افغانستان ملاعمر سے اشرف غنی تک

کتاب
:
افغانستان ملاعمر سے اشرف غنی تک
(ایک سفارت کار کے تجربات و مشاہدات)
مصنف
:
سید ابرار حسین
صفحات
:
282 قیمت:900 روپے
ناشر
:
آئی پی ایس پریس، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، نصر چیمبرز، پلاٹ1، ایم پی سی ایچ ایس کمرشل سینٹر، ای الیون تھری، اسلام آباد
فون
:
0518438388
فیکس
:
0518438390
ای میل
:
publications@ips.net.pk
ویب
سائٹ
:
www.ipsurdu.com،
www.ips.org.pk
فیس بک
:
fb/instituteOfPolicyStudiesPakistan

سید ابرار حسین پاکستان کے افغانستان میں سفیر رہے ہیں، انہوں نے اپنے اس دور کی یادداشتیں بڑی عمدگی سے تحریر کی ہیں، یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔
سید ابرار حسین 1958ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انگریزی زبان و ادب میں ایم اے کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی اور 35 سال پاکستان کی وزارتِ خارجہ میں خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران وہ نیپال، کویت اور افغانستان میں سفیر بھی رہے۔ دو سال پہلے وفاقی سیکریٹری (اسپیشل سیکریٹری، وزارتِ خارجہ) کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
ابرار حسین اپنی تمام سرکاری مصروفیات کے باوجود اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار سے کبھی غافل نہیں رہے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’’تم جلائو تو دیا‘‘ کے نام سے 2013ء میں شائع ہوا جسے اباسین آرٹس کونسل کی طرف سے عبدالرب نشتر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ عروض کو عام فہم اور آسان بنانے کے لیے انہوں نے ’’اردو بحریں‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں جبکہ تیسرا ایڈیشن زیر طبع ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین بھی مختلف ادبی مجلّوں میں چھپتے رہے ہیں۔
افغانستان میں ان کا قیام دو مختلف ادوار میں رہا۔ طالبان کے زمانے میں وہ قندھار میں قونصل جنرل رہے، اور پھر تیرہ سال بعد وہ سفیر کی حیثیت سے کابل گئے۔ اپنے قیامِ افغانستان کے دوران انہوں نے تاریخ کو بنتے اور بگڑتے دیکھا اور بہت سے اہم واقعات کا قریبی مشاہدہ کیا۔ یہ کتاب انہی تجربات و مشاہدات کا مجموعہ ہے۔ اس میں آپ کو ملا عمر کے زمانے کے واقعات بھی ملیں گے اور اشرف غنی کے دور کی باتیں بھی، پاک افغان تعلقات کی تاریخ بھی اور افغانستان میں امن عمل کی تفصیلات بھی۔ اس کتاب کی منفرد بات یہ ہے کہ اس میں زیادہ تر چشم دید واقعات بیان کیے گئے ہیں۔
سید ابرار حسین تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ کتاب قیام افغانستان کے دوران میرے تجربات و مشاہدات کا حاصل ہے، اس میں وہ واقعات پیش کیے گئے ہیں جن کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ البتہ کہیں کہیں ایسے واقعات پس منظر کی تفصیل کے متقاضی تھے تو اس سے گریز کو مناسب نہ جانا اور اندیشۂ عجم کی روایت کو نبھاتے ہوئے زیبِ داستاں کے لیے اس کا بھی اضافہ کردیا۔
یوں تو میں نے سفارت کاری کی دنیا میں تقریباً 35 سال گزارے، مگر اس میں سے افغانستان میں قیام کا عرصہ مجھے سب سے اہم لگتا ہے۔ یہ عرصہ پانچ سال پر محیط ہے جس میں سے دو سال طالبان کے دور کے قندھار میں، اور تین سال موجودہ کابل میں گزرے۔
اپنی یادداشتوں کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے ہوئے میری کوشش یہ تھی کہ اہم نوعیت کے تمام واقعات کا احاطہ ایسے کیا جائے کہ ایک عام قاری کے لیے بھی یہ کتاب دلچسپی کا باعث ہو اور تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے طلبہ کے لیے بھی یہ ایک مستند حوالہ ثابت ہو۔ میں اپنی اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
جناب خالد رحمٰن، ایگزیکٹو پریذیڈنٹ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد رقم طراز ہیں:
’’انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا قیام مئی 1979ء میں ہوا۔ اُن دنوں افغانستان کی صورتِ حال میں غیر معمولی تبدیلیوں کے آثار نظر آرہے تھے، یہاں تک کہ دسمبر 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کردیں۔
پالیسی اسٹڈیز کی دنیا میں سرگرم کسی بھی ادارے کے لیے عالمی سیاست، خطے کے حالات اور افغانستان اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں افغانستان میں ہونے والی اس غیر معمولی پیش رفت کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ چنانچہ یہ بالکل فطری بات تھی کہ افغانستان کے حالات اور وہاں آنے والی تبدیلیوں کے محرکات و اثرات روزِ اوّل سے انسٹی ٹیوٹ کی دلچسپی کے مرکزی عنوانات میں شامل رہے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کی اب تک شائع کردہ چار سو سے زائد کتب میں سے باقاعدہ شائع ہونے والی اوّلین کتاب Red Clould Over Afghanistan تھی جو 1980ء میں اسلام آباد میں ہونے والی OIC کی کانفرنس کے موقع پر شائع کی گئی۔ اُس وقت سے اب تک افغانستان کی صورتِ حال میں ہی نہیں بلکہ وہاں ہونے والی اس پیش رفت کے نتائج کی بنا پر عالمی حالات اور خطے کی صورتِ حال میں بھی بہت سے موڑ آتے رہے ہیں۔ فطری طور پر ہر ہر مرحلے میں آئی پی ایس نے ایک علمی و تحقیقی ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے تیار کی جانے والی رپورٹوں، مطبوعات اور منعقد ہونے والی دیگر مختلف سرگرمیوں کی تعداد بلامبالغہ سیکڑوں تک پہنچتی ہے۔
آئی پی ایس پریس کے تحت شائع ہونے والی زیر نظر کتاب ’’افغانستان: ملا عمر سے اشرف غنی تک‘‘ افغانستان کے بارے میں ایک منفرد پیشکش ہے۔ یہ ایک ایسے پاکستانی سفارت کار کے مشاہدات پر مبنی ہے جو بہت سے اہم واقعات کا شاہد ہی نہیں بلکہ حصہ رہا ہے۔ سفارت کاری کی دنیا میں لوگوں کے ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہی جناب ابرار حسین کے ساتھ بھی ہوتا رہا۔ لیکن ایک سے زائد بار افغانستان میں تعینات رہنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی وزارتِ خارجہ میں بھی وہ افغانستان امور سے متعلق رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی عالمی سیاست اور خطے کے معاملات میں افغانستان کی مرکزی اور کثیرالجہت اہمیت کی بنا پر وہ جہاں جہاں بھی رہے یہ موضوع اُن کے ساتھ فطری طور پر جڑا رہا ہے۔
سفارت کاری کی دنیا اس اعتبار سے امتحان ہوتی ہے کہ سفارت کار کو بہت کچھ جانتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرنا ہوتی ہے۔ یہاں بولنا بس وہی کچھ اور اتنا ہی کچھ ہوتا ہے جو کسی بھی خاص وقت میں اختیار کی گئی ملکی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہو۔ دہائیوں تک اس ماحول میں رہتے ہوئے یہی طرزعمل سفارت کاروں کی شخصیت کا حصہ بھی بن جاتا ہے۔ ایسے میں سفارتی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد نیا امتحان شروع ہوتا ہے کہ قومی اہمیت کے ایسے معاملات جو تاریخی نوعیت کے ہیں اور دوسری جانب ملکوں کے تعلقات اور بین الاقوامی سفارت کاری کی تہہ در تہہ پرتوں کو سمجھنے میں معاون ہوسکتے ہیں انہیں قومی مفاد میں مستقبل کی نسلوں تک پہنچانے کا کیسے اہتمام کیا جائے۔ لاجسٹک کے بہت سے مسائل کے علاوہ افغانستان کے موضوع پر بات ہو تو یہ امتحان اس اعتبار سے اور بھی زیادہ حساس ہوجاتا ہے کہ چار دہائیاں گزر جانے کے باوجود یہاں ابھی تک ٹھیرائو نہیں ہوا ہے۔ بہت سے متنوع اور باہم متصادم کردار جو عشروں سے سرگرم ہیں اب بھی متحرک ہیں اور بالآخر ’’اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘‘ اس بارے میں تعین کے ساتھ کچھ کہنا کسی کے لیے بھی ایک مشکل سوال ہے۔
اس مجموعی تناظر اور پس منظر کو سمجھنے کے لیے متعلقہ افراد کے مشاہدات و تجربات کو جاننے کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ’’افغانستان: ملا عمر سے اشرف غنی تک‘‘ اسی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ایمبیسیڈر ابرار حسین صاحب کے لیے یہ کوئی پہلی تصنیف نہیں، اُن کے علمی و ادبی ذوق کی علامت شاعری کے دو مجموعوں کی صورت میں موجود ہے۔ اب انہوں نے ایک نئے میدان میں قدم رکھ لیا ہے۔ آئی پی ایس کی دعوت پر یہ کتاب تحریر کرکے انہوں نے اپنے طویل کیریئر سے یادداشتوں کا ایک حصہ شیئر کرلیا ہے۔ ابھی ان کے پاس اور بہت کچھ موجود ہے، توقع ہے کہ وہ قومی مفاد میں اپنی اور بھی یادداشتیں قلمبند کریں گے۔ سفارت کاری کی دنیا میں کام کرتے ہوئے بہت سے لوگوں کے لیے اردو میں اظہارِ خیال مشکل ہوجاتا ہے، تاہم ابرار حسین صاحب نے اپنی اس استعداد کو کمال کی حد تک سنبھالے رکھا ہے۔ چنانچہ موضوع اور متن میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کے لیے صاف، سلیس اور رواں اردو زبان مزے کو دوبالا کردیتی ہے۔ درحقیقت یہ اس اعتراض کا بھی ایک عملی جواب ہے کہ دورِ جدید میں قومی زبان میں بین الاقوامی سیاست و تعلقات جیسے موضوعات پر علمی و تحقیقی کام کرنا مشکل ہے۔
امید ہے آئی پی ایس پریس کی جانب سے شائع کردہ یہ کتاب بین الاقوامی اور علاقائی سیاست و تعلقات اور بالخصوص افغانستان کے موضوع پر دلچسپی رکھنے والے افراد کو پس منظر و پیش منظر سمجھنے میں مدد دے گی۔‘‘
کتاب 35 ابواب پر مشتمل ہے، آخر میں اشاریہ بھی لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد ضمیمے انگریزی میں لگائے گئے ہیں۔
باب1-: ماضی کا دریچہ، باب2: قندھار، باب3: صلح کی کوششیں، باب4: بھارتی طیارے کا اغوا، باب 5: بامیان کے مجسمے، باب6: کچھ دلچسپ واقعات، باب 7: محمود غزنوی کا مقبرہ، باب 8: کابل میں آمد، باب9: افغان صدارتی انتخابات 2014ء، باب 10: افغان صدارتی انتخابات، دوسرا رائونڈ، باب 11: امریکی افواج میں کمی، باب 12: نئی کابینہ کی تقرری، باب 13: پاک افغان تعلقات کی تاریخ، باب 14: پاک افغان سیاسی روابط، باب 15:مصالحت کے مواقع، باب 16: حکمت یار سے معاہدہ، باب 17: جمالِ ہم نشیں درمن اثر کرد (ہم نشیں کے جمال نے مجھ پر اثر کیا)، باب 18: پاک افغان اقتصادی روابط، باب19: پاکستان کی طرف سے اقتصادی امداد، باب 20: پاک افغان ثقافتی تعلقات، باب 21: افغان مہاجرین، باب 22: افغان بھارت تعلقات، باب 23: اگر قحط الرجال افتد (اگر قحط الرجال پڑ جائے)، باب 24: کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے، باب 25: آرمی پبلک اسکول پر حملہ، باب 26: بلخ کا دورہ، باب 27: خراسان کا ہیرا، باب 28: جلال آباد قونصل خانہ حملے کی زد میں، باب 29: افغان رہنمائوں سے ملاقاتیں، باب 30: کچھ سفارت کار احباب کے بارے میں، باب 31: پاکستانی سفارت: ایک تاریخ، باب 32: پس چہ باید کرد (پس کیا کرنا چاہیے)، باب 33: افغان امن عمل، باب 34: دوحہ معاہدہ اور باب 35: موجودہ صورت حال سابق سیکریٹری خارجہ جناب سلمان بشیر اور جنگ/دی نیوز کے صحافی و کالم نگار مرتضیٰ شبلی کی کتاب کے متعلق آرا درج ذیل ہیں:
’’سابق سفیر سید ابرار حسین کی یہ عمدہ خودنوشت ان کے افغانستان کے دورِ سفارت کاری کی یادداشتوں اور تاثرات پر مبنی ہے۔ یہ اُن شخصیات اور واقعات کی روداد ہے جنہوں نے حالیہ افغان تاریخ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ابرار حسین نے اپنے تجربات اور گفت و شنید کو کسی کمی بیشی یا لگی لپٹی کے بغیر اس کتاب میں دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے دور میں پیش آنے والے حالات کا معروضی انداز میں احاطہ کرتے ہوئے تجزیے کی ذمہ داری قاری پر چھوڑ دی ہے۔ گزشتہ چار عشروں کے دوران افغانستان دنیا کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور یہ سرزمین بڑی طاقتوں کو اپنی طرف کھینچتی رہی ہے، اگرچہ ان بڑے ملکوں کو یہاں کے بہادر عوام سے قوت آزمائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ یہ یادداشتیں ہمیں ان معاملات کے مختلف پہلوئوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں‘‘۔ (سلمان بشیر، سابق سیکریٹری خارجہ)
’’افغانستان اور پاکستان جغرافیائی، مذہبی، سماجی، معاشرتی اور تجارتی لحاظ سے جڑے رہنے کے باوجود تاحال سیاسی مخاصمت کا شکار ہوکر اپنے تاریخی رشتوں سے کماحقہٗ فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔ اگر یہ تعلقات استوار ہوں تو خطے میں رہنے والے کروڑوں لوگوں کے معیارِ زندگی میں انقلاب لاسکتے ہیں۔ سید ابرار حسین بہت مشکل اور تاریخ ساز ادوار میں قندھار اور کابل میں پاکستان کے لیے سفارت کاری انجام دیتے رہے۔ اگرچہ آپ نے حالات و واقعات کو بیان کرنے میں حد درجہ اختصار سے کام لیا ہے، مگر ان کی واقعاتی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کتاب کے آخر میں ابرار صاحب نے پاک افغان تعلقات کی بہتری کے لیے ایک قابلِ قبول لائحہ عمل تجویز کیا ہے جس پر دونوں ممالک کے پالیسی ساز حلقوں میں صدق دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف دوطرفہ تعلقات بلکہ پورے خطے میں دائمی امن کے لیے مثبت پیش رفت کے لیے سودمند ثابت ہوسکتے ہیں‘‘۔ (مرتضیٰ شبلی سینئر صحافی، کالم نویس (جنگ/دی نیوز)
کتاب بہت عمدہ اور معلومات افزا ہے، جس کو آئی پی ایس پریس نے اپنے روایتی خوب صورت اسلوب میں طبع کیا ہے۔ کتاب مجلد ہے اور حسین رنگین سرورق سے مزین ہے۔
nn