’’کیا ملک میں بپا ہنگامہ چند دن کا مہمان ہے؟‘‘

معروف کالم نگار رشید میمن نے اتوار 20 مارچ 2022ء کو اپنے زیر نظر کالم میں ملک اور صوبہ سندھ کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ یہ کالم کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر شائع ہوا ہے۔
……٭٭٭……
’’ملک کا سیاسی پارہ اس وقت بہت اوپر جاچکا ہے، دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت کے خلاف میدان میں اتری ہوئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے جس پر 28 مارچ کو حتمی فیصلہ ہونا ہے۔ پی ٹی آئی جو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاقی حکومت میں آئی ہے، اس کے دن اب ختم ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس صورت حال میں ایمپائر بھی عمران خان سے دور دکھائی دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی سرکاری کیمپ سے نکل کر حزبِ اختلاف کے کیمپ میں آرہے ہیں۔ مضبوط امکان ہے کہ عمران خان گھر چلے جائیں گے اور ملک کے اندر ایک نیا حکومتی سیٹ اَپ قائم ہوگا، جس کے وزیراعظم مسلم لیگ (ن) کے شہبازشریف ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کو اسپیکر شپ اور صدر کے عہدے ملیں گے۔ یہ سیٹ اَپ اسمبلیوں کی میعاد پوری ہونے تک چلایا جائے گا۔ اس طرح پیپلزپارٹی نے وزیراعظم شپ سے دست بردار ہوکر بڑی قربانی دی ہے۔ وفاقی سطح پر تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے ہی سخت کشیدگی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے اور وفاقی حکومت کی طرف سے مختلف آپشنز پر غور و فکر کیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین قومی اسمبلی سے پارٹی قیادت نے وفاداری تبدیل کرنے پر نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھی بھیجا جائے، لیکن اس عمل کو مکمل کرنے میں بہت دن لگ جائیں گے۔ اس لیے اس آپشن کے ذریعے انہیں وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اس لیے ووٹنگ والے دن ان اراکین قومی اسمبلی کو گرفتار کرانے، ایوان میں آنے سے روکنے سمیت دیگر آپشنز پر بھی غور و فکر کیا جارہا ہے، لیکن صورتِ حال سے عیاں ہوتا ہے کہ یہ سارے آپشن ناکام ہوجائیں گے اور عمران خان کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ اہم حلقوں سے ملنے والی معلومات کے مطابق عمران خان کا پتّا اُسی دن کٹ گیا تھا جب انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی والی سمری روکی اور اہم اداروں کے ساتھ تصادم کی راہ اپنائی۔ اسی دن یہ فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ اب ’’عمران خان‘‘ کی مزید حمایت نہیں کی جائے گی۔ یہ پیغام ملنے کے بعد ہی حزب مخالف میں شامل جماعتوں نے میدان میں آکر عمران خان کے خلاف ماحول بنایا اور اُن کے اپنے اراکین قومی اسمبلی کو بھی اپنے ساتھ ملایا۔ اس وقت پی ٹی آئی کے 60 سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی ایسے ہیں جو عمران خان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور ان کے خلاف ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے ووٹ ملنے کے بعد حزب مخالف کے لیے تحریک عدم اتحاد کو کامیاب کروانا آسان ہے، خواہ حکومت کے اتحادی حزبِ مخالف کا ساتھ دیں یا نہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک (قرارداد) پیش کرنے سے قبل پی ٹی آئی اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے الگ الگ احتجاج کرنے کے اعلانات کیے ہیں جس کی وجہ سے سخت تشویش اور کشیدگی کی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ ملک کو جھگڑے کی اس صورت حال سے نکالنے کے لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا ہے اور اس نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے۔ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے بھی صادر کیے ہیں، جس کی کچھ تفصیلات ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدم اعتماد کی قرارداد پر آئین کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔ عدالت کو اس سے کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے، سپریم کورٹ عدم اعتماد کی تحریک اور سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے دن ٹکرائو کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے آئینی درخواست داخل کی گئی تھی، جس میں وزیراعظم، وزارتِ داخلہ، وزارتِ دفاع، آئی جی اسلام آباد، ڈی سی اسلام آباد اور اسپیکر کو فریق بنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کرتے ہوئے اس معاملے کو ایک سیاسی معاملہ قرار دیا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہاکہ امید ہے سیاسی حلقے تحمل کا مظاہرہ کریں گے، حزب ِمخالف کو کہیں گے کہ قانون پر عمل کیا جائے۔ پارلیمنٹ کا احترام کیا جاتا ہے لیکن عدالت کا پلیٹ فارم کسی بھی پارٹی کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسی طرح سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اس معاملے کو انتظامی معاملہ قرار دیتے ہوئے ڈی چوک اور ریڈزون میں سیاسی جماعتوں کے جلسوں کو روکنے پر مبنی درخواست نمٹادی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے حکومت اور انتظامیہ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے اجلاس منعقد کرانے کے بارے میں درخواستوں پر فیصلہ دینے کا اختیار انتظامیہ کا ہے۔ انتظامیہ کو درخواستوں پر فیصلہ کرتے وقت بنیادی حقوق کے تحفظ کی آئینی ذمے داری کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔ انتظامیہ کو اختیار ہے کہ وہ خطرات کی نشاندہی کرے، شہریوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنائے۔ ہر شہری کی زندگی اور آزادی کا تحفظ حکومت اور قانون لاگو کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے، شہریوں کے کسی بھی قسم کے جانی یا مالی نقصان کی صورت میں وزارتِ داخلہ، سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی اسلام آباد ذمے دار ہوں گے۔ اس طرح سے عدلیہ نے حزبِ مخالف کے احتجاج اور عدم اعتماد کی تحریک کے معاملے پر کوئی سخت حکم تو جاری نہیں کیا لیکن انتظامیہ کو امن قائم کرنے کی ضرور ہدایت کی ہے۔ اب معاملہ اسلام آباد انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری بن چکا ہے۔
یہ تو ہوئی وفاقی صورت حال، لیکن پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کرنے کے اثرات سندھ پر بھی پڑرہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے سندھ میں اہم حصہ طلب کرلیا ہے، جس پر پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری راضی بھی ہوگئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے حلقوں سے معلوم ہوا ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے یہ شرائط پیش کی گئی ہیں کہ سندھ میں سرکاری نوکریوں پر بھرتی میں 40 فیصد شہری کوٹے پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے، خاص طور پر کراچی میں شہری کوٹے پر مبنی بھرتیاں نہیں ہورہی ہیں، جس پر حکومتِ سندھ کی جانب سے فیصلہ کیا گیا کہ سرکاری نوکریوں کی بھرتیوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور اگر کہیں پر بھی شہری کوٹے کی خلاف ورزی ہوئی ہوگی تو وہاں پر کارروائی کی جائے گی اور شہری کوٹے پر مکمل عمل کیا جائے گا۔ ایم کیو ایم نے یہ مطالبہ بھی رکھا ہے کہ کراچی میں جو جعلی اور غیر قانونی ڈومیسائل بن رہے ہیں انہیں رد کیا جائے۔ جس پر فیصلہ کیا گیا کہ حکومتِ سندھ اس حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائے گی اور کراچی میں گزشتہ 14 برس کے دوران بننے والے ڈومیسائلوں کا جائزہ لیا جائے گا اور جو بھی ڈومیسائل غیر قانونی پائے گئے، انہیں رد کردیا جائے گا۔
ایم کیو ایم کا ایک اہم مطالبہ یہ بھی ہے کہ کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص کے بلدیاتی ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری ایم کیو ایم کی مرضی سے کی جائے۔ اس مطالبے کو بھی پیپلزپارٹی اور حکومتِ سندھ نے تسلیم کرلیا ہے۔ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کو انتخابات تک برقرار رکھا جائے گا۔ باقی حیدرآباد اور میرپورخاص کے ایڈمنسٹریٹرز جو سرکاری افسران ہوتے ہیں، انہیں فوری تبدیل کردیا جائے گا اور ایم کیو ایم جن افسران کا نام دے گی انہیں ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا جائے گا۔ ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی کی قیادت کے سامنے یہ مطالبہ بھی رکھا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن میں ایم کیو ایم کی سفارش کا حامل ایک رکن بھی مقرر کیا جائے، اس مطالبے کو بھی تسلیم کرلیا گیا ہے، اور اس طرح سے کمیشن کا ایک ممبر ایم کیو ایم کی سفارش پر رکھا جائے گا اور اس کا آدمی ہوگا۔ ایم کیو ایم سے طے کیا گیا ہے کہ کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص کے اہم بلدیاتی اور پولیس افسران ایم کیو ایم کی مرضی سے رکھے جائیں گے۔ وفاقی حکومت میں حصہ دینے کے ساتھ ساتھ اسے حکومتِ سندھ میں بھی اہم حصہ دیا جائے گا۔ سندھ کے گورنر کے معاملے پر ایم کیو ایم سے معاملات ابھی فائنل نہیں ہوئے ہیں اور طے کیا گیا ہے کہ گورنر کی تقرری کے بارے میں عدم اعتماد کی تحریک کے بعد معاملات طے کیے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایم کیو ایم وزیراعظم کا ساتھ چھوڑنے کے لیے سندھ حکومت اور سندھ کے انتظامی معاملات سمیت نوکریوں میں اہم حصہ لینے کے چکر میں ہے، اور اس کے بیشتر مطالبات پورے بھی ہوجائیں گے۔
ملک کے اندر موجودہ صورت حال میں یہ بات بھی زور شور سے چل رہی ہے کہ وفاقی حکومت پیپلزپارٹی کو کمزور کرنے اور اس سے پولیس کا کنٹرول چھیننے کے لیے صوبہ سندھ میں ایمرجنسی نافذ کرنے اور گورنر کو حکومتِ سندھ کے اختیارات دینے پر بھی غور کررہی ہے۔ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے تو یہ بات بغیر سوچے سمجھے کہہ ڈالی کہ ’’وزیراعظم نے جب حکم دیا تو میں سندھ میں گورنر راج نافذ کردوں گا‘‘۔ شاید انہیں معلوم نہیں ہے کہ گورنر راج تو وہ لگاہی نہیں سکتے۔ صدرِ مملکت کو ایمرجنسی لگانے اور گورنر کو صوبے کے اختیارات دینے کے اختیارات حاصل ہیں، لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد یہ طریقہ کار بے حد مشکل بن گیا ہے، آسانی کے ساتھ ایمرجنسی بھی نہیں لگائی جاسکتی۔ اس حوالے سے آئین کیا کہتا ہے؟ تفصیلات پڑھنے والوں کے لیے پیش خدمت ہے:
آئین کے آرٹیکل 232 میں کسی بھی صوبے یا ملک کے اندر ایمرجنسی لگانے کا طریقہ کار طے شدہ ہے۔ اس شق میں بتایا گیا ہے کہ اگر ملک کو کوئی بیرونی خطرہ، جنگ کا خطرہ ہوگا، یا صدر مملکت نے یہ سمجھا کہ صوبے کی اندرونی صورت حال صوبائی حکومت کے قابو سے باہر ہے تو صدر ایمرجنسی نافذ کرسکتا ہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ صوبے کی صورت حال خراب ہوگی اور صوبائی حکومت کے قابو سے باہر ہوگی تو پھر اس صورت میں ایمرجنسی لگانے کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کروانا لازمی ہوگی۔ اور صدر اگر ایمرجنسی لگاتا ہے تو پھر 10 دن کے اندر اس ایمرجنسی کی مشترکہ اسمبلی سے منظوری لینی ہوگی۔ مشترکہ پارلیمان کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کو ایمرجنسی والے صوبے کے لیے قانون سازی کے اختیارات ہوں گے۔ اس طرح سے صوبے کے گورنر کو صوبائی امور سنبھالنے کے لیے صدر حکم دے سکے گا۔
پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو ختم کرنے کے لیے اس وقت حزبِ اختلاف کی کوششیں بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان بھی آخری وقت تک خود کو بچانے کی کوشش کرنے کے موڈ میں ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں اسپیکر قومی اسمبلی کا کردار اہم بن چکا ہے، کیوں کہ قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر کو طلب کرنا ہے، اور یہ فیصلہ بھی اسی کوکرنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر کب ووٹنگ کروائی جائے۔‘‘