کتاب
:
یادِ اقبالؒ
مرتب
:
جمیل اطہر قاضی
ضخامت
:
216 صفحات قیمت:1000 روپے
ناشر
:
بک ہوم 46 مزنگ روڈ، بک اسٹریٹ، لاہور
فون
:
042-37231518
برقی پتا
:
bookhomepublishers@gmail.com
محترم جمیل اطہر قاضی صاحب کا شمار ملک کے باوقار اور بزرگ ترین صحافیوں میں ہوتا ہے۔ کوچۂ صحافت میں ان کی خدمات کا دائرہ ساٹھ برس سے زائد پر محیط ہے، صحافتی حلقوں میں ان کا نام عزت و احترام کی علامت ہے، حکومت نے بھی ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں تمغائے امتیاز سے نوازا ہے۔ انجمن مدیرانِ جرائد (سی پی این ای) کے صدر اور اخباری مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے سینئر نائب صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں۔ اوائلِ عمری ہی میں قلم و قرطاس سے ناتا جوڑا اور پھر اسی کام کے ہورہے۔ روزنامہ ’’وفاق‘‘ اور ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ کی ادارت سے ہوتے ہوئے آج کل روزنامہ تجارت اور اس گروپ کے تحت شائع ہونے والے اردو روزنامہ ’’جرأت‘‘، انگریزی روزنامہ ’’دی بزنس‘‘ اور ہفت روزہ ’’اخبار خواتین‘‘ کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی شخصیت اور تعلیمات کے تعارف و اشاعت کے لیے ’’مجدد الف ثانی سوسائٹی‘‘ بھی قائم کر رکھی ہے اور ان کے حوالے سے ’’شیخ سرہند‘‘ کے نام سے کتاب بھی شائع ہو چکی ہے، اس کے علاوہ ’’ایک عہد کی سرگزشت‘‘، ’’دیارِ مجدد سے داتا نگر تک‘‘، ’’باز گشت‘‘ اور ’’صدائے بازگشت‘‘ قبل ازیں منظر عام پر آ چکی ہیں، جنہیں صحافتی اور علمی حلقوں میں خاص پذیرائی حاصل ہوئی۔
زیر نظر کتاب ان کے صحافت کے ابتدائی ایام کی کاوش کا ثمر ہے۔ ’’یادِ اقبال‘‘ کے نام سے مرتب کیے گئے اس مجموعہ مضامین میں شاعرِ مشرق حکیم الامت، مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال پر تحریر شدہ وہ مضامین شامل ہیں جو ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ لائل پور (فیصل آباد) کے 23 اپریل 1961ء کے خصوصی شمارہ، اقبال نمبر، یا 1961-62ء کے دوران اس ہفت روزہ کے مختلف شماروں میں شائع ہوئے۔ ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ اُن دنوں مرحوم مصطفی صادق اور جناب جمیل اطہر کی مشترکہ ادارت میں شائع ہوا کرتا تھا، بعد ازاں یکم فروری 1962ء سے اسے روزنامہ کی حیثیت دے دی گئی۔
’’یادِ اقبال‘‘ میں شامل مضامین نہایت اہم اور قیمتی ہیں، تاہم ایک طویل عرصے کے بعد ان کے کتابی صورت میں محفوظ ہونے میں ایک اور بزرگ اخبار نویس جناب ریاض احمد چودھری کی کاوش کو بھی خاصا دخل حاصل ہے، جو آج کل ’’بزمِ اقبال‘‘ کے سیکرٹری اور ڈائریکٹر ہیں۔ اس حیثیت میں جناب ریاض احمد چودھری کا پُر زور اصرار تھا جو محترم جمیل اطہر قاضی صاحب کو ان تاریخی مضامین کو کتابی شکل دینے پر آمادہ کرسکا۔ کتاب کے آغاز میں مرتب کے مختصر سے ’’تعارفی کلمات‘‘ ہیں، جن میں انہوں نے قارئین کو ان مضامین کے تاریخی پس منظر اور کتابی صورت میں مرتب ہونے سے متعلق حقائق سے آگاہ کیا ہے اور اختتام اس دعا پر کیا ہے کہ ’’ہم سب اقبال کے افکار کا پوری گہرائی سے مطالعہ کریں اور پاکستانی معاشرے کو اُس معاشرے میں تبدیل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں جو مفکرِ پاکستان کا مطلوب و مقصود رہا۔‘‘ تعارفی کلمات کے بعد پروفیسر افتخار احمد چشتی صدر مجلسِ اقبال لائل پور، جن کے دو مضامین بھی مجموعہ میں شامل ہیں، کے تین مکاتیب شائع کیے گئے ہیں جن کا تعلق اقبالیات اور بعض دیگر مضامین ہی سے ہے۔
’’یادِ اقبالؒ‘‘ میں علامہ اقبالؒ کی شخصیت، شاعری، خطوط اور ان کے تخیلِ پاکستان سمیت مختلف حوالوں سے دو درجن کے قریب مضامین شامل ہیں، جن کے لکھنے والوں میں مرزا محمد منور، مولانا عبدالمجید سالک، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد، شریف احسن، اے ڈی ارشد شفاء الملک حکیم محمد حسن قریشی، جسٹس کیانی، پروفیسر یوسف زاہد، پروفیسر افتخار احمد چشتی، شیخ محمد عظیم، مظفر ملک ڈاکٹر وزیر آغا، عارف سیالکوٹی، چودھری علی محمد خادم، خلیق قریشی، ڈاکٹر رانا، ایم این احسان الٰہی ، کوثر نیازی اور میاں عبدالباری جیسے نامور اور ممتاز اہلِ علم حضرات کے نام نمایاں ہیں۔ یوں تو کتاب میں شامل تمام مضامین پُرمغز اور معلوماتی ہیں، تاہم مجلسِ اقبال کے اجلاس سے جسٹس کیانی کا خطاب اپنے انداز کے حوالے سے منفرد اور خاصے کی چیز ہے۔ ’’یادِ اقبال‘‘ میں علامہ اقبال سے متعلق تین نظمیں بھی شائع کی گئی ہیں، خلیق قریشی مدیر روزنامہ عوام کی نظم مضامین کے اختتام پر کتاب کے آخری صفحے پر شائع کی گئی ہے جس سے متعلق تعارفی سطور میں شاعر نے وضاحت کی ہے کہ ’’شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کی وفات 21 اپریل 1938ء کو ہوئی تھی، طالب علمی کا زمانہ تھا بلکہ اسی روز بی اے کا انگلش کا پہلا پرچہ دے کر آئے تھے، آتے ہی علامہ مرحوم کی وفات کی خبر سنی، اسی وقت جنازے میں شرکت کے لیے ہم سب طالب علم علامہ اقبال کی کوٹھی پر پہنچ گئے اور اسی شام یہ نظم ہوئی۔ علامہ انور صابری کی نظم کتاب کی پشت کے اندرون، اور عبدالکریم خمر کی نظم سرورق کے اندرون گرد پوش پر شائع کی گئی ہے جس کے آخری دو اشعار یوں ہیں ؎
چہرۂ فکر و معانی کو دیا تُو نے نکھار
گیسوئے اردو بھی تیرے فیض سے ہے تابدار
کر دعا پھر حضرت حق سے بجائے احتساب
ملک و ملت کے لیے تیری دعا ہے مستجاب
خوبصورت رنگین سرورق کو علامہ اقبال کی اس تصویر سے آراستہ کیا گیا ہے جس میں وہ قرآن حکیم سامنے رکھے اس کی تلاوت اور تعلیمات میں مستغرق ہیں۔کتاب کا کاغذ نہایت اعلیٰ اور طباعت معیاری ہے۔
مجموعی طور پر ’’یادِ اقبال‘‘ اقبالیات کے ذخیرہ میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔