شوربا حلال، بوٹی حرام

ایک حصہ جائز دوسرا ناجائز۔ یہ کہاوت اس موقع پر بولتے ہیں جب کوئی شخص کسی حرام چیز کا ایک حصہ استعمال کرلے اور دوسرے حصے کو ناجائز سمجھ کر استعمال کرنے سے گریز کرے۔ اس کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب ایک حکایت ہے جو اس طرح بیان کی جاتی ہے:
’’برٹش حکومت کے زمانے میں ایک مولوی صاحب کی چھوٹی بہن نے عیسائی مذہب قبول کرلیا اور ایک انگریز سے شادی بھی کرلی۔ بزرگ اُس کے اس فعل سے بہت برہم ہوئے مگر اب کیا ہوسکتا تھا! ان کے دوستوں نے ان کی ذہنی کوفت کو دور کرنے کی غرض سے سمجھایا:
’’بھائی! نیا زمانہ ہے، نئی نسل کے نئے خیالات ہیں۔ ان باتوں کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ سب کو آزادی حاصل ہے۔ ہم لوگ بھی یہ رنگ ڈھنگ دیکھ رہے ہیں، مگر کیا کریں؟ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘۔
اس واقعے کے چند دن بعد بہن نے بھائی کو کھانے کی دعوت دی تو حضرت پس و پیش میں پڑ گئے۔ بہت سوچ بچار کے بعد جانے کا من بنالیا۔ لباس زیب تن کیا اور فاتحانہ انداز میں اپنی مخصوص چھڑی لے کر بہن کے یہاں پہنچ گئے۔ میز پر کھانا چنا گیا۔ سالن میں صرف قورما تھا۔ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا۔ شوربے ہی سے روٹی کھاتے رہے، بوٹی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ بہن نے کہا: ’’بھائی صاحب یہ تو ذبیحہ ہے، بوٹیاں بھی کھایئے‘‘۔
بھائی نے آہستہ سے جواب دیا: ’’مجھے پتا ہے، تمہارے یہاں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں، مگر کئی روز سے میرے مسوڑھوں میں درد ہے، ان میں چبھن سی ہورہی ہے‘‘۔
خیر، جب وہ کھانا کھا کر اپنے گھر واپس آئے تو ان کے دوست وہاں کا ماجرا سننے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ دوستوں کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا: ’’میں تو کرسٹان ہوتے ہوتے بچ گیا‘‘۔ دوستوں نے پوچھا: ’’وہ کیسے؟‘‘
فرمانے لگے: ’’بس میرا علم میرے کام آگیا ورنہ آج تو ایمان ہی چلا گیا تھا۔ کھانے میں سور کے گوشت کا قورما تھا اور ہمارے نزدیک سور کا گوشت حرام ہے۔ کسی کی دل آزاری بھی گناہ ہے۔ دل بدست آورکہ حج اکبر است، میں نے گوشت کی بوٹی کو ہاتھ تک نہیں لگایا، صرف شوربے سے روٹی کھاتا رہا۔ اس طرح بہن بہنوئی کی دل جوئی بھی کردی اور اپنا ایمان بھی بچالیا‘‘۔
دوستوں نے طنز بھرے لہجے میں کہا: ”کیا کہنا، شوربا حلال اور بوٹی حرام“۔
(ماہنامہ چشم بیدار، مارچ 2020ء)