1980ء کی دہائی میں تعطیلاتِ گرما میں، راقم اپنے عم زاد بھائی عبداللہ شاہ ہاشمی (ماہرِ مضمون، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول، حسن ابدال) کے ہاں، حسن ابدال چلا جایا کرتا تھا۔ اُس زمانے میں حسن ابدال ایک پُرسکون جگہ تھی۔ تعطیلات کا بیشتر حصّہ میں اِسی عافیت کدے میں گزارتا۔ لکھنے پڑھنے میں مشغول اور صبح و شام کھلی فضا میں سیر۔ بعض اوقات ایم اے اُردو کے امتحانی پرچے بھی ساتھ لے جاتا کیونکہ اُنھیں چند یوم کے اندر اندر دیکھ کر واپس یونی ورسٹی کو بھیجنا فرائض ِمنصبی میں شامل تھا۔
1986ءکے موسمِ گرما میں چند ہفتوں کے لیے حسن ابدال کے عافیت کدے میں مقیم تھا۔ ایک روز برادر عبداللہ شاہ نے بتایا کہ حضرو میں میرے ایک دوست ہیں، ملک حق نواز خاں۔ وہ ایک قریبی قصبے شمس آباد میں ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ کتب بینی کا ذوق رکھتے ہیں۔ آپ کو غائبانہ طور پر آپ کی کتاب تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ کے حوالے سے جانتے ہیں اور آپ سے ملنے کے مشتاق ہیں۔ مجھے تاکید سے کہہ رکھا ہے کہ جب آپ لاہور سے حسن ابدال آئیں، تو میں آپ کو اُن سے ملاقات کے لیے اُن کے گھر (پیر زئی، نزد حضرو) لے چلوں۔
دو تین روز بعد ہم نے پیر زئی کے لیے ”رختِ سفر“ باندھا۔ ”رختِ سفر“ کیا تھا؟ایک ایک چھتری اور دو تین کتابیں۔ حسن ابدال کے پوسٹ آفس کے باہر درخت کے سائے میں ایک آدھ گھنٹا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ بہرحال ہم نے حضرو پہنچ کر تانگہ لیا اور نواح میں واقع پیر زئی، ملک صاحب کے درِ حق نواز پر پہنچ گئے۔
اَب آگے کی کہانی ملک صاحب کی زبانی سُنیے:
”یہ اتوار20 جولائی 1986ء کا ایک گرم دن تھا۔ مہمانوں کی آمد کا سن کر، میں بعجلت باہر آیا تو دیکھا کہ عبداللہ شاہ صاحب کے ساتھ ایک سنجیدہ اور باوقار شخص کھڑے ہیں۔ دبلے پتلے، نکلتا ہوا قد، صاف ستھرا سادہ لباس پہنے، سر پر قراقلی اور اُس گرم دن بھی ہلکے کپڑے کی بنی واسکٹ زیبِ تن کیے ہوئے۔ چہرے پر خوبصورت داڑھی اور ہونٹوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ سجائے، یہ ڈاکٹر رفیع الدّین ہاشمی صاحب تھے۔ اُن سے میری یہ پہلی ملاقات تھی مگر عبداللہ شاہ، اُن سے میرا غائبانہ تعارف کرا چکے تھے، اِس لیے مجھے دیکھتے ہی وہ آگے بڑھے اور پُرجوش معانقہ کیا۔۔۔ اُس روز میں جامے میں پھولا نہیں سما رہا تھا۔“
گھنٹا ڈیڑھ بیٹھے رہے۔ عبداللہ شاہ کچھ تعارف تو کرا چکے تھے، مزید میں نے اپنا تعارف خود کرا دیا۔ ملک صاحب نے بتایا کہ اُنھوں نے میری کتاب تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ پڑھی تھی اور ”میں اسے پڑھ کر بہت متاثر ہوا تھا۔“ ۔۔۔باتیں، گفتگو۔ زیادہ تر علّامہ اقبال کے موضوع پر تبادلۂ خیالات ہوا۔ میری طرح وہ بھی علّامہ اقبال کے مدّاح تھے۔ اندازہ ہوا کہ بہت بامطالعہ شخص ہیں اور تحقیقی ذہن رکھتے ہیں۔ مَیں اپنی دو تین کتابیں ساتھ لے گیا تھا، اُنھیں پیش کیں۔ بہت خوش ہوئے۔
ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ تعطیلاتِ گرما میں راقم جب بھی حسن ابدال جاتا، یا اگر کسی اجلاس میں شرکت یا ایم فل کی ورکشاپ میں لیکچروں کے لیے علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد جانا ہوتا، تو وقت نکال کر پیر زئی بھی ملک صاحب کے ہاں حاضری دیتا۔ اُن کے ذوق کے مطابق کوئی کتاب بطور تحفہ لے جاتا۔ وہ بہت خوش ہوتے۔ کبھی کبھار یونی ورسٹی میں کئی دن کی مصروفیات کی وجہ سے تکان ہوجاتی اور میں واپس لاہور آنا چاہتا تو پیرزئی فون کرکے، ملک صاحب سے معذرت کرتا کہ اس بار نہ آسکوں گا۔ وہ آئندہ حاضری کے وعدے پر معذرت قبول کرلیتے۔
اُنھوں نے کتابوں کا بہت اچھا ذخیرہ جمع کررکھا تھا۔ اپنے ذوق کی نئی کتابیں منگواتے رہتے تھے۔ مجھے خط لکھ دیتے اور راقم جب بھی پیر زئی جاتا، کتابیں لے جاتا۔ اُنھوں نے بعض ادبی رسائل بھی لگوا رکھے تھے، جیسے قومی زبان، کراچی- الحمرا، لاہور- اخبارِ اُردو، اسلام آباد- مخزن، لاہور- ترجمان القرآن، لاہور۔ صحیفہ لاہور اور اقبال لاہور وغیرہ۔
میری کوئی نئی کتاب چھپتی، ملاقات پر پیش کرتا یا ڈاک سے انھیں بھیج دیتا۔ کتاب، اُن کے پاس پہنچتی، تو بنظرِ غائر وہ اُس کا مطالعہ کرکے اُس پر ماہرانہ تبصرہ رقم کرکے کہیں چھپنے کےلیے بھیج دیتے یا مجھے ارسال کردیتے۔ بالعموم مجھے وہ ایک ”صحت نامہ“ بناکر بھی بھیجتے جس میں پروف، متن اور املا کی غلطیوں کے ساتھ رموزِ اوقاف کی غلطیوں کی تفصیل درج ہوتی۔ بعض اوقات وہ کسی عبارت میں لفظی تبدیلی یا کسی جملے کی ساخت میں ترمیم تجویز کرتے۔ اکثر میں اُن کی ترامیم اور تبدیلیاں قبول کرکے آئندہ اشاعت میں اصلاح کرلیتا تھا۔
خط لکھنے اور خط کا جواب دینے میں وہ بہت مستعد تھے۔ خط پہنچتے ہی ممکنہ حد تک جلد از جلد جواب لکھ بھیجتے۔ کتابیاتِ اقبال کے ضمن میں بعض حوالوں کی تکمیل کے لیے راقم اُن سے استفسار کرتا، وہ ممکنہ حد تک جلدی جوابات لکھ بھیجتے۔ راقم کے پاس اُن کے تقریباً 40 خطوط محفوظ ہیں۔ ملک صاحب راقم کو بعض موضوعات پر قلم اٹھانے پر اکساتے۔ کبھی، زیرِ تحریر و تکمیل منصوبوں پر کام جلد سے جلد مکمل کرنے کی ہدایت کرتے۔ میں اُنھیں اپنی مصروفیات کے سبب صورت حال سے آگاہ کرتا تو مطمئن ہوجاتے۔ ان کے تین خطوط، ڈاکٹر خالد ندیم کی مرتّبہ کتاب اقبالیاتیِ خطوط اوّل (الفتح پبلی کیشنز راولپنڈی، 2012ء)میں شامل ہیں۔ (ص 231-237) جن سے اُن کی علمیّت کے ساتھ اقبالیات پر اُن کی گہری نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔یکم دسمبر 2003ء کے خط میں لکھتے ہیں:
”28 نومبر کی شام 20:6 پر ڈاکٹر زاہد منیر عامر صاحب نے ٹی وی پر اقبال اور اسلام پر تقریر کی اور حق یہ ہے کہ خوب کی۔ تقریر چونکہ مدلّل اور پُر از معلومات تھی، لیکن وقت چونکہ محدود تھا، اس لیے بعض نکات کی طرف صرف اشارے ہی کیے جا سکتے تھے۔ آپ نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ اقبال مذہب میں حرکت کے قائل ہیں اور جو بھی مذہب حرکت کا قائل ہوگا، وہ زندہ جاوید رہے گا۔ آپ نے حرکت ہی سے اجتہاد کو ثابت کیا اور کہا کہ اجتہاد ہی سے عصری ضروریات سے نمٹا جا سکتا ہے۔ یک فقرہ تقریر کے آخر آخر میں یہ بھی تھا کہ اسلام سکون اور امن کا دین ہے۔ سکون یہاں غالباً امن و آشتی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ یہ حرکت کے متضاد ہے اور یوں مضمون (تقریر) کی روح کے منافی ہوا۔ بہرحال تقریر کے بہاؤ میں اکثر ایسا ہوجاتا ہے۔“
یوں جہاں بھی ملک صاحب کو کسی تحریر یا تقریر میں کوئی کمی یا غلطی یا سُقم نظر آتا، فوراً اُس کی نشان دہی کرتے اور اپنی دانست میں تصحیح بھی کردیتے۔ مثلاً اُسی خط میں اُنھوں نے اقبال کی نظم ”التجائے مسافر“ کے ایک شعر:
تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا
کے حوالے سے لکھا:
”مسیح پیغمبر ہیں اور کسی ولی اللہ کا مرتبہ پیغمبر سے اونچا نہیں ہوسکتا۔ علّامہ اقبال نے انگریزی خطبات میں ایک جگہ جنت اور دوزخ کو احوال قرار دیا ہے، مقامات نہیں۔ (States, not places.)“
اسی طرح خطبات سے مزید دو نکات کا ذکر کرکے کہا کہ: ”یہ سب نظریات جمہور کے نظریات کے خلاف ہیں۔“
علّامہ اقبال کے متعدّد اُردو اور فارسی شعر بعض موضوع احادیث پر لکھے گئے ہیں، جیسے: ”سماںاَلٌفَقٌرُ فَخٌرِیٌ کا،رہا شانِ امارت میں “۔ اس جیسی 5،6 مثالیں دے کر لکھا:”خدا جانے علّامہ نے یہ احادیثِ موضوعہ کہاں سے حاصل کیں؟ اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔“
آخری زمانے میں اُن کی صحت خراب ہوگئی تھی۔ حافظہ بھی متأثر ہوا،چنانچہ اُنھوں نے کتابیں منگوانی بند کردیں۔ بایں ہمہ ملاقات پر میں اُن کے ذوق کی کوئی ایک کتاب بطور تحفہ لے جاتا۔ وہ اس تحفے پر خوش ہوتے۔ دراصل وہ توقع رکھتے تھے کہ اُن کے دوست آتے ہوئے کتاب کا تحفہ ضرور لائیں گے۔ ایک بار راقم اپنے عزیز دوست اور شاگرد ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کے ساتھ ملک صاحب کے ہاں پہنچا اور ایک کتاب اُنھیں پیش کی۔ اُنھوں نے کتاب وصول کی، شکریہ ادا کیا اور معاً بعد، ناشاد صاحب سے کہا: ”آپ اپنی نئی کتاب کیوں نہیں لائے؟“ وہ کہنے لگے:”میں دو ہفتے پہلے آپ کو دے کر گیا ہوں۔“ ملک صاحب بولے: ”اچھا!“ پھر وہ اندر گئے اور تھوڑی دیر میں وہی کتاب لے آئے۔ ناشاد صاحب سے معذرت کی کہ میں بھول گیا تھا۔
راقم گزشتہ دس پندرہ برسوں میں مختلف اوقات میں اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں (خالد ندیم، قاسم محمود، ظفر حسین ظفر، عبدالعزیز ساحر) کو اُن سے ملوانے پیر زئی لے جاتا رہا۔ وہ اہلِ علم سے مل کر بہت خوش ہوتے۔ چند سال پہلے کی بات ہے، رام پور، بھارت سے ذکریٰ ڈائجسٹ کے مدیر اور معروف عالمِ دین مولانا محمد یوسف اصلاحی پاکستان آئے ہوئے تھے۔ چند دن لاہور میں رکنے کے بعد وہ اپنے آبائی گاؤں فارمولی (نزدحضرو) گئے۔ میں نے ان کی آمد کے بارے میں ملک صاحب کو بتایا۔ وہ اصلاحی صاحب کی تصانیف کے حوالے سے اُنھیں اچھی طرح جانتے تھے۔ اُن کی تصانیف لے کر فارمولی ملنے چلے گئے۔ وہ اُن پر مولانا کے دستخط کرانا چاہتے تھے مگر افسوس کہ ملاقات نہ ہوسکی۔ مولانا اطراف میں اپنے بعض عزیزوں سے ملاقات کے لیے نکلے ہوئے تھے۔ فقط فون پر مختصر تبادلۂ خیال ہوسکا۔
ملک صاحب کوشاں رہتے تھے کہ اُن کے دوست، عزیز اور شاگرد اور لکھنے پڑھنے والے (بشمول اساتذہ اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ و طالبات) املا اور تلفّظ کی غلطیوں سے بچیں۔ ملک صاحب کو جہاں کہیں کوتاہی نظر آتی یا غلطی دیکھتے، حکمت و موعظت کے ذریعے اچھے طریقے سے اُس کی اصلاح کردیتے۔ اوپر مَیں نے ملک صاحب کے تحقیقی ذہن کی بات کی تھی۔ اس کا اندازہ راقم کے نام یکم اگست 2007ء کے خط سے بھی ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر صابر کلوری صاحب نے ایک مضمون اقبال کے جنوری اور اپریل 1990ءکے مشترکہ شمارے میںعلامہ اقبال کی نظم ”موٹر“ کے عنوان سے لکھا تھا۔ اس میں آپ نے حوالے دے کر لکھا ہے کہ موٹر میں جگندر سنگھ کے بجائے ان کا بیٹا اندرسوار تھا اور موٹر کی خاموشی کے متعلق اس نے بات کی تھی۔ اقبال کی بانگِ دراکی پہلی اشاعت کا ناقص نسخہ، جو آپ کی نذر کیا تھا، اس میں بھی یہ مصرع یوں درج ہے:”کیسی پتے کی بات، جُگ اندر نے کل کہی۔“قیاس چاہتا ہے کہ پرویں رقم مرحوم نے جگ اندر کے بجائے جگ جُت اندر کا اسے ”جگ اندر“ بنا دیا گیا۔ اگر یہ پس منظر ذہن میں نہ ہو تو ”جگ اندر“ لکھنا سمجھ نہیں آتا“۔
ملک صاحب کے نام راقم کے 19 خط سیّد نصرت بخاری کی مرتّبہ کتاب مکاتیبِ مشاہیر بنام حق نواز خاں (جمالیات پبلی کیشنز، اٹک، 2012ء) میں شامل ہیں۔ یہ کتاب ملک صاحب کے نام ڈاکٹر سیّد عبداللہ، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں، جمیل جالبی، احمد ندیم قاسمی، افتخار عارف، ڈاکٹر غلام سرور، ڈاکٹر سعد اللہ کلیم، چودھری عبدالحمید جالندھری، اور ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ایسے مشاہیر کے خطوں پر مشتمل ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہلِ علم و تحقیق سے رابطہ اُن کا خوش گوار مشغلہ تھا۔ بعض اوقات وہ مشاہیر کی کسی کتاب کے لفظی یا معنوی تسامحات کی نشان دہی کرتے۔ مشاہیر بالعموم اُنھیں قبول کرکے اصلاح کرلیتے، مثلاً افتخار عارف لکھتے ہیں:”پروف خوانی کی بعض اغلاط کا اعتراف ہے جو عجلت کے سبب پیدا ہوئیں۔ ان شاء اللہ اگلی اشاعت میں اِس کا ازالہ کردیا جائے گا۔“ ڈاکٹر ایوب شاہد نے لکھا: ”آپ نے کمال توجّہ سے شارحینِ غالب کا مطالعہ کیا اور میری کوتاہیوں کی جانب اشارہ کیا۔ آپ نے جن مآخذ کا تذکرہ کیا ہے، وہ میری نگاہ میں نہیں تھے۔ دوسرے ایڈیشن میں اُنھیں شامل کرنے کی کوشش کروں گا۔“ شارحینِ غالب کا تقابلی مطالعہ، ایوب شاہد کا تحقیقی مقالہ تھا، جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی تھی۔
ملک صاحب طویل عرصے تک درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ درسیات اور نصابیات پر اچھی نظر رکھتے تھے۔ 1999ء کی بات ہے، میرے دوست ملک محمد حسین مرحوم ادارۂ ”آفاق“ کے زیرِاہتمام پرائمری کے لیے مختلف مضامین کی درسی کتابیں تیار کروا رہے تھے۔ راقم کی تجویز پر چند مسوّدے ملک صاحب کو رائے اور مشورے کے لیے بھیجے گئے۔ ملک صاحب نے، حالانکہ ان دنوں آشوبِ چشم میں مبتلا تھے، مسوّدے دیکھے اور چند روز بعد ملک محمد حسین صاحب، راقم کے ہمراہ اُن کے ہاں گئے تو انھوں نے بہت ماہرانہ اور مفید مشورے دیے، میرے دوست مطمئن ہوگئے۔
دو تین سال سے ہماری ملاقاتیں بہت کم ہوگئی تھیں، البتہ فون پر علیک سلیک ہوجاتی تھی۔ میں اُن دنوں کو یاد کرتا ہوں جب وہ جمعے کو 3،4 بجے فون کیا کرتے تھے۔
12 فروری کو مَیں اسلام آباد میں تھا، ناشاد صاحب سے کہا: ”ملک صاحب سے ملنے کو جی چاہ رہا ہے۔ کیوں نا چلیں؟“ وہ کہنے لگے: ”اُن سے ملاقات تکلیف دہ ہوتی ہے کیونکہ اُن کی یادداشت زیادہ ہی خراب ہوگئی ہے۔ بعض اوقات پہچانتے بھی نہیں۔“ چنانچہ ہم نے پیر زئی جانے سے اجتناب کیا۔ تین روز بعد عشا کے وقت مہینوں بعد ڈاکٹر نذر عابد (شعبۂ اُردو، ہزارہ یونی ورسٹی) کا فون آیا کہ ملک صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔
اِنّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون
عالمِ بالا میں جب ہماری ملاقات ہوگی، ملک صاحب مجھے دیکھتے ہی پوچھیں گے:”آپ میرے لیے کوئی کتاب لائے؟“