یہ 1947ء کا دورِ پُرآشوب تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کے جموں خطے میں خود حکومت کی ایما پر فسادات کی آگ انسانیت کو شرمسار کررہی تھی۔ اکھنور علاقے میں فسادیوں کے ایک گروپ نے ایک مسلم خاندان کے مردوں کو ہلاک کرکے خواتین کو زیادتیوں کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں مردوں کا گوشت پکانے اور پھر زبردستی کھانے پر مجبور کروایا۔ چند سال قبل کشمیر کے ایک سابق بیوروکریٹ خالد بشیر کی تحقیق پر مبنی رپورٹ کو ٹائمز آف انڈیا کے کالم نویس سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے اپنے کالم کا موضوع بنایا تو کئی تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔ جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کُشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے۔ اس نسل کُشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جموں میں 69فیصد مسلم آبادی تھی، جس کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ دی ٹائمز لندن کی 10اگست 1948ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ان فسادات میں چند ماہ کے اندر دو لاکھ 37 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ جموں کی ایک سیاسی شخصیت رشی کمار کوشل نے ریاست میں مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ خود مسلمانوں پر گولیاں چلا رہے تھے۔ اودھم پور کے رام نگر میں تحصیل دار اودھے سنگھ اور مہاراجا کے اے ڈی سی کے فرزند بریگیڈیئر فقیر سنگھ خود اس قتل عام کی نگرانی کررہے تھے۔
انہی دنوں اس کے برعکس وادی کشمیر میں کس طرح عام کشمیری مسلمان پنڈتوں یعنی ہندوؤں کو بچانے کے لیے ایک ڈھال بنے ہوئے تھے، معروف صحافی و سیاسی کارکن پنڈت پران ناتھ جلالی اس کا ایک چشم دید واقعہ سناتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے تھے۔ شیخ محمد عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمامِ کار سنبھالی تو جلالی کو کشمیری پنڈتوں کی آباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑہ تحصیل کے کسی گاوٗں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سری نگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانے سے سپاہیوں کی کمک لے کر وہ اس گاوٗں میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاوٗں کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان کا انٹروگیشن کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی، حتیٰ کہ ان کی خواتین و بچوں تک کو بھی نہیں بخشا۔ سبھی گائوں والے عذاب تو سہتے رہے اور بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔
خیر، جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ایک خالی پنڈت مکان میں انھوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈال دیا۔ ایک رات ایک سپاہی نے ان کو بتایا کہ رات گئے گاوٗں میں لوگوں کی کچھ غیر معمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے تو ایک رات پران ناتھ جلالی اور سپاہیوں نے ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ چند میل چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ نالے کے دوسری طرف ایک محفوظ و تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گائوں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے۔ جلالی صاحب کہتے تھے کہ ’’ندامت سے میرے پائوں زمین میں گڑ گئے۔ گزشتہ کئی روز سے ہم نے ان گائوں والوں کا جس طرح ٹارچر کیا تھا، اس پر پشیمان تھے۔ اِن اَن پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیاں کھانا برداشت تو کیا، مگر کیا بچے کیا خواتین، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا راز افشا نہیں کیا‘‘۔ گائوں والوں نے بعد میں ان کو بتایا کہ ان کو لگا کہ سپاہیوں کے بھیس میں وہ پنڈتوں کو قتل کرنے اور لوٹ مار کرنے کی غرض سے آئے ہیں۔
اب حال ہی میں جس طرح وزیراعظم نریندر مودی کے کٹر حامی انوپم کھیر اور متھن چکرورتی کو لے کر وویک اگنی ہوتری نام کے ایک ڈائریکٹر نے 1990ء میں وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کی کہانی بیان کی ہے، وہ نہ صرف یک طرفہ ہے، بلکہ اس سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ان کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے۔ ایسا ہیجان برپا کردیا گیا ہے کہ ایک ویڈیو میں ایک شخص فلم ختم ہونے کے بعد چیختے ہوئے کہتا ہے کہ میری ہندو بھائیوں سے اپیل ہے کہ ان (مسلمانوں) سے ہوشیار رہیں، یہ کبھی بھی ہم پر حملہ کرسکتے ہیں۔ دہلی میں ایک سینئر صحافی فراز احمد پریس کلب میں ہمیں چھیڑنے کے لیے اکثر کہتے تھے کہ کشمیر کا مسئلہ دراصل کشمیری پنڈتوں کا داخلی جھگڑا ہے، جس نے جنوبی ایشیا کے امن و امان کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال، جنہوں نے پاکستان کا تصور دیا، بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو، جنہوں نے مسئلہ کشمیر کو پیچیدہ بنایا اور پھر شیخ محمد عبداللہ، جنہوں نے اس کو پیچیدہ بنانے میں معاونت کی، تینوں کشمیری پنڈتوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ کشمیری پنڈت کی اصطلاح دراصل زوال پذیر مغل بادشاہ محمد شاہ نے اپنے ایک درباری جے رام بھان کی ایما پر ایک فرمان کے ذریعے شروع کروائی۔ کشمیری پنڈتوں کا مغل دربار میں اچھا خاصا اثر رسوخ تھا، اس لیے وہ اپنے آپ کو دیگر برہمنوں سے اعلیٰ و برتر تصور کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے رسم و رواج دیگر برہمنوں سے جدا ہیں۔ وہ دیوالی و ہولی نہیں مناتے ہیں، بلکہ شیوراتری دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ انہوں نے کشمیر میں ایک متوازی گنگا کا ایک سنگم تیرتھ بھی اختراع کیا ہوا ہے اور کھیر بھوانی اور شاریکا دیوی ان کے دیوی دیوتا ہیں۔
ویسے کشمیر میں ہندو اور مسلمان میں تفریق کرنا مشکل تھا۔ الگ الگ بستیوں کے بجائے دیہاتوں و قصبوں میں دونوں فرقے ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ میر سید علی ہمدانی کی خانقاہوں، شیخ نورالدین ولی اور سری نگر شہر کے قلب میں کوہ ماراں پر شیخ حمزہ مخدوم کی درگاہوں پر کشمیری پنڈتوں کا بھی جم غفیر نظر آتا تھا۔ کشمیر کی معروف شاعرہ لل دید تو دونوں مذاہب کے ماننے والوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ ابھی تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ ہندو تھی یا مسلمان۔ اس کا پورا کلام ہی وحدانیت پر مشتمل ہے۔
(افتخار گیلانی۔ روزنامہ 92،منگل 22 مارچ 2022ء)