اسلامی وزرائے خارجہ کی اسلام آباد کانفرنس

23 مارچ 1940ء کو مسلمانانِ برصغیر کے عظیم الشان اجتماع میں اپنے اسلامی تشخص کے تحفظ کی خاطر الگ مملکت کے حصول کی قرارداد منظور کیے جانے کے ٹھیک 82 برس بعد، اور مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وجود میں آنے کے 75 ویں برس میں داخل ہونے کے موقع پر پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے 48 ویں اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل کیا۔ 23 اور 23 مارچ 2022ء کو اسلام آباد میں منعقدہ اس اجلاس کا موضوع ’’اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری‘‘ طے کیا گیا تھا، جب کہ اس کے لیے حجاب، اسلامو فوبیا، کشمیر، فلسطین، سیکورٹی اور اقتصادی ترقی جیسے امور سمیت سو نکاتی ایجنڈا ترتیب دیا گیا۔ اس اجلاس میں حریت پسند کشمیری قیادت کا ایک نمائندہ وفد خصوصی طور پر شریک ہوا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر پر نمائندۂ خصوصی کی رپورٹ، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل انسانی حقوق کے نومبر 2021ء میں پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کے دورے کی رپورٹ بھی اجلاس کے شرکاء کے سامنے پیش کی گئی۔ اس کے علاوہ تنظیم کے کشمیر رابطہ گروپ نے مختلف ممالک کے وفود سے ملاقاتیں بھی کیں اور انہیں بھارت کے زیر تسلط حصے میں بھارتی فوج کے مظالم اور وہاں انسانی حقوق کی ناگفتہ بہ صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ اجلاس میں مسئلہ کشمیر، فلسطین، افغانستان، اسلامو فوبیا، حجاب، کرپشن، امن، سیکورٹی، اقتصادی ترقی، سائنس اور ثقافتی شعبوں میں تعاون سمیت امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل پر ایک سو سے زائد قراردادوں کی منظوری بھی دی گئی۔
کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا میں اسلام صرف ایک ہے جسے رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے، پاکستان واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں لائی گئی، یہ ایک تاریخ ساز موقع ہے کہ اسلامی وزرائے خارجہ کا اجلاس پاکستان میں منعقد ہورہا ہے۔ رسول کریمؐ پوری دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے تھے، انہوں نے ریاست مدینہ کو جن اصولوں پر استوار کیا جو بھی ان اصولوں پر عمل کرے گا، فلاح اور ترقی اُس کا مقدر بنے گی، مدینہ کی ریاست میں امیر اور غریب میں فرق نہیں تھا، آج مغربی دنیا نے ریاست مدینہ کے اصول اپنا لیے ہیں تو وہ ترقی کررہی ہے۔ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر آج اسلامو فوبیا ایک حقیقت ہے، نائن الیون کے بعد مغرب میں مسلمانوں کا جینا مشکل ہوگیا۔ مسلمانوں نے اپنے خلاف بیانیے کو چیلنج نہیں کیا۔ دنیا اسلامو فوبیا کے نام پر واقعات پر خاموش رہی اور مسلمانوں نے بھی کوئی مؤثر ردعمل نہیں دیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخانہ خاکوں پر زوردار ردعمل سامنے نہ آنے سے ایسے واقعات کو دہرایا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کانفرنس کے شرکاء کو یاد دلایا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے قیام کا مقصد اسلامی اقدار کا تحفظ تھا، اور آج یہ اقدار شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا کے خلاف قرارداد کی منظوری اور ہر سال 15 مارچ کو اس سلسلے میں دن منائے جانے کے فیصلے کو سراہا۔ انہوں نے مسلمان بچوں کو اعلیٰ اسلامی اخلاق و اقدار سے روشناس کرانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ ہم نے پاکستان میں اسی مقصد کی خاطر ’’رحمت اللعالمین اتھارٹی‘‘ قائم کی ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے افسوس کا اظہار کیا کہ پون صدی سے یہ مسائل حل طلب چلے آرہے ہیں، بھارت اور اسرائیل کے مظالم اور ناانصافیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، مگر امتِ مسلمہ کی طرف سے ان دونوں ممالک پر کوئی دبائو نہیں ڈالا جا سکا۔ افغانستان گزشتہ چالیس برس سے جنگ کی زد میں ہے مگر وہاں کے عوام نے کسی غیر کی بالادستی قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، آج مختلف پابندیوں کے سبب افغانستان کو شدید مسائل کا سامنا ہے، اس ضمن میں انسانی بنیادوں پر ٹرسٹ فنڈ کا قیام ایک قابلِ قدر اقدام ہے۔ روس یوکرین جنگ سے متعلق امتِ مسئلہ کو غیر جانب دار رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کسی بلاک میں جانے اور جنگ کا حصہ بننے کے بجائے متحد رہ کر امن میں شراکت دار بنیں۔
وزیراعظم عمران خان اور کانفرنس کے دیگر مقررین کے ارشاداتِ عالیہ سر آنکھوں پر… مگر سوال یہ ہے کہ کیا امتِ مسلمہ کوئی ٹھوس اور عملی پیش رفت بھی اس کانفرنس کے نتیجے میں دیکھ پائے گی؟
اسلامی تعاون تنظیم کی ضرورت پہلی بار اُس وقت محسوس کی گئی جب 1969ء میں اسرائیل کے ہاتھوں مسجدِ اقصیٰ کو نذرِ آتش کیے جانے کا سانحہ رونما ہوا، جس کے خلاف اظہارِ یکجہتی کے لیے 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے دارالحکومت رباط میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اپنے قیام کے ابتدائی کچھ برسوں میں اسلامی تعاون تنظیم نے بھرپور انداز میں فعال اور متحرک کردار ادا کیا اور یہ محسوس ہونے لگا کہ تنظیم امتِ مسلمہ کی جان دار آواز بن کر ابھرے گی، مگر پھر بدقسمتی سے اس تنظیم کو کسی کی نظر لگ گئی یا شاید اپنوں اور پرایوں کی سازشوں کا شکار ہوکر یہ عضوِ معطل کی حیثیت اختیار کر گئی۔ ابتدا میں کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل پر امت کا متفقہ مؤقف سامنے آیا کرتا تھا، افغانستان پر روس کے حملے کے وقت بھی تمام مسلم ممالک کا مؤقف تقریباً یکساں تھا، مگر آج عالم یہ ہے کہ کئی مسلمان ممالک فلسطینی مجاہدین کو بے یارو مددگار چھوڑ کر اسرائیل سے تعلقات استوار کررہے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی مسلمان ممالک اپنے معاشی مفادات کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ مختلف مسلم ممالک کے مابین باہمی تنازعات میں بھی اسلامی تعاون تنظیم امن اور صلح کی خاطر کوئی مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے میں اگر تنظیم کے تنِ مُردہ میں زندگی کی رمق محسوس کی جانے لگی ہے تو دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تنظیم کو امت کے اتحاد، یکجہتی، ترقی و خوشحالی کے راستے میں متحرک، مؤثر اور فعال کردار ادا کرنے کی توفیق بخشے، اور اسلام آباد کی وزرائے خارجہ کانفرنس اس ضمن میں سنگِ میل ثابت ہو۔
(حامد ریاض ڈوگر)