ساتواں باب(2)
یہاں ایک اور مشکل درپیش ہے۔ ہمیں صرف 8.2بلین کاربن ہی ٹرانسپورٹیشن نظام سے ختم نہیںکرنی، بلکہ اس سے بھی آگے جاکرکوششیں کرنی ہیں۔ The Organization for Economic Cooperation and Development نے پیشگوئی کی ہے کہ 2050ء تک ٹرانسپورٹیشن کی طلب بڑھتی چلی جائے گی، جسے پورا کرنا ہوگا۔ باوجود اس کے کہ کووڈ وبا کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن کی شرح میں قدرے کمی آئی، اس کی ضرورتیں پوری کرنی ہوں گی۔ صرف فضائی سفر، بحری تجارت، ٹرکوں کی آمدورفت میں فرق پڑا ہے۔ جبکہ مسافر گاڑیاں رواں دواں ہیں، جو اس شعبے میں کاربن اخراج کی بہت بڑی وجہ ہیں۔
سمندری تجارت حجم کے اعتبار سے دنیا بھر کی مصنوعات کا نواں دسواں حصہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہے، یہ عالمی کاربن اخراج کا تین فیصد حصہ بنتا ہے۔ امیر ملکوں سے ٹرانسپورٹ کا خاصا کاربن اخراج ہوتا ہے، مگر ان ملکوں نے ایک دہائی سے اس میں کسی قدر کمی کی ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ ٹرانسپورٹیشن کاربن ترقی پذیر ملکوں سے فضا میں شامل ہورہی ہے۔ جیسے جیسے ترقی پذیر ملکوں کی آبادی بڑھ رہی ہے، امراء میں اضافہ ہورہا ہے، اور زیادہ سے زیادہ گاڑیاں خریدی جارہی ہیں۔ چین اس کی بڑی مثال ہے، یہاں ایک دہائی کے دوران کاربن اخراج کی شرح دگنی ہوئی ہے۔
کووڈ 19 کا پھیلاؤ تھم گیا ہے مگر رکا نہیں۔ اسی طرح کاربن اخراج تھما ہے مگر رکا نہیں۔ گوکہ کئی جگہوں پر کاربن اخراج کم ہوجائے گا، مگر یہ کم آمدنی والے ملکوں میں بڑھتا جائے گا۔ اس طرح مجموعی طور پر اخراج کی شرح بڑھے گی۔
ہمیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ مصنوعات اور لوگ نقل وحرکت میں ہیں۔ دیہاتوں سے شہروں کی جانب سفر کی اہلیت فرد کی آزادی کا مظہر ہے، تاہم غریب ملکوں میں منڈیوں تک اپنی اجناس کی آسان منتقلی کسانوں کے لیے بقا کے مترادف ہے۔ بین الاقوامی پروازیں دنیا سے اس طرح ربط قائم رکھتی ہیں کہ جس کا تصور سو سال پہلے ممکن نہ تھا۔ دیگر ملکوں کے لوگوں سے ملاقاتوں نے ہمیں مشترکہ مفادات اور اہداف سمجھنے میں بڑی مدد دی ہے۔
جدید ٹرانسپورٹیشن سے پہلے ہماری خوراک کے آپشن بڑے محدود تھے۔ ذاتی طور پر مجھے انگور بڑے پسند ہیں، مگر سارا سال اس سہولت سے بار بردار سمندری جہازوں کے تعاون سے ہی لطف اندوز ہوسکا ہوں۔ جنوبی امریکہ سے آنے والے یہ پھل قدرتی ایندھن جلا کر ہی شمالی امریکہ تک پہنچ پاتے ہیں۔
کاربن اڑائے بغیر، کس طرح ہم ان ساری سہولیات سے مستفید ہوسکتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس وہ ٹیکنالوجی ہے کہ جس کی اس وقت ضرورت ہے؟ یا پھر کچھ جدتیں ناگزیر ہیں؟
ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ہمیں ذرائع نقل و حمل کے گرین پریمیم کا رخ کرنا ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ کن ذرائع سے کتنی کاربن خارج ہورہی ہے۔
مسافر گاڑیاں جیسے کاریں ، موٹرسائیکلیں، بسیں وغیرہ تقریباً نصف کاربن خارج کرتی ہیں۔ میڈیم اور ہیوی ڈیوٹی گاڑیاں، کچرا اٹھانے والے ٹرکوں سمیت اٹھارہ پہیوں والی گاڑیاں تیس فیصد کاربن فضا میں چھوڑتی ہیں۔ ہوائی جہاز دس فیصد کاربن اخراج کا سبب ہیں۔ جبکہ باربردار سمندری جہاز اور ریلیں باقی کی کاربن ہوا میں چھوڑتے ہیں۔ سب کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے سب سے بڑے شراکت دارکی بات کرتے ہیں: مسافر گاڑیاں۔ اس وقت وہ کون سے طریقے ہوسکتے ہیں جو مسافر گاڑیوں کے کاربن میں کمی لاسکتے ہیں، یا ان کا مکمل خاتمہ کرسکتے ہیں، یا بہتر متبادل فراہم کرسکتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک بلین گاڑیاں سڑکوں پر ہیں۔ صرف سال 2018ء میں ہم نے مسافر گاڑیوں کی تعداد میں دو کروڑ چالیس لاکھ کا اضافہ کیا۔
ہمیں متبادل ذریعۂ توانائی ڈھونڈنا ہوگا۔ آج ہم بجلی سے چلنے والی ایک کار خرید سکتے ہیں۔ آؤڈی، بی ایم ڈبلیو، شیورلیٹ، فیاٹ، فورڈ، ہونڈا، نسان، ٹیسلا، ووکس ویگن، اور چین بھارت کے صنعت کار بھی بجلی سے چلنے والی گاڑیاں تیار کررہے ہیں۔ میرے پاس بھی بجلی سے چلنے والی ایک گاڑی موجود ہے، اور یہ مجھے بہت پسند ہے۔ اگرچہ الیکٹرک کار بہت مہنگی پڑتی ہے، اور ہرکسی کی پہنچ میں نہیں، مگر اب اس کی لاگت میں ڈرامائی کمی آئی ہے۔ اس کی وجہ بیٹریوں کی قیمت میں کمی ہے، دس سال میں قیمت 87 فیصد کم ہوئی ہے۔ تاہم یہ اب بھی کمیاب ہے۔ اس ضمن میں گرین پریمیم اب بھی مہنگا ہے۔
تاہم جس رفتار سے بیٹری کی قیمت گھٹ رہی ہے، میں پیش گوئی کرسکتا ہوں کہ2030ء تک اکثر گاڑیوں کے لیے گرین پریمیم صفرتک گرجائے گا۔ یہ ایک اچھی خبر ہے، اور ہمیں اب زیادہ سے زیادہ الیکٹرک گاڑیاں سڑکوں پرلانی چاہئیں۔ ہمیں امریکہ میں الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت آئندہ پندرہ سال میں سو فیصد تک لے جانی ہوگی۔ یہ آج دو فیصد سے بھی کم ہے۔
(جار ی ہے)