پاکستان میں اردو زبان کے بطور قومی زبان نفاذ کا مسئلہ صرف جسٹس جواد ایس خواجہ کے فیصلے یا حکم سے مخصوص نہیں، اور نہ قائداعظم کے اس اعلان ہی سے مخصوص ہے جو انھوں نے ڈھاکہ کے اجتماع ِ عام میں بڑے واشگاف الفاظ میںکیا تھا کہ ’’پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی‘‘، بلکہ اس واشگاف بیان سے بھی قبل تحریکِ پاکستان کے دوران، بلکہ 1867ء میں ہندوئوں کی جانب سے بنارس میں ہندی زبان کو سرکاری زبان بنائے جانے کے مطالبے پر ہی ہندوستان میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے لیے الگ الگ ملک بنائے جانے کی کوششوں کا آغاز ہوچکا تھا، اور اس بارے میں سرسید احمد خان کے بیان سے اس کا واضح اشارہ تاریخ کا حصہ ہے، پھر پاکستان میں اردو زبان کے بطور قومی زبان نفاذ کا فیصلہ تو قیامِ پاکستان سے قبل ہی مسلم لیگ کے اجلاسوں میں بھی کھلے لفظوں میں ہوتا رہا۔ گویا قیام ِپاکستان سے پہلے یا تصور ِپاکستان کے اظہار کے وقت سے ہی یہ ایک واضح فیصلے کی صورت اختیار کرچکا تھا، جسے قائداعظم کے اعلان ِڈھاکہ اور آئین پاکستان میں اس سے متعلق شق کی شمولیت سے اردوکے بطور قومی زبان نافذ کیے جانے کے فیصلے کو تقویت ملتی اور توثیق ہوتی رہی ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردواور صرف اردو ہی ہوگی۔ یہ اور بات ہے کہ ہماری حکومتوں اور ان کے ذمے داروں نے اپنے غلامانہ ذہنوں کے ذریعے، اور انگریزی نظام تعلیم کی پروردہ نوکر شاہی کے زیراثر اس بارے میں نہ کبھی سنجیدگی اختیار کی، نہ اس اہم اور بنیادی قومی تقاضے کو اہمیت دی، اور نہ اس کے نفاذ کی بابت کوئی مثبت و مؤثر اقدامات کیے۔ چناں چہ اس فیصلے کے آغاز سے جسٹس جواد ایس خواجہ کے فیصلے (8 ستمبر 2015ء)کے جاری ہونے تک محض ایک کوشش کو استثنیٰ حاصل ہوا جو جنرل ضیاالحق نے کی تھی اور بڑے اخلاص اور سنجیدگی سے ممکنہ حد تک اردو کے نفاذ کی مخلصانہ کوششیں کیں، جس کے تحت نفاذ کے مراحل طے کرنے اور حل کرنے کے لیے ’مقتدرہ قومی زبان‘ کا قیام اور اس کے توسط سے نفاذ ِاردو کے لیے سفارشات یا تدریجی کوششوں بشمول دفتری اصطلاحات اور لائحہ عمل کی تیاری کا حصول اور دیگر متعدد اقدامات ضیاالحق کی قابلِ رشک اور امید افزا کوششیں تھیں، لیکن بالآخر نوکر شاہی نے ضیاالحق کے عزائم، ارادوں اور کوششوں کو بھی شکست دے دی جو اس ملک کے چند بڑے المیوں اور افسوس ناک سانحات میں سے ایک ہے۔
ضیاالحق کا دور گزرنے کے بعد نفاذِ اردو کے بارے میں محض جسٹس جواد ایس خواجہ کا واحد اقدام ہے جو نفاذِ اردو کے تعلق سے قومی تقاضوں کے عین مطابق ہے اور جس سے امید بندھتی تھی کہ اس فیصلے کے بعد اب نوکر شاہی اور دیگر متعلقہ افسران اورمحکمے و ادارے اس بارے میں سنجیدگی سے نفاذ ِ اردو کے لیے عدالتی احکامات کی پاسداری کریں گے اور اردو کے نفاذ کے لیے بلا روک ٹوک اقدامات کریں گے، لیکن یہ عدالتی حکم بھی ہر ہر سطح پر اور ہر ہر شعبے میں عدم توجہی، حکم عدولی، بلکہ ایک لحاظ سے مخالفت کا نشانہ بنا ہے اور بن رہا ہے جس میں نچلی سطح کے افسروں سے لے کر وزیراعظم اور صدر مملکت تک سب سرکاری ذمے داران شامل ہیں۔ یہاں تک کہ اس رویّے اور عمل میں جھوٹ اور منافقت بھی نمایاں ہے جس میں وزیراعظم عمران خان کے نفاذ ِ اردو کے حق میں بیانات بھی ڈھکے چھپے نہیں جو اُن کے دیگردعووں کی طرح اب تک سیاسی بیان بازی سے مختلف نہیں ہیں۔
ایسی صورت اور ایسے رویوں میں کہ جہاں قومی تقاضوں اور قوم کی دیرینہ خواہش اور مطالبوں سے قطعِ نظر واضح عدالتی حکم کی بھی کوئی اہمیت نہ ہو، وہاں آج کل نفاذ ِاردو کے لیے سرگرم حلقوں، اداروں، جماعتوں اور ان کی سرگرمیوں اور مطالبوں کی کیا قدر و اہمیت ہوگی؟ اور وزرائے اعظم کے منافقانہ رویوں کو دیکھتے ہوئے عمال ِ حکومت یا کوئی سرکاری افسر و وزیر اور محکمہ اس طرف کیوں توجہ دے!
ہم دیکھ رہے ہیں کہ جواد ایس خواجہ صاحب کے حکم کے بعد ہمارے دردمند اور مخلص عوامی حلقوں اور اداروں نے نفاذِ اردو کے لیے بے لوث سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں اور نہایت سرگرمی سے ارباب ِاختیار سے مطالبات شروع کررکھے ہیں جس میں متواتر شدت پیدا ہونے کے باوجود کسی افسر و وزیر اور محکمے کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی ہے، اور لگتا ہے کسی پر کوئی اثر ہی نہیں ہورہا ہے۔ اس لیے اب ہم سمجھتے ہیں کہ مطالبات کی اس طرح کی کوششیں اب بے معنی اور بے اثر لگ رہی ہیں، چاہے اخبارات کے صفحات کے صفحات سیاہ ہوجائیں، جلسے، جلوس اور احتجاج سڑکوں اور میدانوں تک پہنچ جائیں لیکن ارباب اختیار پر کوئی اثر ہی نہ ہورہا ہو تو ان ساری کوششوں کے بجائے اب صرف راست اقدام ہی کچھ مؤثر ہوسکے اور ارباب اختیار کچھ اس جانب توجہ دیں اور نفاذ ِاردو کے بارے میں کچھ مناسب پیش رفت ہوسکے۔ گویا اب صرف راست اقدام ہی نفاذ ِ اردو کی کچھ امید دلاسکتا ہے۔ یہ راست اقدام یوں ہوسکتے ہیں جو مطالبات کی صورت میں سامنے آتے رہے ہیں کہ یا تو (1) ایوان صدر کے سامنے مستقلاًدھرنا دیا جائے، (2) بنی گالہ کا مستقلاً گھیراؤ کیا جائے، (3) سپریم کورٹ کے سامنے مستقلاً دھرنا دیا جائے، اور ساتھ ہی (4) وزارت ِقانون اور وزارتِ اطلاعات و نشریات کے سامنے بھوک ہڑتال کی جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان اقدامات سے حکومت کے ارباب ِاختیار ضرور توہین ِعدالت کا نوٹس لیں گے اور امکان ہے کہ نفاذ ِاردو کے معاملے میں کوئی مثبت پیش رفت ہوسکے۔ ورنہ کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ نفاذِ اردو کے مطالبات پر مبنی آج کل جاری ساری عوامی جدوجہد اور مطالبات اور احتجاج کا کوئی مثبت نتیجہ نکل سکے، جس میں عوام کو گزشتہ چھے سات سال سے مسلسل ناکامیوں اور مایوسیوں ہی کا سامنا ہے۔ اس کے مقابلے میں عدالت ِعظمیٰ کے فیصلے کو پذیرائی مل سکے اور ارباب اختیار اس فیصلے کے نفاذ کے لیے سنجیدہ ہوسکیں۔ لیکن بے حد افسوس کہ اس پُرہنگام ہائو ہو کے باوجود ہماری عدلیہ بھی یکسر لاتعلق بنی رہی کہ اس طویل ہائوہو کا اس پر کوئی اثر ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ اس اہم ترین قومی و ملّی مسئلے پر وہ بھی ازخود راست قدم اٹھا سکتی تھی جب کہ نفاذ اردو کے مجاہدین خود بھی درخواست لے کر اس کے در تک پہنچ چکے تھے، لیکن اس راست درخواست کے باوجود چیف جسٹس صاحب نے اس کی شنوائی میں کوئی سنجیدگی نہ دکھائی، اور عدالت متعدد مقدمات یا معاملات فوری بھی سن لیتی ہے لیکن اسے سننے میں کوئی عجلت نہ دکھائی اور بات مہینوں تک ٹلتی رہی، اور بالآخر جب جواد ایس خواجہ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کیے جانے کے ردعمل میں توہین عدالت کی دائر درخواست کی سماعت ہوئی تو پھر وہی اقدام کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کو جواب داخل کرنے کی مہلت دے دی گئی اور یوں بات پھر ٹل گئی، اور ظاہر ہے یہ مہلت عدالت ہی نے دی جس کی بظاہر کوئی وجہ نہ تھی۔ یہ مہلت صوبائی حکومتوں کو دے دی جاتی لیکن وفاقی حکومت کو نہیں دینی چاہیے تھی کہ ساری تیاریاں برسوں پہلے مکمل ہوچکی تھیں اور ریاست حیدرآباد دکن میں کئی دہائیوں سے اردو ہر سطح پردفتروں میں اور ہر شعبۂ علم طب، انجینئری وغیرہ میں مروج تھی، اور اسی کے مطابق پاکستان ہی کے کئی علمی اداروں: مقتدرہ قومی زبان اور پنجاب یونیورسٹی میں یہاں کی ضرورتوں کے مطابق ہر شعبے کے لیے اصطلاحات اور تراجم کے ذریعے اس قابل کردی گئی تھی کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی اردو نافذ کی جاسکتی تھی، لیکن
نوکر شاہی کی کم علمی، جہالت اور قومی تقاضوں سے لاتعلقی کے باعث بالارادہ نافذ نہ کی گئی۔ نوکر شاہی طبقے کا تو یہ رویہ آج بھی برقرار ہے لیکن عدلیہ کا رویہ اس قدر مایوس کن ہوسکتا ہے یہ آج پتا چلا کہ جواد ایس خواجہ نے تو فوراً اردو کے استعمال کا حکم صادر کیا لیکن آج کی عدلیہ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے رائے طلب کی ہے، گویا اس نفاذ کو ٹالنا چاہ رہی ہے یا درخواست کو منوں مٹی تلے دبادینا چاہتی ہے۔ فی الحال تو سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی ہے، جیسا کہ پہلے ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہوا ہے! نہ کوئی ہدایت، نہ حکم، نہ اگلی سماعت کی تاریخ! اس طرح اس عدالت نے اپنے 8 ستمبر 2015ء کے فیصلے پر عمل درآمد کا کوئی نوٹس لیا نہ توہین عدالت پر کوئی حکم صادر کیا۔ عدلیہ کا بھی اگر نوکر شاہی کی طرح کا رویہ ہو تو ہر وہ شخص اورعوامی ادارہ جو نفاذِ اردو کے مطالبے کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن سرگرم اور مستعد ہے، یوں ہی اپنی توانائیاں اور قوت و وسائل صرف کرتا رہے گا اور عدلیہ کی جانب سے یہ ایک آخری آس بندھی رہنے کے باوجود نتیجہ کچھ نہ نکلے گا تویہ ایک بہت بڑا قومی المیہ ہوگا جو پاکستان کے استحکام اور ترقی و خوش حالی اورعزت و وقار کے منافی ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ آج پاکستان کو جہاں پہنچنا چاہیے تھا وہاں نہ پہنچ سکا اور قوم حقیقی عزت و وقار اور ترقی سے محروم ہے۔