط رکھنا ہے، یا دیانت دار، نیک اور باصلاحیت افراد کو آگے لانا ہے؟ جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں وہ صرف جماعت اسلامی کے لوگ ہیں، حقیقی اپوزیشن کا کردار صرف جماعت اسلامی ہی ادا کررہی ہے، جو پاکستانیوں کی امیدوں کا مرکز بنتی جارہی ہے، عام آدمی کے علاوہ حکومتی اور دیگر پارٹیوں کے ورکرز اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر جماعت اسلامی کی طرف رجوع کررہےہیں۔
حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی کی وجہ سے جنوبی پنجاب کی صورت حال بھی انتہائی ابتر ہے۔ یہاں کے باسیوں نے عمران خان کے دعووں اور وعدوں پر اعتبار کرکے جھولیاں بھربھر کر ووٹ دیئے، مگر اب جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں، یوٹرن کے بادشاہ کی نااہل حکومت نےاس خطے کے لوگوں کو بھی مایوس کردیا۔ سو دنوں میں صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کے دعوے دار حکمران صوبہ تو دور کی بات، ڈھنگ کا ایک سیکریٹریٹ نہیں بنا سکے، چند بے اختیار سیکریٹریز کو بٹھاکر یہاں کے سیدھے سادے عوام کو بےوقوف بنایا گیا۔ اب بھی تمام سرکاری کام تختِ لاہور سے ہی ہوتے ہیں۔ یہ تو ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکے کہ صوبائی سیکریٹریٹ ملتان ہوگا یا بہاولپور؟
مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بھی جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں مخلص نہیں۔ اگر ہوتیں تو اپنے دورِ اقتدار میں صوبہ بنادیتیں۔ پنجاب اسمبلی متفقہ طور پر نئے صوبے کے قیام کی قرارداد پاس کرچکی تھی، مگر مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے آئین میں ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے بجائے سوسے زائد افراد پر مشتمل کمیٹی بناکر اندھے کنویں کی نذر کردیا۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے دورِ اقتدارمیں صوبہ جنوبی پنجاب کے لیے کوئی پیش رفت نہیںکی، جبکہ ڈاکٹر سیدوسیم اختر مرحوم نے پنجاب اسمبلی میں باربار اس طرف حکمرانوں کو توجہ دلائی۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے جنوبی پنجاب صوبے کو دفن کرکے اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف رہے جب انہوں نے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے نام پرووٹ حاصل کیے۔ اب ایک بار پھر وہ اپنی قیمت وصول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے راہنما مخدوم احمد محمود نے پنجاب کی گورنر ی کے خاطر بحالی صوبہ بہاولپور تحریک کو دفنایا، انہوں نے اس کو اپنے اقتدار کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اس خطے کی غربت، پسماندگی اور جہالت کے ذمے دار ہیں۔ ان سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر ترقی و خوشحالی ممکن نہیں۔
عوام میں مایوسی اور غصہ پایا جاتا ہے، وہ ایک مسیحا کی تلاش میں ہیں جو ان کے دکھوں کا مداوا کرسکے، یہ مسیحا سراج الحق کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ وہ دیانت دار، باصلاحیت اور عوام میں سے ہی ہیں۔ وہ خود غریب ہیں اس لیے غریبوں کے دکھوں اور ان کے مسائل و مشکلات کو بہتر جانتے ہیں۔ سینیٹ کی جاری کردہ لسٹ کے مطابق وہ غریب ترین سینیٹر تھے جن کے بارے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر آئین کی دفعہ 62 ۔63 پر عمل ہو تو ایوان میں سراج الحق ہی بچے گا۔ جو اسٹیٹس کو اور ظلم کے نظام کا خاتمہ کرکے قرآن وسنت کا عادلانہ نظام لانے چاہتے ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر و سابق پارلیمانی لیڈر لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان آئینی اور سیاسی گرداب میں گھرا ہوا ہے۔ پورے ملک میں بے یقینی اور بے اعتمادی وبالِ جان بن رہی ہیں۔ پاکستان کلمہ کے نام پر بنا، ریاست کا مذہب اسلام طے پایا۔ اس نظام سے انحراف کی وجہ سے آج شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔لیاقت بلوچ کا تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک ایک آئینی و جمہوری طریقہ ہے لیکن عمران خان نے اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے بد زبانی کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے جلسوں میں مخالفین کو برے ناموں سے پکار کر سیاست میں شدت اور حدت پیدا کی ہے۔ لوگ جانتے ہیں پی پی ، نون لیگ اور جے یو آئی کے پاس کتنے ممبر ہیں، اب نمبر پورے کرنے کے لیے چوہے بلی کا کھیل شروع ہوگیا ہے ۔ وفاداریاں تبدیل ہورہی ہیں۔ بھان متی کا کنبہ جو خان صاحب نے جوڑا، وہ بکھر گیا ۔لیاقت بلوچ نے مطالبہ کیا کہ عوام کے مینڈیٹ کے لیے عوام سے رابطہ کیا جائے اور الیکشن کروائے جائیں۔