فیک نیوز کا تماشہ اور آزادی اظہار کی آکسیجن

جو قومیں اپنے ملک کے جابروں اور آمروں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہیں وہ خارجی آمروں اور جابروں کا بھی مقابلہ نہیں کرپاتیں

عمران خان کی حکومت نے پیکا آرڈیننس کے ذریعے آزادیِ اظہار پر حملہ کرکے فوجی اور سول آمروں کی یاد تازہ کردی۔ اطلاعات کے مطابق صدرِ مملکت نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا ہے۔ یہ آرڈیننس صحافت اور آزادیِ اظہار کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی کے بارے میں مزید شکوک و شبہات پیدا کرنے والا ہے۔ اس سے میڈیا پر پہلے سے موجود قدغنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ آرڈیننس کا مقصد جعلی خبر یا ’’فیک نیوز‘‘ کی راہ روکنا بتایا گیا ہے۔ فیک نیوز کے الزام کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکے گا۔ آرڈیننس کے تحت کسی فرد کے تشخص پر حملے کی سزا تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے۔ تشخص کی تعریف میں فرد کے ساتھ ساتھ ایسوسی ایشن، ادارے، تنظیم اور اتھارٹی کو بھی شامل کیا گیا ہے، جس سے روزنامہ جنگ کراچی نے بجا طور پر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ فوج اور عدلیہ پر تنقید کی سزا پانچ سال ہوگی (روزنامہ جنگ کراچی، 20 فروری 2022ء)۔ اس آرڈیننس نے بجاطور پر معاشرے میں زبردست ردعمل پیدا کیا ہے۔ اس آرڈیننس کو نہ صرف یہ کہ حزبِ اختلاف کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں نے مسترد کردیا ہے، بلکہ خود اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے پیکا کو موجودہ حالت میں ایک کالا قانون یا Draconion Law قرار دیا ہے۔ معاشرے کے مختلف طبقات نے پیکا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کردیا ہے۔ اس آرڈیننس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے، جہاں مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دھمکی ہے کہ آزادیِ رائے کی کوئی آزادی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت ہرگز بھی اسے برداشت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کو ’’روگ ایجنسی‘‘ نہیں بننے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کیوں نا پیکا قانون کی شق 21 ختم کردیں۔ مقدمے کی سماعت کے دوسرے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا قانون کی دفعہ 20 کے تحت ایف آئی اے کو براہِ راست گرفتاریوں سے روکتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر ایس او پیز پر عمل نہ ہوا تو ڈی جی ایف آئی اے اور سیکریٹری داخلہ ذمے دار ہوں گے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عوامی نمائندوں کے لیے ہتک عزت کا قانون ہونا ہی نہیں چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ زمبابوے اور یوگینڈا بھی اس قانون کو ’’ڈی کرمنلائز‘‘ کرچکے۔ جسٹس صاحب نے کہا کہ کسی فرد کی ساکھ کا تحفظ آزادیِ اظہار کے حق سے ختم نہیں ہو سکتا۔ پیکا کے قانون کا مستقبل کیا ہے اس حوالے سے کچھ بھی کہنا دشوار ہے۔معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت کا فیصلہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس کو معیار بنایا جائے تو حکومت بجا طور پر مشکل میں ہے۔

بلاشبہ جعلی خبر یا ’’فیک نیوز‘‘ ایک بہت بڑا تماشا ہے اور اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ جعلی خبر سے معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلتا ہے، اور اسلام نے فتنے کو قتل سے بھی زیادہ اشد قرار دیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران خود فیک نیوز کے تماشے میں ملوث ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ تبدیلی یا انقلاب کی سیاست کررہے ہیں۔ مگر انتخابات سے ذرا پہلے انہوں نے روزنامہ ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ وہ سرمائے کی سیاست بھی کریں گے اور Electables کی سیاست بھی کریں گے۔ اور بلاشبہ انہوں نے سرمائے کی سیاست بھی کی اور Electables کی سیاست بھی کی۔ اس کے نتیجے میں وہ ملک کے وزیراعظم تو بن گئے مگر ’’تبدیلی‘‘ یا ’’انقلاب‘‘ سے متعلق ان کا نعرہ اور دعویٰ ’’فیک نیوز‘‘ بن کر سامنے آگیا۔ اس لیے کہ سرمائے اور Electables کی سیاست Status Quo کی سیاست ہے۔ حالات کو جوں کا توں رکھنے کی سیاست ہے۔ تو کیوں نا اس فیک نیوز کے حوالے سے عمران خان کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا جائے؟ ایک وقت تھا کہ عمران خان کہا کرتے تھے: میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کرنا پسند کروں گا۔ اب وہ جب سے اقتدار میں آئے ہیں، آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ کیے پڑے ہیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف سے متعلق ان کا پہلا بیان اپنی اصل میں ایک ’’فیک نیوز‘‘ تھا۔ کیوں نا کوئی عدالت پیکا کے قانون کے تحت عمران خان کی اس فیک نیوز کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں اپنے روبرو طلب کرلے؟ عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں مسلسل کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنا کر دم لیں گے، لیکن عمران خان کو اقتدار میں آئے ہوئے ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں، اس عرصے میں انہوں نے ریاست مدینہ کی طرف ایک انچ بھی قدم نہیں بڑھائے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں ریاست مدینہ کی الف ب بھی معلوم نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ریاست مدینہ کے سلسلے میں عمران خان کا مؤقف بھی ایک ہولناک فیک نیوز ہے اور اس سلسلے میں کسی شخص کو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔ لیکن فیک نیوز کا مسئلہ صرف عمران خان سے متعلق نہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق پاکستان کو مشرف بہ اسلام کرنے کا دعویٰ کرتے تھے، مگر ان کے دعوے اور عمل میں گہرا تضاد موجود تھا۔ انہوں نے ملک میں غیر سودی بینکاری متعارف کرائی جو صرف نام ہی کی اسلامی تھی، ورنہ اس کی پشت پر سودی کاروبار چل رہا تھا۔ انہوں نے ملک کے قانون اور عدالتی نظام پر اسلام کو غالب کرکے نہ دکھایا۔ انہوں نے تعلیمی نظام میں صرف اسلامیات کو متعارف کراکے نظامِ تعلیم کے اسلامی ہونے کا تاثر تخلیق کیا۔ اس اعتبار سے جنرل ضیاء الحق کا اسلام ایک ’’فیک نیوز‘‘ تھا۔ جنرل ضیاء الحق سے پہلے بھٹو صاحب نعرہ لگایا کرتے تھے کہ ’’اسلام ہمارا دین ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے اور جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘۔ مگر بھٹو صاحب نے نہ اسلام کے دین ہونے کے تقاضے پورے کیے، نہ معیشت کو سوشلسٹ ماڈل پر کھڑا کیا، اور نہ انہوں نے کبھی خود جمہوری بن کر دکھایا نہ پیپلزپارٹی میں جمہوریت کو داخل ہونے دیا۔ چنانچہ بھٹو صاحب کا مذکورہ بالا نعرہ ایک ’’فیک نیوز‘‘ تھا۔ جنرل پرویزمشرف نے نائن الیون کے بعد ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ لیکن یہ نعرہ محض ایک دھوکے کی ٹٹّی یا Smoke screen تھا۔ اصل کھیل یہ تھا کہ جنرل پرویزمشرف نے ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ انہوں نے ایک دھمکی پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا تھا۔ اس سے ملک میں خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہوگئی، اور یہ خانہ جنگی 70 ہزار لوگوں کو نگل گئی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ ایک ’’فیک نیوز‘‘ تھا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں نوازشریف نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا، لیکن اُن کا یہ نعرہ ایک مکر تھا، ایک فریب تھا۔ میاں صاحب اگر جمہوری ہوتے یعنی حقیقی معنوں میں ووٹ کی عزت کرنے والے ہوتے تو نواز لیگ آج ایک جمہوری پارٹی ہوتی۔ وہ شریف خاندان کی رکھیل کا کردار ادا نہ کررہی ہوتی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ ایک ’’فیک نیوز‘‘ تھا۔

آزادیِ اظہار ہر ملک اور ہر معاشرے کی ضرورت ہے، مگر پاکستان کے لیے تو آزادیِ اظہار آکسیجن کی طرح اہم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک عظیم آدرش یعنی اسلام کے لیے وجود میں آیا تھا۔ چنانچہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بن کر ابھرنا تھا۔ قائداعظم نے کہا تھا: پاکستان بن گیا ہے اور انسانی روح اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے آزاد ہوگئی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے جرنیلوں، سیاست دانوں، دانش وروں اور صحافیوں نے پاکستان کے عظیم آدرش یا Ideal سے وفا کرکے نہ دکھائی۔ پاکستان کی تخلیق میں جرنیلوں یا فوج کے ادارے کا کوئی کردار نہ تھا، اس لیے کہ 1940ء سے 1947ء تک کوئی فوج موجود ہی نہ تھی، مگر بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد جرنیل پاکستان کے مائی باپ بن کر کھڑے ہوگئے۔ چنانچہ جرنیلوں پر تنقید پاکستان کی بقا و سلامتی اور معاشرے کی قوتِ مزاحمت کو بیدار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں سے رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو باور کرا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک تباہ کردیں گے لیکن جنرل ایوب کے بقول فوج انہیں ہرگز بھی ایسا نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب کی یہ ’’امریکہ پرستی‘‘ ہماری قومی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے اور اس پر تنقید ہر دور کی ضرورت ہے تاکہ ہماری نئی نسلوں تک قومی تاریخ کا حقیقی شعور منتقل ہوسکے۔

یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ملک کی بقا و سلامتی اور دفاع کے لیے وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ مشرقی پاکستان میں حالات مخدوش ہوگئے تو جنرل نیازی نے قوم کو بتایا کہ بھارتی فوجی ان کی لاش سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوسکتے ہیں۔ مگر جب بھارتی فوجی ڈھاکا میں داخل ہورہے تھے تو جنرل نیازی کی لاش کہیں موجود نہ تھی، اس لیے کہ جنرل نیازی زندہ تھے اور بھارتی جنرل کو فحش لطیفے سنا رہے تھے۔ جنرل یحییٰ خان نے سقوطِ ڈھاکا سے دس پندرہ روز پہلے ہی قوم سے خطاب کیا تھا اور یقین دلایا تھا کہ قوم کو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ قوم کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ مگر جب ہمارے 90 ہزار فوجی بھارت کے آگے نہایت شرمناک طریقے سے ہتھیار ڈال رہے تھے تو مضبوط ہاتھ کہیں موجود نہ تھے اور حالات ثابت کررہے تھے کہ ہمارا دفاع نہایت کمزور ہاتھوں میں تھا۔

یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ملک کے سیاسی اور انتخابی نظام کو ایک مذاق بنادیا ہے۔ منتخب صرف وہی ہوتا ہے جسے اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ پرتنقید ایک بہت بڑی قومی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مقدس صرف ملک کا نظریہ ہے، باقی کوئی شخص، ادارہ یا تنظیم تنقید سے بالاتر نہیں، لیکن تنقید اُسی وقت ہوگی جب ملک میں آزادیِ اظہار ہوگی۔ اسی لیے ہم نے یہ عرض کیا ہے کہ آزادیِ اظہار ہر معاشرے کی ضرورت ہے مگر پاکستان میں آزادیِ اظہار آکسیجن کی طرح اہم ہے۔ آکسیجن ہوگی تو فرد اور معاشرہ زندہ رہے گا۔ آکسیجن نہیں ہوگی تو نہ فرد باقی رہے گا نہ معاشرہ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو قومیں اپنے ملک کے جابروں اور آمروں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہیں وہ خارجی آمروں اور جابروں کا بھی مقابلہ نہیں کرپاتیں۔ انسان کی شخصیت ایک اکائی ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ ایک جگہ انسان ہتھیار ڈال دے تو دوسری جگہ مزاحمت کرے… اور ایک جگہ مزاحمت کرے تو دوسری جگہ ہتھیار ڈال دے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو آزادیِ اظہار پر حملہ دراصل معاشرے کی بقا و سلامتی پر حملہ ہے۔
اقبال نے کہا تھا:
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی
بلاشبہ زندگی ایک سمندر ہے مگر غلامی اسے ایک گٹر بنا دیتی ہے۔ میلان کنڈیرانے کہیں کہا ہے کہ ’’جبر کے خلاف انسان کی جدوجہد بھول کے خلاف یاد کی جدوجہد ہے‘‘ اور یہ بات سو فیصد درست ہے۔