انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس) پشاور کے زیراہتمام ’’افغانستان کا نیا منظر نامہ، خدشات اور امکانات‘‘ کے موضوع پر ادارۂ تعلیم و تحقیق جامعہ پشاور میں منعقدہ ایک روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط اور افغانستان میں سابق سفیر سید محمد ابرار نے کہا ہے کہ پاکستان کو امارتِ اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ طالبان افغانستان اور کابل پر افغان عوام کی تائید اور مؤثر قبضے کے نتیجے میں برسر اقتدار آئے ہیں جن کا افغانستان کے تمام علاقوں پر قبضہ ہے، اور انہوں نے پورے افغانستان میں مثالی امن قائم کرکے دنیا کو مثبت پیغام دیا ہے۔ لہٰذا پاکستان کو چین اور روس سمیت ترکی، ازبکستان، ایران، آذربائیجان اور سعودی عرب جیسے دوست اسلامی ممالک کو اعتماد میں لے کر بلا توقف طالبان حکومت کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد اور مشترکہ تاریخ، مذہب، ثقافت اور اقتصادی مفادات ہیں جس کے باعث ایک دوسرے سے دور رہنا دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے۔
سید ابرار حسین نے کہا کہ افغانستان کے آٹھ پڑوسی ممالک ہیں جن میں سے کسی کے ساتھ بھی پاکستان جتنی طویل سرحد نہیں ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مشترکات 90/95 فیصد ہیں، جبکہ مخالفتیں 4/5فیصد ہیں، لہٰذا پاکستان کو افغانوں کے سر نہیں بلکہ دل جیتنے پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان 1990ء کے عشرے کے برعکس دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے آمادہ ہیں اور اُن کی جانب سے اپنے رویوں میں لچک کا مظاہرہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ ساتھ خود افغان ملت کے بھی حق میں ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ 23,22 مارچ کو اسلامی کانفرنس تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اسلام آ باد میں ہونے والے اجلاس میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بطور ایک قریبی پڑوسی ملک افغان عوام کو، درپیش مسائل سے عہدہ برا ہونے میں، ہر ممکن تعاون فراہم کرنا چاہیے۔
سیمینار سے طالبان دور کے سابق چیف جسٹس مولانا محمد سعید ہاشمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دوستی کے اٹوٹ رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اور ان دونوں برادر ممالک کا دکھ سُکھ ایک ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ پشاور نے پاک افغان تعلقات میں سردمہری یا تنائو کے اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کی مثال یک جان دوقالب کی مانند ہے، افغانستان ہمیشہ سے بیرونی حملہ آوروں کی گزرگاہ رہا ہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں افغانستان برطانیہ اور روس کے درمیان گریٹ گیم کا شکار رہا، جب کہ بیسویں صدی میں یہ خطہ سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا محاذ رہا ہے، اور اب یہاں تیسرے گریٹ گیم کی تیاریاں عروج پر ہیں جس میں چین اورامریکہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام نے کہا کہ پاکستان خاص کر خیبر پختون خوا سے جب کوئی بھی افغانستان جاتا ہے تو اسے بیرونِ ملک کا سفر نہیں کہا جاتا، اس کی وجہ دو طرفہ یکسانیت ہے جو زبان، کلچر، مذہب اور تاریخ کی شکل میں نظر آتی ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثر کی ایک اہم وجہ ماضی کے واقعات ہیں، 1970ء کے عشرے میں پاکستان نے افغان کمیونسٹ حکمرانوںکے مقابلے میں مجاہدین کو سپورٹ کیا، 1990ء کے عشرے میں پہلے مجاہدین حکومت کے مقابلے میں طالبان، اور بعد ازاں طالبان کے مقابلے میں امریکہ اور کرزئی وغیرہ کوسپورٹ کیا، جب کہ اب پاکستان کے متعلق ڈاکٹر اشرف غنی کے مقابلے میں طالبان کی حمایت اور پشتی بانی کی بات کی جاتی ہے۔ اسی طرح پاک افغان تنائوکی ایک اور وجہ ڈیورنڈ لائن کا قضیہ ہے، جبکہ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کے ایشو پر بھی تنائو میں اضافے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ تیسرا بڑا مسئلہ دہشت گردی کے واقعات ہیں، اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں۔ چوتھا مسئلہ تجارت کا ہے، دونوں ممالک میں اس مسئلے کو دو آزاد اور خودمختار ممالک کے طور پر حل نہیںکیا گیا۔ اس کو غیر روایتی طریقوں کے بجائے 1965ء اور 2010ء کے ٹریڈ معاہدوں کی روشنی میں حل کیا جانا چاہیے۔ پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان زمینی تجارت کے لیے افغانستان کی رضامندی بنیادی شرط ہے جس پر مل کرکام کرنے کی ضرورت ہے۔
سیمینار سے معروف صحافی اور تجزیہ کار طاہر خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکومت اور متعلقہ اداروں کو زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر یہ بات کی کہ پاکستان میں افغانستان کے معاملے پر کریڈٹ لینے کی ذہنیت کو بدلے بغیر نہ تو افغانوں کی سوچ کوپاکستان کے بارے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس رویّے سے پاک افغان تعلقات میں پائی جانے والی بداعتمادی کی فضا ختم کی جاسکتی ہے۔
سیمینار سے افغانستان ہائی پیس کونسل کے سابق ترجمان اور کنڑ کے سابق ممبر اولسی جرگہ (قومی اسمبلی) مولانا محمد شہزادہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں کہ افغانوں کے دلوں میں پاکستان کے لیے کوئی کدورت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان کو عام افغانوں کے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے سرحد پر آمد ورفت کی سہولیات میں آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں اور ماضی میں پاکستان نے افغانوں کے ساتھ ہمدردی اور دوستی کا جو سلوک روا رکھا ہے توقع ہے کہ موجودہ سخت حالات میں بھی عام افغانوں کے مسائل کے ازالے میں اسی جذبے اور رویّے سے کام لیا جائے گا۔
سیمینار سے پاک افغان فورم کے چیئرمین حبیب اللہ خان خٹک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے پاک افغان فورم کی جانب سے اب تک 2167 ملین روپے کا 580 ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان افغان عوام کو پہنچایا جاچکا ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں جب سے طالبان برسراقتدار آئے ہیں، پورے افغانستان سے نہ تو کسی کے بھوک سے اور نہ ہی ادویہ نہ ہونے کے باعث مرنے کی کوئی خبر آئی ہے۔
سیمینار سے سابق افغان حکومت کے ڈپٹی وزیر تعلیم ڈاکٹر عطاء اللہ واحد یار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان بین الاقوامی سطح پر اپنا وجود تسلیم کروانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں تعلیم بالخصوص بچیوں کی تعلیم پر توجہ دینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دس سال کے دوران افغانستان میں تعلیم کے میدان میں جو ترقی ہوئی ہے اس کے ثمرات سمیٹنے کے لیے طالبان کو جاری تعلیمی منصوبوں کو بحال رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی نظام کو اسلامی تعلیمات اور مقامی روایات سے ہم آہنگ کرکے بنایاگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ طالبان نے ٹیک اوور کرنے کے بعد تمام شعبوں میں اصلاحات کا عندیہ دیاہے لیکن تعلیمی نظام کو جوں کا توں رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر ضیاء الحق سرحدی نے کہا کہ طالبان کے ٹیک اوور کے بعد دو طرفہ تجارت تقریباً ختم ہوچکی ہے، ڈالر کی ٹرانزیکشن پر پابندی کی وجہ سے افغان معیشت خطرات سے دوچار ہے، 2010ء کے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کو دونوں جانب کے پانچ سو سے زائد تاجروں اور صنعت کاروں کی مشاورت سے ترمیم کرکے دونوں ممالک کے مفاد میں بنایا جاسکتا ہے۔
متذکرہ سیمینار ایک ایسے وقت اور موضوع پرمنعقد ہوا جس کے متعلق ہر ذی شعور پاکستانی نہ صرف پریشان ہے بلکہ پاک افغان تعلقات کی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حالات میں اس کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ویسے بھی پاکستان اور افغانستان چونکہ ہمسائیگی کے اٹوٹ رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور ان دونوں برادر ممالک کا دکھ سکھ ایک ہے، اور اب جب طالبان بھی برملا اس بات کااظہار کرچکے ہیں کہ وہ نوّے کے عشرے کے برعکس دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے آمادہ ہیں اور ان کی جانب سے اس حوالے سے رویّے میں لچک کا مظاہرہ بھی نظر آ رہا ہے تو پھر ان پر اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
زیرنظر سیمینار سے خطاب میں پاکستان کے دو کہنہ مشق سابق سفیروں اور دیگر ماہرین کا یہ استدلال سوفیصد درست اور لائقِ توجہ ہے کہ پاکستان کو اسلامی کانفرنس تنظیم کے وزرائے خارجہ کے متوقع اجلاس میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کروانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ سیمینار سے خطاب میںمعروف صحافی اور افغان امور کے ماہر طاہر خان کی اس بات میں بھی خاصا وزن نظر آتا ہے کہ پاکستان میں افغانستان کے معاملے پر کریڈٹ لینے کی ذہنیت کو بدلے بغیر نہ تو افغانوں کی سوچ کوپاکستان کے بارے میں تبدیل کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی اس رویّے سے پاک افغان تعلقات میں پائی جانے والی بداعتمادی کی فضا کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ افغانستان کے ساتھ انسانی ہمدردی کے حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے پاکستان اب تک 580 ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان افغان عوام کو پہنچاچکا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی قابلِ اطمینان ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں جب سے طالبان برسراقتدار آئے ہیں، پورے افغانستان سے نہ تو کسی کے بھوک سے اور نہ ہی ادویہ نہ ہونے کے باعث مرنے کی کوئی خبر آئی ہے۔
افغان عوام کو درپیش کئی چیلنجوں میں سے ایک اہم چیلنج افغانستان کا معاشی بحران ہے جس کا براہ راست ذمہ دار امریکہ اور اُس کے اتحادی ممالک ہیں جنہوں نے نہ صرف امارتِ اسلامیہ افغانستان پراقتصادی پابندیاں عائد کررکھی ہیں بلکہ افغانستان کے 9 بلین ڈالر کے اثاثے منجمدکرکے انہیں نائن الیون کے متاثرین میں تقسیم کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ یاد رہے کہ طالبان کے ٹیک اوور کے بعد سے جب سے امریکہ نے طالبان حکومت پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں تب سے پاکستان اور افغانستان کی دو طرفہ تجارت جو2010ء کے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی وجہ سے پہلے ہی شدید دبائو کا شکار تھی، مزید خطرات سے دوچار ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ معاہدہ اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے دبائو پر کیا گیا تھا جس کا درپردہ فائدہ بھارت کو پہنچانا مقصود تھا، حالانکہ پاکستان اورافغانستان کے مشترکہ چیمبر آف کامرس نے اس معاہدے کو مسترد کیا تھا، لیکن ان کی نہیں سنی گئی تھی۔ لہٰذا توقع ہے کہ دوطرفہ تجارت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مشترکہ چیمبر کے لگ بھگ پانچ سو ارکان سے مشاورت کرکے دونوں ممالک کے لیے قابلِ قبول اور قابلِ عمل تجارتی پالیسی وضع کی جائے گی۔
واضح رہے کہ زیر بحث سیمینار کے دو سیشن ہوئے، پہلے سیشن کی صدارت ادارۂ تعلیم وتحقیق کے سابق ڈائریکٹر اور پشاور ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر ارباب خان آفریدی نے کی، جبکہ پہلے سیشن کے مقررین میں افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر سید محمد ابرار حسین، طالبان کے سابق دورِ حکومت کے چیف جسٹس مولانا محمد سعید ہاشمی، ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ پشاور پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام، پاک افغان فورم کے چیئرمین حبیب اللہ خان خٹک، معروف صحافی اور افغان امور کے ماہر طاہر خان، پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر ضیا الحق سرحدی اورآئی آر ایس کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمان قریشی شامل تھے، جب کہ دوسرے سیشن کی صدارت ڈین آف سوشل سائنسز، چیئرمین شعبہ سیاسیات اور ڈائریکٹر چائنا اسٹڈی سینٹر جامعہ پشاور پروفیسر ڈاکٹر زاہد انور نے کی، اور اس سیشن سے بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط، افغان ہائی پیس کونسل کے سابق ترجمان اور سابق ممبر اولسی جرگہ مولانا محمد شہزادہ، سابق افغان حکومت کے ڈپٹی وزیر تعلیم ڈاکٹر عطاء اللہ واحد یار، معروف صحافی اور تجزیہ کار محمود جان بابر، اور آئی آر ایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل نے بھی خطاب کیا۔