ہم نہ جانے کس جہاں میں کھوگئے!
”ڈیجیٹل“ آلات کے”نشے“ سے کیسے نجات حاصل کی جائے
ہر ایجاد، دریافت اور اختراع اپنے ساتھ آسانی کے ساتھ مشکل بھی لاتی ہے۔ ہر معاملہ جتنا میٹھا ہوتا ہے اُتنا ہی کھٹّا بھی ہوتا ہے۔ یہ ہمیں طے کرنا ہے کہ مٹھاس کو زیادہ قبول کرنا ہے یا کھٹاس کو۔ آسانی کو گلے لگانے کی دُھن میں ہم بسا اوقات مشکل کو بھول جاتے ہیں۔ بازار میں جو کچھ بھی نیا آتا ہے وہ ہمارے لیے ہوتا ہے مگر توازن سے بروئے کار لائے جانے کی صورت میں۔ اگر ہم توازن کھو بیٹھیں، اعتدال کی راہ سے بھٹک جائیں تو سمجھیے بنے کام بھی بگڑتے دیر نہ لگے گی۔ ایسا کم و بیش ہر انسان کے معاملے میں ہے۔ جب بھی کسی چیز کو بے اعتدالی کے ساتھ بروئے کار لایا گیا ہے، خرابیاں ہی پیدا ہوئی ہیں۔
ہم خوش نصیب ہیں کہ جو کچھ انسان نے ڈھائی تین ہزار سال کے دوران فطری علوم و فنون کے حوالے سے سوچا اور کیا، اُس کا نقطۂ عروج دیکھنے ہی کو نہیں مل رہا بلکہ بروئے کار لانا بھی ممکن ہوا ہے۔ آج عام آدمی کو ایسی بہت سی سہولتیں میسر ہیں جو کبھی شہنشاہوں کو بھی میسر نہ تھیں۔ آج ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو محض دو سو سال پہلے تک جادو سمجھا جاتا تھا۔ زندگی کا کوئی ایک پہلو بھی فطری علوم و فنون کی فقیدالمثال پیش رفت کے اثرات سے مبرا نہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے ہی لیے ہے۔ ہم اپنے معاملات کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے جتن کرتے کرتے ایسی مشکلات کی راہ ہموار کر بیٹھے ہیں جو ہماری پوری زندگی پر محیط ہیں اور ہم اپنے ہی وجود کو محض تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں۔
ایک طرف آسانیاں بڑھ رہی ہیں اور دوسری طرف بے بسی۔ کوئی مانے یا نہ مانے، حقیقت یہ ہے کہ اصغرؔ گونڈوی کا کہا درست ثابت ہوا ہے ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں، زندگی دشوار ہو جائے!
آسانیوں کی بھرمار ہے اور مشکلات کا انبار ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم زندگی کو جس قدر سنبھالنا چاہتے ہیں وہ اُسی قدر بدکتی، پھسلتی اور ہاتھوں سے نکلتی جارہی ہے۔ قدم قدم پر ایسا بہت کچھ ہے جو زندگی کو سہل بنارہا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ہم سہل انگاری کا نمونہ بھی بنتے جارہے ہیں۔
ہم اِسی دنیا میں جی رہے ہیں مگر نہ جانے کس جہاں میں کھوگئے ہیں! سائبر اسپیس نے ہمیں نگل لیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجیز میں غیر معمولی پیش رفت نے ہمیں ہم سے یوں چھینا ہے کہ اب غلامی ترک نہیں ہو پارہی۔ معاملہ دن بہ دن محض شدت ہی اختیار کررہا ہے۔ وقت کا عجیب موڑ ہے کہ فاصلے مٹ گئے ہیں اور فاصلے ہی بڑھ بھی گئے ہیں۔ اپنے وجود کی حدود سے نکل کر دوسروں میں شامل ہونا، گُھلنا ملنا انسانی سرشت کا حصہ ہے کہ ہم معاشرتی حیوان ہیں۔ ہر دور کی طرح آج کا انسان بھی دوسروں میں گم رہنا چاہتا ہے، زیادہ سے زیادہ رابطے رکھنے کا شوقین ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ اِس کے لیے اختیار کیا جانے والا طریقہ خاموش زہر کا سا ہے۔ معاشرت کا یہ طریقہ غیر محسوس طور پر ہمیں کھا رہا ہے، اور ہمیں کیا، یہ تو زندگی ہی کو ڈکار رہا ہے۔
ابلاغیات میں حیرت انگیز پیش رفت نے ہمیں عجیب ہی مایا جال میں الجھا دیا ہے۔ ہر وقت دوسروں سے جُڑے رہنے کی سہولت کے نام پر آج کا انسان سیلولر فون ٹیکنالوجی کے شاہکار اسمارٹ فون کے پنجرے کا قیدی ہے۔ گھر کے تمام افراد اگر گھر میں ہوں تب بھی گھر میں نہیں ہوتے۔ سب اپنے اپنے اسمارٹ فون کی مدد سے سائبر اسپیس میں وقت گزار رہے ہوتے ہیں۔ کام سے ذرا سا فارغ ہوتے ہی لوگ اسمارٹ فون اٹھاکر سوشل میڈیا کی خطرناک رنگینیوں میں کھو جاتے ہیں۔ دنیا بھر کی پوسٹس دیکھنے اور اُن پر تبصرے جڑنے کی دُھن میں وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہر کام کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور متعین کرنا پڑتا ہے۔ اسمارٹ فون کے غیر معمولی استعمال کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد تو ہونا ہی چاہیے۔ طُرفہ تماشا، بلکہ المیہ ہے کہ اسمارٹ فون کی غلامی کا بظاہر کوئی مقصد نہیں۔ وقت کو قتل کرنے کی لاشعوری یا غیر محسوس کوشش کے سِوا اِسے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
پوری دیانت سے بتائیے کہ اسمارٹ فون کو بہت زیادہ وقت دینے کے بعد آپ کو افسوس ہوتا ہے یا نہیں؟ آپ کو یہ خیال آتا ہے یا نہیں کہ سوچے سمجھے بغیر اسمارٹ فون کو بہت زیادہ وقت دینے سے وقت اور ذہن دونوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے؟ ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ کمپیوٹر یا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر پر وقت ضایع کرنے کے بعد آپ کو افسوس نہیں ہوتا ہوگا۔ سبھی کو ہوتا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ اسمارٹ فون اور دیگر گیجیٹس کا غیر ضروری یا بہت زیادہ استعمال دردِ سر کے سوا کچھ نہیں۔ دلچسپ مشکل یہ ہے کہ ہم سب اسمارٹ فون کے پنجرے میں بخوشی قید ہیں۔ اِس قید کو قید تو سمجھتے ہیں مگر آزاد ہونے کے معاملے میں برائے نام بھی سنجیدہ نہیں۔ اسمارٹ فون کے ذریعے انٹرنیٹ کا ایسا چسکا لگا ہے کہ چُھوٹتا ہی نہیں۔ اسمارٹ فون کے بے لگام استعمال سے انسان مختلف ذہنی عوارض کا شکار ہوچکا ہے۔ آج کا انسان خام خیالی اور خوش فہمیوں کے پہلو بہ پہلو جی رہا ہے۔ یہ سب کچھ اسمارٹ فون اور سائبر اسپیس کا پیدا کردہ ہے۔ سائبر اسپیس یعنی وہ دنیا جو ابلاغ کے جدید ترین ذرائع کی پیدا کردہ ہے، نادیدہ ہے مگر ہمیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ حقیقت سے ہٹ کر پائی جانے والی اِس دنیا کو ورچوئل ورلڈ بھی کہا جاتا ہے۔ محسوسات پر اِس دنیا کے اثرات واضح ہیں۔ بالمشافہ ملاقات کے لطف کو نظرانداز کرکے لوگ ورچوئل ورلڈ یعنی حقیقت نما دنیا میں گم ہوگئے ہیں۔ کیفیت یہ ہے کہ اب اپنے ہی وجود سے بھی ملاقات نہیں ہو پاتی۔ سائبر اسپیس وہ چور ہے جو ہمارے وقت کی تجوری سے بہت کچھ اس طور چُراتا ہے کہ ہمیں عمومی سطح پر احساس تک نہیں ہو پاتا۔
ایک اچھی علامت یہ ہے کہ اب لوگوں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اسمارٹ فون کے ذریعے سائبر اسپیس یا ورچوئل ورلڈ میں زیادہ گم رہنا اپنے وجود کو ضایع کرنے کے مترادف ہے، اور یہ بھی کہ اس حوالے سے اصلاحِ احوال کی بھرپور کوشش ناگزیر ہے۔ دنیا بھر میں لوگوں نے اسمارٹ فون کا استعمال گھٹانے سے متعلق سوچنا بھی شروع کردیا ہے۔ نفسی امور کے ماہرین اسمارٹ فونز، سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کے بارے میں کہتے ہیں کہ چند بنیادی باتوں کو ذہن نشین رکھنا لازم ہے۔ کوئی یہ نہ بھولے کہ آئی ٹی کے شعبے کی پیش رفت انسان کے لیے نئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کچھ نیا آیا تو انسان اُس کا دیوانہ ہوا۔ جب ریڈیو ایجاد ہوا تھا تب بھی انسان حواس کھو بیٹھا، اور ٹیلی وژن کی ایجاد نے بھی انسان کو بے حواس کردیا تھا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان معاملات کو سمجھتا گیا، اپنے مزاج میں پیدا ہونے والی کجی دور کرتا گیا۔ اسمارٹ فون، سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کا بھی اس وقت عہدِ جُنوں ہے۔ عام آدمی کو اتنا کچھ مل گیا ہے کہ وہ سمجھ ہی نہیں پارہا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے! حقیقت یہ ہے کہ ہم انفارمیشن سے کہیں زیادہ اوور انفارمیشن کے عہد میں جی رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ جنون کا گراف گرے گا تو لوگوں کو محسوس ہوگا کہ سائبر اسپیس میں گم رہنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ دھیرے دھیرے سمجھ میں آتا جائے گا کہ اسمارٹ فون سے ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے، اور ایسا بہت کچھ ہے جو اسمارٹ فون سے بہتر اور اہم ہے۔ تب لوگ اپنے اپنے طریقے سے اسمارٹ فون کا استعمال کم کرتے جائیں گے۔
شدید نوعیت کی بے ذہنی کے ساتھ اسمارٹ فون کے غیر ضروری استعمال سے پیدا ہونے والی لَت پر قابو پانے کے لیے اختیار کیا جانے والا طریقہ ڈیجیٹل ڈیٹاکس کہلاتا ہے، یعنی ڈیجیٹل آلات کے نشے سے خود کو آزاد کرنا۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں تجربے شروع ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو اب واضح طور پر محسوس کررہے ہیں کہ اسمارٹ فون کی غلامی زندگی کو بے معنی بناتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر وقت دوسروں سے جُڑے رہنے کی ذہنیت کمزور پڑتی جارہی ہے۔ مختلف شعبوں کی نمایاں شخصیات کو اس بات کا بہت شدت سے احساس ہے کہ اسمارٹ فون کا زیادہ استعمال اُن کے لیے شدید خسارے کا سودا ثابت ہورہا ہے۔ وہ اپنے کام پر توجہ دے پاتے ہیں نہ زندگی پر۔ اس بگاڑ سے بچنے کے لیے انہوں نے طے کیا ہے کہ یومیہ بنیاد پر اسمارٹ فون کا استعمال گھٹادیا جائے۔ اُن کے لیے آنے والی کالز بھی اُن کے سیکریٹری ہی وصول کرتے ہیں اور صرف ضروری سمجھی جانے والی کالز اُن تک منتقل کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں لوگوں کو اس بات کا زیادہ شدت سے احساس ہے کہ اسمارٹ فون اُن کی زندگی میں عدم توازن پیدا کررہا ہے۔ وہاں ایسے کلب بھی بن چکے ہیں جن کے ارکان روزانہ بہت تھوڑے وقت کے لیے اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں اور ہفتے میں ایک یا دو دن تو اسمارٹ فون سے بالکل دور رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں عام آدمی کا یہ حال ہے کہ اسمارٹ فون میں جھانکے ہوئے دس پندرہ منٹ گزر جائیں تو بے چینی سی ہونے لگتی ہے۔ اگر سیل فون کہیں رکھ کر بھول جائیں یا کہیں چھوڑ آئیں تو ایسا لگتا ہے کہ باقی دنیا سے اب کوئی ربط ہی نہیں رہا، سب کچھ ویرانے میں تبدیل ہوچکا ہے! اگر ہر چار پانچ منٹ بعد کال کی گھنٹی یا ایس ایم ایس کی بیپ نہ آئے تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے سب ہمیں بھول گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ بھی اَپ لوڈ کرنے کے بعد یہ جاننے کی بے چینی سی رہتی ہے کہ کتنے لوگوں نے پسند کیا اور کتنوں نے رائے دی۔ سیل فون کی بیٹری ختم ہونے لگے تو لگتا ہے دنیا ہی ختم ہورہی ہے۔ اس حوالے سے نئی نسل کی بے حواسی قابلِ دید ہے۔ سیل فون کی بیٹری ختم ہونے سے دنیا ختم نہیں ہوجاتی۔ جب یہ سب کچھ نہیں تھا تب بھی دنیا چلتی رہتی تھی، کچھ بھی اٹکتا نہیں تھا۔ ذہنی امراض کے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ بامقصد انداز سے جینا چاہتے ہیں، کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اسمارٹ فون کو معقول انداز سے استعمال کرنا سیکھ لیجیے۔ اگر ایسا نہ کیا تو خرابیاں اتنی بڑھیں گی کہ زندگی ہی داؤ پر لگ جائے گی۔
لوگ اسمارٹ فون کے جس قدر عادی ہوچکے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے یہ بات کسی طور معقول نہیں لگتی کہ ایک جھٹکے میں اس عادت کو ختم کردیا جائے۔ ایسی صورت میں بگاڑ زیادہ بڑھے گا۔ اسمارٹ فون کے غیر ضروری استعمال کی لَت سے نجات مرحلہ وار حاصل کی جاسکتی ہے۔ طے کیجیے کہ آپ ہفتے میں ایک دن اسمارٹ فون سے دور رہیں گے۔ ناگزیر کالز سننے کے لیے عام سا فون رکھا جاسکتا ہے۔ ہفتہ وار تعطیل پر اسمارٹ فون سے دور رہ کر اہلِ خانہ کو وقت دیجیے۔ فی زمانہ یہ بھی دانش مندی کی ایک بڑی علامت ہے۔ اسمارٹ فون سے دور رہنے پر آپ اپنے لیے کچھ کرسکیں گے۔ یہ کیفیت آپ کو احساس دلائے گی کہ آپ کے پاس کتنا وقت ہے۔ اپنے حلقۂ احباب کو بھی بتادیجیے کہ فلاں دن آپ اسمارٹ فون سے دور رہیں گے۔ اور یہ بھی کہ اگر کوئی ضروری کام ہو تو براہِ راست کال کی جائے۔
ڈیجیٹل ڈیٹاکس سے متعلق گروپ اپنے ارکان کو اسمارٹ فون سے مرحلہ وار دور کرتے ہیں۔ اچانک پورا دن اسمارٹ فون کا استعمال ترک نہیں کیا جاسکتا۔ طے کیا جائے کہ پہلے صرف دو گھنٹے سوشل میڈیا پوسٹس یا انٹرنیٹ پر کچھ اور نہیں دیکھا جائے گا۔ پھر دورانیہ بڑھاتے جائیے۔ پھر جب آپ پورا پورا دن اسمارٹ فون سے دور رہیں گے تب الجھن محسوس نہیں ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھیے کہ جو وقت آپ نے اسمارٹ فون، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دیگر سائٹس کو نہیں دیا اُسے کس طور بروئے کار لائے۔ بچائے ہوئے وقت سے جو کچھ کیا اُس سے کچھ فائدہ پہنچا؟ اب ایسی ایپس بھی آچکی ہیں جو بتاتی ہیں کہ آپ نے دن بھر میں اسمارٹ فون کو کتنا وقت دیا۔ ڈیجیٹیل ڈیٹاکس کا تعلق صرف اسمارٹ فون سے نہیں۔ ٹیبلیٹ، لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کے معاملے میں بھی ڈیجیٹل ڈیٹاکس ناگزیر ہے۔ ہر طرح کی اسکرین سے کچھ دیر دور رہ کر فطرت کے نزدیک جانا اور اپنے آپ سے ملنا بھی بہت ضروری ہے۔
اسمارٹ فون کوئی بری چیز نہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجیز کے بے حساب فوائد ہیں۔ تیز رفتار رابطے کے لیے ٹیکنالوجی نعمت ہے۔ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی چیز کو ضرورت سے زیادہ یا بلا ضرورت استعمال کیا جائے۔ آج دنیا بھر میں ٹیکنالوجیز کو جس انداز سے بروئے کار لایا جارہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ انسان کے لیے وقت ہی سب کچھ ہے اور ٹیکنالوجیز نے وقت ہی کو ٹھکانے لگانا شروع کردیا ہے۔ آپ کو کچھ اندازہ ہے کہ محض ساٹھ سیکنڈ یعنی ایک منٹ میں دنیا بھر میں کیا ہوتا ہے؟ ایک منٹ میں واٹس ایپ پر کم و بیش سات کروڑ پیغامات بھیجے جاتے ہیں، سات لاکھ انسٹا گرام اسٹوریز اَپ لوڈ کی جاتی ہیں، پانچ ہزار ٹک ٹاک وڈیوز اَپ لوڈ اور ڈاؤن ہوتی ہیں، یوٹیوب پر 500 گھنٹوں کا مواد اَپ لوڈ کیا جاتا ہے، 19 کروڑ 70 لاکھ ای میلز بھیجی جاتی ہیں!
سائبر کرائمز اور سائبر اٹیک کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ آئی ٹی سے متعلق جرائم کی وارداتوں کو شمار کیا جاسکتا ہے مگر اُن کے اثرات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ انسان حقیقی زندگی سے دور ہوتا جارہا ہے، اپنے پیاروں کو نظرانداز کرکے اُن کی ناراضی مول لے رہا ہے۔ نئی نسل کو کسی نہ کسی طور وائرل ہونے اور سیلیبرٹی بننے کا شوق چَر آیا ہے۔ لوگ رات کو سونے سے قبل بھی موبائل ڈیٹا آف نہیں کرتے۔ ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ 33 فیصد لوگوں کا یہ حال ہے کہ اگر اُن سے اسمارٹ فون لے لیا جائے تو شدید بے حواس ہوجاتے ہیں۔ 70 فیصد نے بتایا کہ وہ رات کو سوتے وقت بھی اسمارٹ فون چیک کرتے ہیں۔ 44 فیصد افراد سونے سے پہلے اسمارٹ فون اِتنا نزدیک رکھتے ہیں کہ فوراً ہاتھ پہنچ جائے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اچھی نیند کے لیے ناگزیر ہے کہ سونے سے ایک گھنٹہ قبل اسمارٹ فون بند کردیا جائے یا اُس کا استعمال ترک کردیا جائے۔ آج بیشتر کو بیدار ہوتے ہی اسمارٹ فون میں جھانکنے کی عادت پڑچکی ہے۔ بس اتنا یاد رکھیے کہ اسمارٹ فون ہمارے لیے ہے، ہم اسمارٹ فون کے لیے نہیں۔ اگر آپ اسمارٹ فون کا استعمال نہیں گھٹائیں گے تو یہ آپ کے حواس پر سوار رہے گا۔ ہر انسان کو یہ سوچتے رہنا چاہیے کہ کہیں اسمارٹ فون نے مجھے تو اپنے بس میں نہیں کرلیا؟ اگر ایسا لگتا ہے تو آج سے، بلکہ ابھی سے احتیاط برتنا شروع کیجیے، موبائل فون کا استعمال کم کردیجیے۔
…………
(یہ مضمون احمد آباد (بھارت) کے روزنامہ ’’سندیش‘‘ کی 23 فروری 2022ء کی اشاعت میں ’’دوربین‘‘ کے مستقل عنوان کے تحت کرشن کانت انڈکٹ کے تجزیے کا ترجمہ ہے۔)