تحریک عدم اعتماد عمران خان کا مستقبل؟

سرپرستی کی چھتری سر سے اتر گئی ہے یا سرک گئی ہے، یہ فیصلہ اب قریب آن پہنچا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی نے مشترکہ فیصلہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، اے این پی، جے یو آئی سمیت 86 اراکین کے دستخط ہیں۔ تحریکِ عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے اسٹاف نے وصول کی اور وصولی کی رسید بھی دی۔
اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت جمع کروائی گئی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 95 واضح طور پر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں کارروائی سات دن کے اندر اندر مکمل کرنے کی ہدایت بھی کرتا ہے۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار قومی اسمبلی میں حلیف اور حریف اراکین کی تعداد کے فرق پر منحصر ہوتا ہے، اور موجودہ ایوان میں اسی نمبر گیم کی تبدیلی یا عدم تبدیلی وزیراعظم عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
دو اہم پیش رفت بھی ہوئیں جنہیں کسی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:
(1) وزیراعظم کی اٹارنی جنرل سے ملاقات۔
(2) جہانگیر ترین گروپ کی تنبیہ۔
اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد وزیراعظم عمران خان کی اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین گروپ نے اجلاس کے بعد اعلان کیا ہے کہ مائنس عثمان بزدار کے بعد ہی آگے بات چلے گی۔ جہانگیر ترین گروپ کے رہنما نعمان لنگڑیال نے اعلان کیا ہے کہ ترین گروپ متحد ہے، حکومت سے مائنس بزدار پر ہی بات آگے بڑھے گی۔ یہ پیش رفت بتا رہی ہے کہ عدم اعتماد کے ایک نہیں دو محاذ ہوسکتے ہیں۔
قومی اسمبلی اجلاس کی ریکوزیشن اور تحریک عدم اعتماد جمع کرانے شاہدہ اختر علی، مریم اورنگزیب، خواجہ سعد رفیق، شازیہ مری، نوید قمر، رانا ثنااللہ اور ایاز صادق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ پہنچے تھے۔ تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں داخل کرائے جانے کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ(ن) کے صدر شہبازشریف اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور دعویٰ کیا کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگی اور قوم کو نااہل حکومت سے نجات مل جائے گی۔ ان رہنمائوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ قومی اسمبلی میں172 سے زائد ارکان کی حمایت سے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگی، یہ تحریکِ عدم اعتماد اپوزیشن کے مشترکہ فیصلے کے بعد داخل کرائی گئی ہے۔ آصف علی زرداری نے واضح طور پر کہا کہ ہم عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں قومی اسمبلی میں مطلوبہ تعداد میں ارکان لائیں گے اور 172 سے زیادہ ووٹ لیں گے، ہم سب نے سوچا ہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں، اس لیے ہم سب ساتھ آئے ہیں، یہ فیصلہ مشاورت سے ہوا، ہم نے مشاورت کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ تنہا کوئی پارٹی پاکستان کو اس مشکل سے نہیں نکال سکتی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے متعدد سوالوں کے جواب دیے اور کچھ سوالوں کے جواب نہیں دیے بلکہ کہا کہ ہم جمہوریت کے اور ملکی بقا کے لیے یہ قدم اٹھا رہے ہیں، ہم کسی کی گردن زنی نہیں چاہتے بلکہ ایک ایسی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں گے کہ ملک کو ایک مستحکم جمہوریت دے سکیں، اس لیے متفقہ طور پر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی ہے اور اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔ انہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو کرنا تھا کرلیا ہے‘‘۔
اب سوال یہ اٹھائے جارہے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد کیا ہوگا؟ اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو فلور کراسنگ قانون کے تحت آئندہ بننے والا وزیراعظم یا وزیراعلیٰ زیادہ دیر اپنی تعداد میں برتری برقرار نہیں رکھ سکے گا، کیونکہ اپوزیشن کا ساتھ دینے والے اتحادی یا حکومتی اراکین کی رکنیت پارلیمانی لیڈر کی سفارش کے ساتھ معطل کرائی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی ایوان وزیراعظم میں عین اسی وقت میڈیا سے گفتگو کی اور کہا کہ حکومت کہیں نہیں جارہی ہے ’’یہ اپوزیشن کی آخری واردات ہے، اس کے بعد 2028ء تک کچھ نہیں ہوگا، ہر صورت اس خرید و فروخت کا مقابلہ کریں گے۔‘‘
عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سب سے اہم پہلو اسمبلی میں نمبر گیم ہے۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی موجودہ قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف عددی اعتبار سے سب سے بڑی قوت ہے، جس نے دوسری جماعتوں کی حمایت سے وفاقی حکومت بنا رکھی ہے۔ وفاقی حکومت کو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے 155 اراکین کے علاوہ مسلم لیگ ق کے 5، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 7، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 3، عوامی مسلم لیگ کے ایک، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، جمہوری وطن پارٹی کے ایک، اور 2 آزاد اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ ت
تحریک انصاف کے بعض وزراء اور اراکین یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع ہی نہیں کرائی جائے گی۔ جبکہ کچھ کا یہ کہنا تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد جمع ہو بھی گئی تو ’کامیاب‘ نہیں ہوسکے گی۔ لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے پارلیمان کے ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) میں مطلوبہ اراکین کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ کررہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے ضامن اپنے ترپ کے پتّوں کو فی الحال سینے سے لگا رکھا ہے، اور قومی اسمبلی میں اپنے نئے حمایتیوں کی شناخت آشکار کرنے سے گریز کررہی ہیں۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار قومی اسمبلی میں حلیف اور حریف اراکین کی تعداد کے فرق پر منحصر ہوتا ہے، اور موجودہ ایوان میں اسی نمبر گیم کی تبدیلی یا عدم تبدیلی وزیراعظم عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی، تاہم اپوزیشن کی تیاری بھرپور معلوم ہورہی ہے۔ اب ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں کس جماعت کا کتنا وزن ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے 155 اراکین کے علاوہ مسلم لیگ ق 5، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 7، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس 3، عوامی مسلم لیگ ایک، بلوچستان عوامی پارٹی 5، جمہوری وطن پارٹی ایک اور 2 آزاد اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ اپوزیشن کی نشستوں پر براجمان اراکینِ اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نون 84، پاکستان پیپلز پارٹی 56، متحدہ مجلس عمل پاکستان 15، عوامی نیشنل پارٹی ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی 4 اور 2 آزاد شامل ہیں۔ اس وقت ایک رکن کے انتقال کے بعد ایوان میں ارکان کی تعداد341 ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومتی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد 179 ہے، جبکہ 162 اراکین قومی اسمبلی اپوزیشن بینچوں کا حصہ ہیں۔
کامیابی یا ناکامی کیسے ممکن ہے؟
آئین پاکستان کے آرٹیکل 95 کے مطابق ایوان کی کُل تعداد کے 20 فیصد اراکین کے دستخطوں سے وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع ہوسکتی ہے، جبکہ اسے کامیابی یا ناکامی سے ہمکنار کروانے کے لیے اس کے حمایتیوں یا مخالفین کو ایوان میں سادہ اکثریت (یعنی 51 فیصد ووٹ) ثابت کرنا ہوگی۔ یوں اب اصل امتحان اپوزیشن جماعتوں کا شروع ہوگیا ہے کہ وہ تعداد پوری کریں۔ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے حزب اختلاف کو ایوان میں 172 اراکین (کُل تعداد کا 51 فیصد یا سادہ اکثریت) کی حمایت درکار ہوگی، جو حکومتی بینچوں کے اراکین کی مدد کے بغیر ناممکن ہے۔ اب سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ حمایت کہاں سے آسکتی ہے؟ اپوزیشن کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے قومی اسمبلی کے مزید کم از کم دس اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔ حزب اختلاف کے مختلف رہنما 20 سے 25 حکومتی ایم این ایز کو تحریک عدم اعتماد کے حق میں رام کرنے کا دعویٰ رکھتے ہیں، اور ان اراکین کا تعلق تحریک انصاف سے بتایا جارہا ہے۔ ان میںجمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز تحریک انصاف کے بالترتیب 2، 6 اور 17 ایم این ایز کو اپنے ساتھ ملانے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ یہ ایم این ایز مستقبل کے عام انتخابات ان جماعتوں کے ٹکٹوں پر الیکشن لڑنے کے خواہش مند ہیں، اور اسی لالچ میں عدم اعتماد کی تحریک میں عمران خان کے خلاف ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے 20 اراکین کی عدم اعتماد کے حق میں حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قومی اسمبلی میں پچاس سے زیادہ ایسے اراکین موجود ہیں جو کبھی بھی پاکستان تحریک انصاف کے رکن نہیں رہے، تاہم 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور حکومتی بینچوں پر بیٹھے۔ ان اراکین میں آزاد اراکین کے علاوہ ایسے اراکین بھی شامل ہیں جو ماضی میں اپوزیشن پارٹیوں کے سرگرم رکن رہ چکے ہیں۔ اس وقت اپوزیشن تحریک انصاف کے ایسے اراکین قومی اسمبلی پر کام کررہی ہے جو ماضی میں ان اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ رہ چکے ہیں، اور اپوزیشن یہ بھی خیال کررہی ہے کہ عمران خان حکومت کی پالیسیوں نے ان اراکین کو مایوس کیا ہے، اور اب وہ اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے کی خاطر اپوزیشن کی بڑی پارٹیوں کے ساتھ رابطے استوار کررہے ہیں، تاکہ آنے والے انتخابات میں انہیں ٹکٹ مل سکیں۔
یوں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر خان ترین کا گروپ ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ جہانگیر ترین علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے سے پہلے اپنے حمایتی اراکین کو واضح ہدایات دے چکے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہوگا۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والا سرائیکی اراکین قومی اسمبلی کا گروپ بھی عمران خان کی حکومت سے سرائیکی صوبہ نہ بنانے کے باعث نالاں ہے، اور کوئی بھی سرپرائز دے سکتا ہے۔ اپوزیشن کے رہنما دوسری حکومتی جماعتوں میں مسلم لیگ (ق) کے چودھری برادران اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں، تاہم دونوں پارٹیاں ملک میں تبدیل ہوتی سیاسی صورت حال کے پیش نظر واضح حکمت عملی کا اعلان نہیں کررہی ہیں۔ گجرات کے چودھریوں کی حمایت یا مخالفت وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کے مستقبل کے فیصلے سے متعلق اہمیت کی حامل ہوگی۔ اپوزیشن کی جانب سے دعویٰ سامنے آیا ہے کہ اس نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے نمبر پورے کرلیے ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے 197 سے 202 ارکانِ قومی اسمبلی ساتھ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ شہبازشریف کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد موو کررہے ہیں، حکومت کو تاریخی شکست ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام ارکانِ قومی اسمبلی کو اسلام آباد سے باہر جانے سے منع کردیا گیا ہے اور ہدایت دی گئی کہ تمام ارکان اجلاس میں شرکت لازمی بنائیں۔