عیب کو بیان کرنا اور صاف گوئی سے کام لینا: فروخت کنندہ پر لازم ہے کہ وہ جس چیز کو بیچ رہا ہو اُس میں اگر کوئی عیب ہو تو اسے خریدار کے سامنے پوری امانت داری کے ساتھ بیان کردے اور کسی عیب کو مت چھپائے۔ رسول کریمؐ کا ارشاد ہے:
’’کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کوئی چیز فروخت کرے جب تک کہ اس کے عیبوں کو بیان نہ کردے، اور جو بھی اس کے عیبوں کو جانتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ انہیں خریداروں کے سامنے بیان کرے‘‘۔ (المستدرک: 2175)
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں:
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اور کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو عیب والی چیز فروخت کرے، سوائے اس کے کہ وہ اس عیب کو اس کے لیے بیان کردے‘‘۔ (ابن ماجۃ: 2246)
جھوٹی قسمیں کھانے سے پرہیز کرنا: سازو سامان بیچنے کے لیے گاہکوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھانا سنگین گناہ ہے۔ چنانچہ رسول اللہؐ کا ارشاد ہے:
’’جو آدمی (جھوٹی) قسم اٹھائے تاکہ اس کے ذریعے (کسی مسلمان کے) مال پر قبضہ کرلے، تو وہ اللہ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر بہت ناراض ہوگا‘‘۔(بخاری:2673)
ایک اور حدیث میں نبی کریمؐ کا ارشاد ہے:
’’تین قسم کے لوگوں سے اللہ قیامت کے روز نہ بات چیت کرے گا، نہ اُن کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا‘‘۔
آپؐ نے یہ الفاظ تین بار کہے۔
ابوذرؓ نے کہا: وہ یقیناً ذلیل و خوار ہوں گے اور خسارہ پائیں گے۔ اللہ کے رسول! وہ کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا:
’’اپنے تہبند کو نیچے لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا‘‘۔ (مسلم: 106)
نبی مکرمؐ نے فرمایا:
’’تجارت (اور خرید و فروخت) میں بہت زیادہ قسمیں کھانے سے بچو، کیوں کہ زیادہ قسمیں کھانے سے سودا تو بک جاتا ہے مگر برکت ختم ہوجاتی ہے‘‘۔ (مسلم: 1607، ابن ماجۃ: 2209)
رسول کریمؐ کا ایک اور ارشاد یوں ہے:
’’قسم سے سودا بک جاتا ہے جبکہ کمائی (کی برکت) مٹ جاتی ہے‘‘۔ (بخاری: 2087)
معاہدات اور اقرار کو پورا کرنا: دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح تجارتی معاملات میں بھی عہد و پیمان کی پاسداری کرنی چاہیے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! عہد پورے کرو‘‘۔ (المائدہ:1)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کا سوال ہوگا۔‘‘ (بنی اسرائیل: 34)
حدیثِ مبارکہ کے مطابق منافقین کی چار علامات میں سے ایک ’’وعدے کی خلاف ورزی کرنا‘‘ ہے۔
مزدور کی اجرت جلد ادا کریں: جائز کاموں پر کسی شخص کو اجرت پر رکھا جاسکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پھر انہوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گر جائے تو اس نے اسے سیدھا کردیا۔ کہا اگر آپ چاہتے تو ضرور اس پر کچھ اجرت لے لیتے‘‘۔ (الکہف: 77)
کام کی نوعیت اور اس کی اجرت پہلے متعین کرلینا ضروری ہے، نیز مزدوروں پر حتی الامکان آسانی پیدا کرنا قابلِ ستائش ہے اور نیک لوگوں کا شیوہ ہے، چنانچہ قرآن پاک میں ہے:
’’دونوں میں سے ایک نے کہا: اے میرے باپ! اسے اجرت پر رکھ لے، کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تُو اجرت پر رکھے، طاقتور، امانت دار ہی ہے۔ اس نے کہا: بے شک میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کردوں، اس (شرط) پر کہ تُو آٹھ سال میری مزدوری کرے گا، پھر اگر تُو دس پورے کردے تو وہ تیری طرف سے ہے اور میں نہیں چاہتا کہ تجھ پر مشقت ڈالوں، اگر اللہ نے چاہا تو یقینا ًتُو مجھے نیک لوگوں میں سے پائے گا‘‘ (القصص: 27-26)
محنت کشوں اور مزدوروں کو اُن کی مزدوری کام ختم ہوتے ہی یعنی بروقت ادا کردیں، چنانچہ ارشادِ نبویؐ ہے:
’’مزدور کو اُس کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو‘‘ (ابن ماجۃ: 2443)
نماز اور اللہ کے ذکر سے غافل نہ ہوں: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اُن لوگوں کی تعریف کی ہے جو تجارت اور خرید و فروخت میں مشغول رہتے ہوئے اللہ کے گھروں (مساجد) میں بھی جاتے ہیں، جہاں وہ صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، پانچ وقت کی نماز پابندی سے اور باجماعت ادا کرتے رہتے ہیں اور اپنے مال کی زکوٰۃ بھی دیتے رہتے ہیں۔ وہ قیامت کے روز اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کے احکام سے غافل نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا بہترین بدلہ بھی دے گا اور اپنے فضل و کرم سے مزید بھی عطا کرے گا، اور ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔ nn