قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد سے ملکی سیاست میں ایک بھونچال آیا ہوا ہے۔ مرکز کے بعد پنجاب اور اب بلوچستان اور سندھ میں بھی سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے اور نئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔ ہم نے اپنے سابقہ کالم میں لکھا تھا کہ اتنا بڑا سیاسی بھونچال بلاوجہ نہیں آگیا۔ اور یہ سوچنا کہ اسٹیبلشمنٹ اِس بار غیر جانب دار ہے، اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہوگی۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا مزاج یہ ہے ہی نہیں۔ ہوسکتا ہے ابھی وہ تماشا دیکھ رہی ہو، لیکن آخر کار اسے فیصلہ کن رول ادا کرنا ہے اور ہمارے سیاستدانوں نے اس سے یہ رول ادا کروانا ہے۔ اگر سردست وہ نیوٹرل ہے تو آخرکار وہ نیوٹرل کیوں ہوئی ہے؟ اور اس نے اُس حکومت کے سر پر سے ہاتھ کیوں اٹھا لیا ہے جسے وہ خود لے کر آئی تھی، اور اپوزیشن کو اس کی غیر جانب داری کا یقین کس نے دلایا ہے؟ آخر ہر روز اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دینے والی، اسے سیاسی بحرانوں کا ذمے دار قرار دینے والی، اور اس کے خلاف ایک بیانیہ لے کر چلنے والی اپوزیشن یا اس کی بعض جماعتوں نے یک طرفہ طور پر اس محاذ کو کیوں بند کردیا ہے؟ آخر کس نے وزیراعطم کے مشیر سردار یار محمد رند کو نہ صرف مستعفی ہونے بلکہ متحرک ہونے پر مجبور کیا ہے؟ کس نے ندیم افضل چن کو مشیر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر آصف علی زرداری کی گود میں جاگرنے کا مشورہ دیا؟ کس نے سوئے ہوئے علیم خان کو اچانک اتنا متحرک کردیا ہے؟ کس نے ساڑھے تین سال سے منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھی ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کی زبان میں باغیانہ رنگ گھول دیا ہے؟ کس نے ساڑھے تین سال کے اتحادیوں کو اچانک اپنے فیصلے خود کرنے پر اکسایا ہے؟ کس نے تحریک انصاف کے ناراض ارکان کو ڈی سیٹ ہونے تک کا خطرہ مول لینے پر آمادہ کیا ہے؟ کون ہے جو اتحادیوں کی آپس میں، اور اپوزیشن کی اتحادیوں کے ساتھ تیز رفتار ملاقاتوں کا اہتمام کررہا ہے؟ کون ہے جو شہبازشریف کو چودھری شجاعت اور زرداری کے گھر کے چکر لگوا رہا ہے؟ اور کون ہے جس نے عمران خان کی زبان میں زہر اور دھمکیاں بھر دی ہیں؟ یقینا اس سارے اسکریٹ کے پیچھے کوئی ہے۔ کون ہے جو عمران خان میں اس بحران کے باوجود اشتعال بھر رہا ہے؟ اس سارے کھیل کے اختتام پر یہ سب چیزیں واضح ہوجائیں گی کہ ایک بڑا مقصد حاصل کرنے کے بعد جن فریقین کے اپنے اپنے مقاصد پورے نہیں ہوئے ہوں گے وہ یہ سب راز اگل دیں گے۔
اس ساری صورت حال میں دو سوالات بہت اہمیت اختیار کرگئے ہیں، ایک یہ کہ اس ساری سیاسی مشق کا انجام کیا ہوگا، اور دوسرے اس سیاسی ریسلنگ کے دوران اخلاقیات کی جو تباہی ہوئی ہے اس کا کوئی تدارک ہے یا نہیں؟ پہلے سوال کا جواب تو بہت واضح ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام… بحران نہیں ٹلے گا بلکہ زیادہ شدید ہوجائے گا۔ اگر تحریک کامیاب ہوتی ہے تو عمران خان زیادہ بپھرے اور زخمی سیاست دان کے طور پر سامنے آئیں گے، اور بعض ایسے رازوں سے پردہ اٹھا دیں گے جنہیں نواز، شہباز، فضل الرحمن اور زرداری نے اپنی بردباری، مصلحت اور ضرورت کے تحت اب تک خفیہ رکھا ہوا ہے۔ تحریک انصاف اگر اپنی مدتِ حکومت پوری کرلیتی تو شاید عوام اسے اُس کی کارکردگی کی بنا پر مسترد کردیتے۔ اب وہ ماضی کے دیگر سیاست دانوں کی طرح مظلوم بن کر آئے گی اور ایک بار پھر کنٹینر سیاست شروع ہوجائے گی۔ عمران خان اور ان کے دیگر اتحادی یا نئی حکومت کے مخالفین پہلے دن سے اس حکومت کو کام نہیں کرنے دیں گے، اور خفیہ ہاتھ اس نئی اپوزیشن کو ہلاشیری دیتے رہیں گے۔ عمران خان کو گرانے والی سیاسی قوتیں مختصر مدت کی اس حکومت میں زیادہ سے زیادہ حصہ چاہیں گی، اور اگلے انتخابات میں کامیابی کی ضمانت بھی۔ یہ اپوزیشن اتحاد چند مہینے بھی چلتا نظر نہیں آتا۔ ایسی صورت حال میں حکومت کی ساری توجہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ پر ہوگی۔ ملکی مسائل خصوصاً مہنگائی، گورننس، خارجہ اور عدالتی امور بری طرح نظر انداز ہوں گے، یہ کمزور حکومت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے مکمل بے بس ہوگی یا اُس کے ساتھ حالتِ جنگ میں۔ دوسری جانب اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو عمران خان کا انتقامی رویہ انہیں دوسرا بھٹو بنا سکتا ہے۔ وہ اپوزیشن کے خلاف انتہائی اقدامات پر اتر آئیں گے اور اتحادیوں بلکہ بے وفائی کرنے والوں اپنے پارٹی ارکان کی زندگی اجیرن کردیں گے۔
اب آئیے اس سیاسی رسّا کشی میں سیاسی اخلاقیات پر۔ عمران خان جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ قابلِ شرم ہے۔ اگرچہ ہمارا ماضی ایسی زبان سے بھرا پڑا ہے، لیکن اِس بار تو حد ہوگئی ہے۔ دوسری جانب جواب دینے میں اپوزیشن نے بھی کسی اخلاقیات کا خیال نہیں رکھا۔ اگر عمران نے زرداری کو ٹکٹیں بلیک کرنے والا کہا، تو بلاول اور پیپلز پارٹی نے عمران کے والد کو کرپٹ اور کرپشن کے الزام میں ملازمت سے نکالا جانے والا شخص قرار دیا۔ اپوزیشن نے کس اخلاقیات اور قومی اسمبلی کے رولز کے تحت انصارالاسلام کے رضا کار پارلیمنٹ لاجز میں بھجوائے؟ اپنے ارکان کے تحفظ کے سلسلے میں انہوں نے نہ اسپیکر کو مطلع کیا اور نہ ہی وزارتِ داخلہ کو۔ دوسری جانب حکومت نے فیڈرل لاجز میں جس انداز میں آپریشن کیا اُس سے پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے۔ آپریشن کے لیے نہ تو اسپیکر سے اجازت لی گئی، نہ انہیں مطلع کیا گیا۔ عمران خان، خاص طور پر اُن کے وزرا عمومی طور پر جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ کم سے کم الفاظ میں بھی کچرا اور بازاری ہے۔ جبکہ اپوزیشن بھی اسی انداز میں اس کا جواب دے کر سیاسی اخلاقیات کو تباہ کررہی ہے۔ اگر ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے شہبازشریف 14 سال بعد چودھری شجاعت کے گھر پھول لے کر پہنچ گئے تو دوسری جانب عمران خان بھی چودھری شجاعت کے گھر اور ایم کیو ایم کے دفتر اپنے اقتدار کے پورے وقت میں پہلی بار پہنچے ہیں لیکن عمران خان کو دونوں سے عدم اعتماد پر بات کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ یہ اُن کی رعونت اور سیاسی نابالغیت ہے۔ فواد چودھری لاہور میں پرویزالٰہی سے ملے مگر عدم اعتماد پر کوئی بات نہیں کی۔ دوسری جانب ایم کیو ایم، قاف لیگ اور پرویزالٰہی بھی فوری طور پر پریس کو یہ بتانے آگئے کہ وزیراعظم نے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کی۔ اپوزیشن ہر روز اپنے نمبر پورے ہونے کا دعویٰ کررہی ہے مگر اب تک کسی ایک باغی رکن کا اشارہ بھی نہیں دے سکی ہے۔ ساڑھے تین سال تک عمران کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے والی اتحادی جماعتیں کسی اخلاقی جواز کے بغیر اب اپنی قیمت لگوانے کے لیے گررہی ہیں کہ وہ اس مسئلے پر آزادانہ فیصلہ کریں گی۔ بلوچستان کی باپ (بی اے پی) جو ہر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں حکومت کے ساتھ تھی اب اس کا بھی ایک دھڑا حکومت کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ اپوزیشن ’باپ‘ سمیت جن اتحادی جماعتوں سے بار بار ڈسی گئی ہے اب ان سے ہی محبت کی پینگیں بڑھا رہی ہے۔ اب تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد اپنے نمبر پورے کرنے کے لیے تحریک انصاف کے ارکان کو ٹکٹوں اور وزارتوں کے علاوہ نقد رقم کی بھی پیشکش کررہا ہے، جبکہ حکومت اتحادیوں اور منحرف ارکان کو منانے کے لیے تمام غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
جو ارکان ساڑھے تین سال تک حکومت کے ساتھ رہے اب اچانک کس اصول پر اپوزیشن کی طرف جارہے ہیں؟ اور اپوزیشن کس اخلاق کے تحت ان لوٹوں کو قبول کررہی ہے؟ اس صورت حال میں لگتایہی ہے کہ بحران بھی شدید ہوگا اور سیاسی اخلاقیات بھی مزید تباہ ہوجائے گی۔
حالیہ سیاسی جوڑ توڑ، زور آزمائی، سازشوں اور خلائی مخلوق کے دستِ شفقت کی دو طرفہ امید کے دوران نئی سیاسی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ وزیراعظم کے 27 مارچ کو ڈی چوک پر جلسہ کرنے کے اعلان کے بعد اپوزیشن پی ڈی ایم نے 23 مارچ کو ملک بھر سے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد آنے کی کال دے دی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے اس اعلان کے ساتھ خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ اور سردار ایاز صادق نے بھی اپنے کارکنوں کو عدم اعتماد والے دن ڈی چوک میں بلانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ صورتِ حال انارکی کی طرف جارہی ہے۔ ابھی تک صرف جی ڈی اے کی رہنما ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے وزیراعظم کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگارا نے بھی یہی ہدایت کی ہے۔ پنجاب میں پرویزالٰہی پر اپوزیشن کے مجوزہ اتحاد کے بعد ترین اور علیم گروپ کا اپوزیشن کے کیمپ میں جانے کا امکان کم ہورہا ہے، اگر عمران خان انہیں راضی کر گئے تو عمران خان کو ایک تو تقویت ملے گی اور پھر دوسرے اتحادی بھی اس پر سوچیں گے۔ بہرحال سردست صورت حال کشیدہ ہے اور اس صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ کی انٹری بھی بہت جلد متوقع ہے۔ ایسے میں عدم اعتماد کے بجائے کچھ اور سیٹلمنٹس ہونے کا قوی امکان ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے درست کہا ہے کہ تحریک اعتماد کے بعد نون لیگ یا پیپلزپارٹی کے آجانے سے کون سی تبدیلی آجائے گی! اس صورت حال میں پیپلزپارٹی فائدے میں نظر آرہی ہے۔