دنیا میں قوموں اور ملکوں کے درمیان اصل مقابلہ مادی طاقت کا نہیں ہے، مقابلہ یہ ہے کہ کون سا معاشرہ بحیثیتِ مجموعی انسانیت کے لیے فائدہ مند ہے اور کس معاشرے کے انسان نسبتاً سب سے اچھے انسان ہیں… اور پھر جو اچھے انسانوں کا معاشرہ ہوتا ہے وہ دنیا پر غالب آتا ہے اور برے انسانوں کے معاشرے تنزل، انحطاط اور پسماندگی کا شکار رہتے ہیں یا اپنی ترقی کھو بیٹھتے ہیں اور قعر مذلت میں جاگرتے ہیں۔
مسلمانوں میں ایک غلط ذہنیت یہ رہی ہے کہ ہم بہت بہادر ہیں، ہماری تلوار نے دنیا کو فتح کیا۔ حالانکہ اقبال نے کہا تھا کہ شمشیر پر بھروسا کافر کرتا ہے، مسلمان کا ہتھیار اس کی ایمانیات اور اخلاقیات ہے جس کے سبب اس نے دنیا فتح کی۔ مسلمانوں نے میدانِ جنگ میں بھی اپنے جوہر دکھائے لیکن ان کا اصلی جوہر شمشیر آزمائی نہیں تھا، بلکہ یہ تھا کہ اسلامی تعلیمات نے انہیں اچھا انسان بنایا، اور اچھا انسان بننے کے بعد ان میں علم و فن کی قدر پیدا ہوئی۔ یہ علم و فن آج کی طرح کی رسمی تعلیم نہیں تھی جو مسلمانوں میں رائج ہے، بلکہ وہ واقعی عاشقانِ علم تھے۔ یونانی طب، سائنس اور فلسفے کی ساری کتابوں کے انہوں نے ترجمے کرائے، عجمی اور ہندی تہذیبوں کو کھنگال کر کام کی چیزیں اخذ کیں، انہوں نے غیر قوموں کے ملکی انتظام کو دیکھا اور اس سے بھی اپنے لیے بہت کچھ حاصل کیا، یہ جس جگہ گئے وہاں لوگوں نے ان کے اچھے انسان ہونے کو تسلیم کیا، اور یہ جہاں رہے وہاں برے انسانوں کو بھی اچھا انسان بنایا۔ دنیا میں جہاں بھی جو نبی آئے ان کا مشن اچھا انسان بنانا تھا، اور جب انسان ذاتی طور پر اچھے ہوں گے تو معاشرہ اچھا ہوگا۔ اچھا معاشرہ ترقی کی راہوں پر چلنے لگے گا اور نعمتوں سے سرفراز ہوگا۔ لیکن اچھا انسان بننے کے لیے ہر شخص کو اپنے نفس کی بندگی سے نجات پاکر اس پر فتح حاصل کرنا ہوگی۔ یہی جہادِ اکبر ہے اور یہی ہمارے معاشرے میں نہیں ہورہا ہے۔ کسی کو یہ خیال نہیں کہ ہمارا تنزل، ہماری بدبختی اس وجہ سے ہے کہ انسان سازی نہیں ہورہی ہے، مدارس میں نہ کالجوں میں، نہ روحانی مراکز میں، نہ معیشت کے اداروں میں۔ اس کی وجہ سے ہمارا استاد اچھا استاد نہیں ہے، ہمارا کاروبار صحیح کاروبار نہیں ہے، ہمارا افسر اور کلرک بھی ٹھیک نہیں ہے، اور اہلِ سیاست ہوں یا محراب و منبر کے واعظ و خطیب… سب غلط ہوگئے ہیں، اور پہلی ضرورت انسانوں کو اچھا انسان بنانے کی ہے۔ اچھے انسان ہوں گے تو دیانت دار ہوں گے، فرض شناس ہوں گے، باہم روادار ہوں گے، تعصبات سے پاک ہوں گے، تنگ نظر کے بجائے وسیع النظر ہوں گے، خوش فہمیوں کی دنیا میں رہنے کے بجائے حقیقت پسند ہوں گے، ان میں انتہا پسندی کی جگہ اعتدال پسندی ہوگی۔ غرض ایک معاشرے کو اپنی پسماندگی دور کرنے اور ترقی کرنے کے لیے جن خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں موجود ہوں گی، اور یہ خصوصیات انہیں دنیوی اعتبار سے بھی بہتری اور کامیابی کی طرف لے جائیں گی۔
(عبدالکریم عابد، ماہنامہ بیداری حیدرآباد، ستمبر2008ء)
مجلس اقبال
علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خِرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
اس شعر میں علامہ نے مغربیت سے مرعوب افراد کو یہ مشورہ دیا ہے کہ مغرب کے زہریلے تہذیبی اثرات اور مغربی برتری کے جادو کا توڑ رومیؒ کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہے۔ علامہ کے مطابق مغرب کی ذہنی غلامی کے نتیجے میں غور و فکر کی بہت سی صلاحیتیں مُردہ ہوجاتی ہیں اور انہیں جس حرارت اور سوز کی تپش سے زندہ کیا جاسکتا ہے وہ رومیؒ کے ارشادات یا رومیؒ کی محفل سے ملتا ہے۔ یہ وہ تجربہ ہے جس سے اقبال خود فیض یاب ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ تم بھی میری طرح اپنے آپ کو پیر روم کے ساتھ جوڑ لو کہ انوار و افکارِ رومی سے فیض حاصل کرکے اپنی عقل کو مغرب کی غلامی کی بیماری سے آزاد کرسکو۔