روس،یوکرین جنگ میں برطانوی فوجیوں کی شرکت

یوکرین اور روس کی جنگ اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتی نظر آتی ہے۔ مغربی میڈیا اس جنگ کو انسانی حقوق کی سنگین پامالی کے تناظر میں دکھا رہا ہے۔ جنگ بہرحال تباہی و بربادی ہی لاتی ہے، لیکن اس جنگ میں سب سے بڑا مسئلہ انسانی زندگی سے زیادہ یورپین افراد کی انسانی زندگی کا نظر آتا ہے۔ پورا برطانوی میڈیا اسی رنگ میں رنگا نظر آرہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر پورے میڈیا میں کوریج بھی یکساں ہے، اور یہ یکسانیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر آپ اخبار کا نام نہ پڑھیں تو آپ کو سب خبریں یا کم از کم سرورق ایک ہی اخبار کا نظر آئے گا۔ یوکرین میں ایک میٹرنٹی ہوم پر روسی افواج کے مبینہ حملے کے بعد کی تصاویر میں سے ایک تصویر جس میں خاتون کو اسٹریچر پر کسی اور جگہ منتقل کیا جارہا ہے اور پس منظر میں تباہ شدہ عمارت نظر آرہی ہے، 10 مارچ 2022ء کے تمام اخبارات کے سرورق پر شائع ہوئی، حتیٰ کہ بی بی سی ویب سائٹ نے بھی اس کو اپنی کور اسٹوری بنایا۔ اسی طرح خبروں میں تنوع کے بجائے ایک مماثلت نظر آتی ہے اور کسی اور زاویے سے خبر نگاری پر یا تو کام نہیں کیا جارہا، یا پھر کرنے نہیں دیا جارہا۔ میڈیا میں تنوع کے بجائے یکسانیت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔
تادم تحریر جنگ کو شروع ہوئے 19 دن گزر چکے ہیں اور اب تک آزاد ذرائع کے مطابق جنگ میں 636 شہری بشمول 90 بچے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ادھر نیٹو کی جانب سے کسی بھی قسم کی فوجی امداد تاحال نہیں دی گئی، جو کچھ بھی اسلحہ و گولہ بارود دینے کا وعدہ کیا گیا ہے وہ یورپی ممالک کی جانب سے انفرادی طور پر کیا گیا ہے۔ جنگ کے نتیجے میں تقریباً تیس لاکھ افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ افراد نے پولینڈ میں پناہ حاصل کی ہے، جبکہ دیگر یورپین اقوام کا پناہ گزینوں کو قبول کرنے کا معاملہ سردمہری کا سا ہے۔ برطانیہ نے سخت شرط عائد کی ہے کہ مہاجرین کو پہلے ویزا حاصل کرنا ہوگا اور اس میں پہلی ترجیح وہ لوگ ہوں گے جن کے خاندان کے افراد برطانیہ میں مقیم ہیں۔ اس فیصلے کی توجیہہ کرتے ہوئے برطانوی حکومت نے بتایا کہ اس کا مقصد ہجرت کی آڑ میں روس کے ایجنٹوں کا داخلہ برطانیہ میں روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔ تاہم اس فیصلے پر بہت تنقید کی جارہی ہے۔ اب تک 21 یوکرینی بچے برطانیہ پہنچ پائے ہیں جن کو خصوصی طیارے کے ذریعے برطانیہ لایا گیا، یہ تمام بچے کینسر کے مریض ہیں اور ان کا علاج برطانوی حکومت نے اپنے ذمے لیا ہے۔ 30 لاکھ افراد کے مقابلے میں 21 بچوں کو برطانیہ لانے کو عالمی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے، تاکہ مہاجرین کے حوالے سے تنقید کا جواب دیا جاسکے۔ تاہم اب دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مزید 43000 افراد کو برطانیہ بطور مہاجر قبول کرے گا۔ اس ضمن میں بڑے برطانوی کاروباری گروپس نے جن میں مارکس اینڈ اسپینسر بھی شامل ہے، ان کی ہر ممکن مالی امداد کا یقین دلایا ہے۔
13 مارچ 2022ء کو روس نے پولینڈ کی سرحد سے متصل نیٹو افواج کے ایک ٹریننگ کیمپ پر میزائل حملہ کیا ہے جس میں 35 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ یہ ٹریننگ کیمپ گزشتہ سال ستمبر تک نیٹو کی فوجی مشقوں کا مرکز تھا جہاں پر امریکہ اور برطانیہ کے فوجی بھی ان مشقوں میں حصہ لیتے رہے۔ نیٹو کے مطابق فروری 2022ء میں اس کیمپ کو مکمل طور پر خالی کردیا گیا تھا اور اب یہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ تاہم روس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مرکز دراصل یوکرین کو نیٹو افواج کی جانب سے جنگی امداد، اسلحہ بارود اور نیٹو ممالک سے یوکرین لڑائی کے لیے آنے والوں کا بیس کیمپ تھا۔ واضح رہے کہ یہ کیمپ پولینڈ کی سرحد سے محض 7.5 میل کی دوری پر واقع ہے۔ اس حملے کو برطانوی میڈیا نیٹو ممالک پر حملہ یا ان کو وارننگ قرار دے رہا ہے۔ 15 مارچ 2022ء کے ڈیلی مرر اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے میں تین برطانوی مارے گئے ہیں جبکہ مجموعی طور پر مرنے والوں کی تعداد 100 سے زائد ہے۔ برطانوی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ برطانیہ کی جانب سے سابق فوجیوں کو یوکرین لڑائی کے لیے بھیجا جارہا ہے، برطانوی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ خدشہ ہے کہ چند فوجی بغیر اطلاع کے لڑنے کے لیے یوکرین گئے ہیں جن کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے گی۔ دوسری جانب برطانوی افواج نے بھی اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شاید چند غیر حاضر فوجی روس اور یوکرین کی جنگ میں شرکت کے لیے ذاتی طور پر یوکرین گئے ہیں۔ 15 مارچ 2022ء کے برطانوی اخبار ڈیلی میل میں ایک مفصل خبر مع تصویر شائع ہوئی ہے جس میں رپورٹر این بائی ریل نے پولینڈ کی سرحد پر واقع ٹریننگ کیمپ کا دورہ کیا، اس کیمپ کو برطانوی سابق فوجی منظم کررہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کیمپ میں شرکت کے لیے 600 سے زائد درخواستیں موصول ہوچکی ہیں جو کہ سب کی سب سابق فوجیوں کی جانب سے ہیں۔ اس کیمپ کا مقصد ایک دو ہفتے کی ٹریننگ کے بعد افراد کو محاذِ جنگ پر بھیجنا ہے، اور صرف سابق فوجیوں کو ہی باقاعدہ طور پر ایک مختصر تربیت کے بعد محاذِ جنگ پر بھیجا جارہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کیمپ میں شرکت کرنے والوں کی عمر 30 تا 60 سال ہے، اور یہ تمام افراد رضاکارانہ طور پر جنگ میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ٹریننگ کیمپ کے منتظمین نے دعویٰ کیا ہے کہ تقریباً سو سابق برطانوی فوجی اس وقت محاذِ جنگ کی صفِ اوّل میں موجود ہیں اور بڑی بہادری سے لڑرہے ہیں۔ ادھر سفارتی طور پر یوکرین کے صدر ولادیمیر زولینسکی اور برطانوی وزیراعظم نے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کیا اور برطانیہ نے یوکرین کی ہر ممکن امداد کا یقین دلایا اور روسی جارحیت کی مذمت کی۔ یوکرین کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دو شہروں کے میئرزکو جن پر اب روس کا قبضہ ہوچکا ہے، کے دو میئرز کو روسی افواج نے گرفتار کرلیا ہے۔
روس اور یوکرین کی جنگ کے حوالے سے دنیا دو حصوں میں واضح طور پر تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک طرف روس، بیلا روس ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں، تو دوسری جانب نیٹو کہ جس میں شمولیت کی وجہ سے یوکرین اس تباہی کا شکار ہوا، وہ محض زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ یہ تقسیم اقوام متحدہ میں بھی واضح ہوئی جب 35 ممالک نے کھل کر اس جنگ کی مذمت نہیں کی۔ اگر اس حوالے سے دیکھا جائے تو روس، چین، بھارت، پاکستان، متحدہ عرب امارات، سری لنکا، اور ساتھ ہی ترکی اور اسرائیل نظر آتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اسرائیلی حکومت نے اب تک واضح طور پر روس کی مذمت اور یوکرین کا ساتھ دینے کا کوئی واضح اعلان نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب یہی صورت حال پاکستان اور متحدہ عرب امارات کی بھی ہے۔
جنگ کس جانب جارہی ہے اس سلسلے میں اِس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن بہرحال روس نے اس خطے میں اس جنگ سے اپنی دھاک ضرور بٹھا دی ہے جس کی وجہ سے اب مزید ممالک کسی ایک فریق کا واضح طور پر ساتھ دینے سے گریز کریں گے۔