پشاور: کوچہ رسالدار خودکش بم دھماکہ

پشاور میں طویل خاموشی کے بعد قصہ خوانی بازار سے ملحقہ علاقے کوچہ رسالدار میں اہلِ تشیع کی جامع مسجد میں نماز ِجمعہ کے دوران خودکش دھماکے کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکاروں اور معصوم بچوں سمیت 64 افراد جاں بحق اور 194 زخمی ہوگئے، جب کہ زخمیوں میں کئی افراد کی حالت اب بھی تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق خودکش حملہ آور نے مسجد میں داخل ہونے سے قبل گیٹ پر تعینات دو پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی، جس کے بعد بھاگتے ہوئے مسجد میں داخل ہوکر خود کو بارودی مواد سے اڑا دیا۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی اور لوگوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس، ریسکیو 1122، ایدھی اور دیگر امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کردیا۔
قصہ خوانی بازار کے قریب واقع پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں کوچہ رسالدار بم دھماکے کے بعد قیامتِ صغریٰ کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ ہسپتال میں ایمبولینسوں کے علاوہ نجی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر بھی زخمیوں کو طبی امداد کے لیے لایا گیا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے شعبہ حادثات میں دل دہلا دینے والے مناظر دیکھنے میں آئے، زخمیوں اور میتوں کے ساتھ آنے والے دھاڑیں مار مار کر روتے رہے، رشتے دار اور لواحقین میتوں میں اپنے پیاروں کی لاشیں تلاش کرتے رہے، زخمیوں کی آہ و بکا اور رشتے داروں کی چیخ پکار سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ زخمیوں کے لیے خون کا بندوبست کرنے کے لیے رشتے داروں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں عام لوگ بھی جمع ہوگئے تھے۔ سیکڑوں خواتین اور بزرگ افراد مسلسل بین کرتے رہے، کوئی اپنے بیٹے کی لاش ڈھونڈتا رہا اور کوئی اپنے والد کو تلاش کرتا رہا۔ ایک ایک گھر سے دو دو اور تین تین لاشیں اٹھانے والے بے حال نظر آئے، کئی افراد زخمیوں اور اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھ کر بے ہوش بھی ہوگئے۔
کوچہ رسالدار دھماکے کا نشانہ بننے والا ایک بدقسمت خاندان ایسا بھی تھا جس کے 10 افراد اس جانکاہ حادثے میں لقمۂ اجل بن گئے ہیں، جبکہ 10 سال بعد پشاور میں ایک ہی دن میں درجنوں کی تعداد میں دکانوں سے تابوت خریدے گئے۔ کوچہ ر سالدار کے رہائشی ضیاء الرحمٰن کے گھر کے 10 افراد اس دھماکے میں جاں بحق ہوئے، جبکہ سید وسیم نامی شخص کے چار بھائی بھی اس واقعے میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ پشاور کے یکہ توت بازار میں تابوت فروخت کرنے والے فضل وہاب کا کہنا ہے کہ 10 سال بعد ایسی دہشت گردی کا واقعہ ہوا ہے جس میں اتنی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ فضل وہاب کو اب یہ خوف لاحق ہے کہ پھولوں کے شہر پشاور میں دہشت گردی شاید واپس لوٹ آئی ہے۔ فضل وہاب کے مطابق عام دنوں میں ایک یا دو تابوت دن میں فروخت ہوتے تھے لیکن جمعہ کے قیامت خیز واقعے کے بعد ان کی دکان سے ایک ہی دن میں 14 تابوت فروخت ہوئے، جبکہ باقی دکانوں سے بھی اسی تعداد میں تابوت فروخت ہوئے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے ہفتے کے روزگورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان اور کورکمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ہمراہ کوہاٹی گیٹ پشاور میں واقع امام بارگاہ حسین آباد کا دورہ کیا اور وہاں پرسانحۂ کوچہ رسالدار کے شہدا کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف، معاونِ خصوصی ظہور شاکر، آئی جی ایف سی اور آئی جی پولیس بھی موجود تھے۔ انہوں نے جاں بحق افراد کے اہلِ خانہ اور زخمیوں کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے شہدا کے درجات کی بلندی اور پسماندگان کے لیے صبرِ جمیل کی دعا کی، جبکہ ہسپتالوں میں زیر علاج زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس موقع پر اس اندوہناک واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر لڑنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس واقعے کو انتہائی افسوس ناک اور قومی اتحاد واتفاق کو خراب کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے گورنر، وزیراعلیٰ اور کور کمانڈر نے کہا کہ پوری قوم کو اس طرح کے بزدلانہ واقعات کے پیچھے دشمن کے مقاصد کو سمجھنا ہوگا اور دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے آپس میں اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس موقع پر اپنی گفتگو میں وزیراعلیٰ محمودخان کا کہنا تھا کہ اس حادثے میں جو نقصان ہوا اس کا ازالہ نہیں ہوسکتا، لیکن اس واقعے کے مجرمان کو ہر صورت کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا، اور واقعے کے مجرمان تک پہنچنے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانے پر مربوط انداز میں کام ہورہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنی کمزوریوں کو دور کریں گے اور سرزد ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے کا لائحہ عمل مل کر طے کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے بھر میں عبادت گاہوں کی سیکورٹی کو فول پروف بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، اور جو عناصر قوم میں نفاق پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ہم مل جل کر اُن کے عزائم کو ناکام بنائیں گے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھاکہ یہ جنگ مشکل ضرور ہے لیکن ہم مل جل کر اسے جیتیں گے اور دشمن کو ضرور شکست دیں گے۔
اپنی گفتگو میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا کہنا تھا کہ سیکورٹی فورسز حکومت اور عوام کے تعاون سے دہشت گردی کے اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، اس مقصد کے لیے تمام اداروں کے درمیان کوآرڈی نیشن کو مزید بہتر بنایا جارہا ہے اور ملک میں امن وامان کویقینی بنانے اور دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
اہلِ تشیع کے رہنمائوں نے تعزیت کے لیے تشریف لانے پر گورنر، وزیراعلیٰ اور کور کمانڈر کا شکریہ ادا کیا اور دشمن کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کے لیے آپس میں قومی اتحاد و اتفاق کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پُرامن لوگ ہیں اورکسی بھی سیاسی جماعت کو اس واقعے پر اپنی سیاست چمکانے نہیں دیں گے۔
کوچہ رسالدارکے اس حالیہ خودکش دھماکے نے پورے پشاور کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس پر ہر جانب سے افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اب تک کی تحقیقات اور اطلاعات کے مطابق یہ ایک منظم خودکش حملہ تھا جس کا واضح ہدف اہلِ تشیع کی یہ انتہائی اہم اور مرکزی عبادت گاہ تھی جہاں جمعتہ المبارک کی نماز کی ادائیگی کے لیے قرب وجوار کے علاوہ دور دراز علاقوں سے افراد آئے ہوئے تھے۔ اس حملے کے حوالے سے ہونے والے شدید جانی نقصان کے علاوہ ایک قابلِ غور بات اس عبادت گاہ کے لیے اس کی واضح حساسیت کے باوجود حفاظت کے مطلوبہ انتظامات کا نہ کیا جانا تھا جس کے سبب یہ اندوہناک واقعہ وقوع پذیر ہوا۔ اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ قصہ خوانی بازار اور اس سے ملحقہ علاقے پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گردوں کے خصوصی نشانے پر رہے ہیں، اور یہاں پچھلے بیس سال کے دوران وطنِ عزیز کے دہشت گردی کے بدترین واقعات ظہور پذیر ہوچکے ہیں جن میں سیکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں محرم الحرام کے آغاز پر ہونے والے ایک بم دھماکے میں اُس وقت کے ڈی آئی جی ملک سعد سمیت پولیس کے کئی افسران اور جوان شہید ہوئے تھے، جب کہ یہی وہ بدقسمت علاقہ ہے جہاں اے این پی کے صوبائی راہنما بشیر احمد بلور اور بعد ازاں اُن کے فرزند ہارون بلور دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بنے تھے۔ یہ اس علاقے کی حساس پوزیشن کا نتیجہ ہے کہ یہاں نہ صرف دہشت گردی کے عروج کے زمانے میں سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے بلکہ بعد کے دنوں بالخصوص محرم الحرام کے دوران قصہ خوانی بازار، کوچہ رسالدار، محلہ مروی ہا سمیت کئی حساس علاقوں کی خصوصی مانیٹرنگ کے لیے تھانہ خان رازق شہید میں ایک اسپیشل کنٹرول روم بھی قائم کیاگیا تھا، لیکن اب حالیہ دھماکے کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ نہ صرف یہ کنٹرول روم غیر فعال ہوچکا ہے بلکہ اس کے زیر کنٹرول بیشتر مقامات پر نصب سوکیمروں میں اکثر کی خرابی کا بھی انکشاف ہوا ہے جو سیکورٹی کے متعلقہ اداروں کے لیے یقیناً ایک قابلِ توجہ امر ہے۔ یاد رہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور کے کوچہ رسالدار میں گزشتہ جمعہ کو ہونے والا دھماکہ تین سال 7ماہ کی خاموشی کے بعد ہوا ہے۔ پشاور میں آخری خودکش حملہ عوامی نیشنل پارٹی کے جلسے میں ہارون بلور پر 10 جولائی 2018ء کو ہوا تھا جس میں ہارون بلور سمیت 20 افراد جان کی بازی ہارگئے تھے، جب کہ صوبے کا آخری خودکش دھماکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں 21 جولائی 2013ء کو ہوا تھا جس میں 7 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
دریں اثناء سامنے آنے والی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ جامع مسجد کوچہ رسالدار میں خودکش دھماکہ کرنے والے دہشت گرد اور اس کے سہولت کاروں کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ ان اطلاعات کے مطابق خودکش بمبار کا نام احسان اللہ عرف عبداللہ تھا جو مسلسل نام بدلتا رہتا تھا، جبکہ اس خودکش کا فارم ’ب‘ بنانے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ خودکش بمبار پشاور کا رہائشی تھا۔ جبکہ اس کے مرکزی سہولت کار کی تصویر اور ڈیٹا بھی حاصل کرلیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کا یہ نیٹ ورک اقلیتی برادری پر حملوںکے علاوہ پشاور کے تھانہ پھندو پر چند روز پہلے ہینڈ گرنیڈ پھینکنے میں بھی ملوث ہے۔ اس واقعے میں ملوث دہشت گردوں سمیت اب تک مجموعی طور پر 22 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں انتہائی اہم سیکورٹی اداروں کو مطلوب 6 دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق کوچہ رسالدار مسجد میں ہونے والے دھماکے میں ملوث نیٹ ورک کے خلاف مختلف اضلاع میں آپریشن جاری ہیں، سی ٹی ڈی کی اسپیشل انویسٹی گیشن کی 4 مختلف ٹیمیں ضم شدہ اضلاع میں موجود ہیں۔ دھماکے میں ملوث نیٹ ورک کے ایک سہولت کار اور خودکش حملہ آور کی شناخت ہوگئی ہے جس کے مطابق خودکش بمبار کی عرفیت عبد اللہ تھی اور وہ نام بدلتارہتا تھا۔ خودکش بمبار کے ایک سہولت کار کا ڈیٹا اور تصویر حاصل کرلی گئی ہے، مبینہ ملزم حسن کا تعلق جمرودضلع خیبر سے بتایا جاتا ہے جس کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ نیٹ ورک کے سہولت کاروں کی گرفتاری کے لیے جی ایس ایم لوکیٹر کی مدد سے سابقہ قبائلی اضلاع میں کوششیں جاری ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم نے خودکش بمبار اور سہولت کار کو جائے وقوعہ تک پہنچانے والے رکشہ ڈرائیور سے بھی پوچھ گچھ مکمل کرلی ہے، رکشہ ڈرائیور سے تفتیش کے بعد شہر کے دیگر مقامات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کر لی گئی ہیں۔
خودکش حملہ آور عبداللہ کے بارے میں پتا چلا ہے کہ وہ 2020ء میں گھر سے لا پتا ہوا تھا اور دو سال قبل داعش سے منسلک ہوا تھا،اور اس نے افغانستان میں تربیت حاصل کی تھی۔ علاوہ ازیں حملہ آور کا خاندان افغانی ہے جو دس سال قبل پشاور منتقل ہوا تھا، اور پچھلے کچھ عرصے سے پشاور کے نواحی علاقے میں رہائش پذیر تھا، جبکہ اس کے سہولت کار کاتعلق جمرود ضلع خیبر سے ہے۔