خدا مغفرت کرے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں… اگلے وقتوں کی شرافت کی نشانی سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ 7 مارچ 2022ء پیر کے روز 92 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ بہت عرصے سے ذیابیطس، پھیپھڑوں اور سانس کے امراض میں مبتلا تھے۔ لاہور میں ان کی نمازِ جنازہ معروف دینی درس گاہ جامعہ اشرفیہ میں مدرسے کے مہتمم ممتاز عالم دین مولانا فضل الرحیم نے پڑھائی، جس کے بعد ان کی میت منڈی بہاء الدین میں ان کے آبائی گائوں ’پیر کوٹ‘ لے جائی گئی، جہاں دوبارہ نمازِ جنازہ کی ادائیگی کی گئی اور ان کا جسدِ خاکی مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ محمد رفیق تارڑ اسی گائوں کے ایک زمیندار چودھری سردار خان تارڑ کے گھر 2 نومبر 1929ء کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد قانون کی تعلیم کے لیے پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں داخلہ لیا، جہاں سے 1954ء میں ڈگری کے حصول کے بعد عدالتِ عالیہ لاہور میں 1955ء میں بطور وکیل پریکٹس کا آغاز کیا۔ 1966ء میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مقرر ہوئے۔ 1971ء میں لیبر کورٹ لاہور کے سربراہ بنائے گئے۔ 1974ء میں انہیں عدالتِ عالیہ لاہور کے جج کے طور پر منتخب کیا گیا۔ 1980ء میں پاکستان الیکشن کمیشن کے رکن بنے۔ 1989ء میں عدالتِ عالیہ لاہور میں منصفِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ پھر 1991ء کے آغاز میں 17 جنوری کو انہیں عدالتِ عظمیٰ کا جج بنایاگیا۔ اس منصب پر انہوں نے یکم نومبر 1994ء تک خدمات انجام دیں۔ عدالتِ عظمیٰ سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کے قانونی مشیر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ نواز لیگ کے ٹکٹ پر مجلس شوریٰ کے ایوانِ بالا کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ انہی ایام میں جب نوازشریف کے اعلیٰ عدلیہ سے اختلافات ہوئے تو ان پر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ 1998ء میں نواز حکومت سے شدید اختلافات کے بعد صدر فاروق لغاری استعفیٰ پر مجبور ہوئے تو میاں نوازشریف کی جانب سے محمد رفیق تارڑ کو صدرِ مملکت منتخب کرایا گیا، اور وہ پاکستان کے نویں صدرِ مملکت کی حیثیت سے ایواِن صدر میں داخل ہوئے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جب میاں نوازشریف کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں جنرل پرویزمشرف نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی تو صدر محمد رفیق تارڑ کو بطور صدر اپنے آئینی فرائض کی ادائیگی جاری رکھنے کے لیے کہا گیا، تاہم 20 جون 2001ء کو جنرل پرویزمشرف نے انہیں صدارت سے سبکدوش کرکے یہ منصب بھی خود سنبھال لیا تو وہ خاموشی سے ایوانِ صدر خالی کرکے لاہور منتقل ہوگئے۔
لاہور منتقل ہونے کے بعد کچھ عرصے تک وہ خاموشی سے گوشہ نشین کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے رہے، تاہم ایوانِ صدر میں رہتے ہوئے اور اس کے بعد بھی انہوں نے شریف خاندان سے اپنی وابستگی برقرار رکھی، اور شریف خاندان کی جانب سے ’’مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں‘‘ والا سرد مہری کا رویہ اختیار کیے جانے کے باوجود انہوں نے وفاداری بشرط استواری کی اعلیٰ مثال قائم کی، اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائے۔ وہ اسلام اور پاکستان کے سچے سپاہی تھے، اسی حیثیت سے وہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ میں بھی خاصا متحرک اور فعال کردار ادا کرتے رہے جس کے پیش نظر ٹرسٹ کے چیئرمین مجید نظامی کی وفات کے بعد ٹرسٹ کے ارکان نے انہیں چیئرمین منتخب کرلیا۔ ناسازیِ طبع کے باوجود یہ ذمہ داری پوری سنجیدگی سے ادا کرتے رہے اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی سرگرمیوں کو وسعت دی تاکہ نئی نسل کو قیامِ پاکستان کے مقاصد سے روشناس کرایا جا سکے۔
راقم الحروف کو مرحوم سے دوبار ملاقات کا موقع ملا۔ پہلی بار اُس وقت جب انجمنِ صحافیان پاکستان (دستور) کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہورہا تھا اور انہوں نے صدرِ مملکت کی حیثیت سے اجلاس کے شرکاء کو ایوانِ صدر میں چائے پر مدعو کیا تھا۔ یہ ایک روایتی ملاقات تھی، تاہم ان کی شخصیت کے حوالے سے شرافت اور سنجیدگی کا نقش ذہن پر مرتب ہوا۔ دوسری ملاقات ذرا مختلف نوعیت کی تھی، وہ سابق صدر کی حیثیت سے جی او آر لاہور میں سرکاری رہائش گاہ میں مقیم تھے، ممتاز اور متحرک بزرگ صحافی سید سعود ساحر مرحوم لاہور آئے ہوئے تھے، ان کے ہمراہ لاہور پریس کلب میں چائے کا دور چل رہا تھا کہ دورانِ گفتگو انہوں نے رفیق تارڑ مرحوم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ محترم اسرار بخاری بھی موجود تھے، ان کے پاس تارڑ صاحب کی رہائش گاہ کا فون نمبر بھی تھا، چنانچہ رابطہ کرکے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے گھر سے باہر آکر ہمارا استقبال کیا اور گھر کے اندر لے گئے، جہاں پُرتکلف چائے سے تواضع بھی کی اور کھل کر گفتگو بھی ہوئی۔ وہ اُس وقت بھی بیمار تھے اور شکوہ کناں تھے کہ ان کی تمام تر وفاداری اور خدمات کے باوجود شریف برادران میں سے کسی نے کبھی ان سے رابطہ تک نہیں کیا۔ اُس وقت بڑے بھائی تیسری بار ملک کے وزیراعظم اور چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ سابق صدر محمد رفیق تارڑ اپنے بہت سے مسائل کا ذکر کررہے تھے اور اس ضمن میں حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کے تعاون یا امداد نہ ملنے کی شکایات بھی۔ تاہم وہ بار بار مجھ سے مخاطب ہوتے اور تاکید کرتے کہ ان کی گفتگو کو کسی خبر کا موضوع نہ بنایا جائے کیونکہ یہ خالصتاً نجی گفتگو ہے۔ میں بار بار انہیں یقین دلا رہا تھا کہ خبر نہیں دوں گا، مگر نہ جانے کیوں انہیں شاید یقین آ نہیں رہا تھا، انہوں نے محبت سے رخصت کرتے وقت پھر سے یہ یاد دلانا ضروری سمجھا کہ آپ کو میری باتوں کی خبر نہیں دینی۔ اور بہت سی ’’خبریں‘‘ ہونے کے باوجود میں نے کوئی خبر نہیں دی۔ وعدہ بھی آخر کوئی چیز ہے۔ ان کی وفات پر یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ شریف خاندان کا کوئی فرد اپنے محسن کے جنازے میں شریک نہیں ہوا اور صرف روایتی تعزیتی بیان جاری کرنا ہی کافی سمجھا گیا۔ اب جب کہ وہ اپنے نامۂ اعمال کے ہمراہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوچکے ہیں تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ آمین