”مہذب قوتوں“ کی وعدہ خلافی اور اخلاقی دیوالیہ پن بے نقاب
امن مذاکرات کے ساتھ روس اور یوکرین کے مابین خونریز لڑائی جاری ہے۔ پیر 28 فروری کو امن بات چیت کا پہلا مرحلہ ملاقات جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ ختم ہوگیا۔ جو کچھ مشرقی یورپ میں اِس وقت ہورہا ہے اسے جنگ کے بجائے وحشت و درندگی کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بے اماں یوکرینیوں پر آسمان سے آگ و آہن کی بارش ہورہی ہے۔ شہری ٹھکانے، مواصلاتی نظام، اسکول، ہسپتال اور آب نوشی کے ذخائر کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ خون جمادینے والی سردی میں لاکھوں افراد پناہ کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ بمباری کی وجہ سے سڑکیں تباہ اور پُل گِرگئے ہیں۔ چیختے سائرن اور طیاروں کی گھن گرج میں دہشت زدہ بچوں کو سینے سے لگائے خواتین مغرب کی طرف پیدل نکل پڑی ہیں کہ شاید پولینڈ میں پناہ مل جائے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 6 لاکھ یوکرینی پولینڈ میں پناہ گزیں ہیں۔ وہ کمزور افراد جو اتنے لمبے سفر کی قوت و استطاعت نہیں رکھتے، ملک کے اندر ہی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اس قسم کے لوگوں کو IDPکہتی ہے۔
عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ25 فروری کی صبح تک روس 250 تباہ کن میزائل داغ چکا ہے۔ یوکرینی وزارتِ صحت کے مطابق حملے کے پہلے 24 گھنٹوں میں 137 یوکرینی شہری ہلاک ہوئے جن میں کئی شیرخوار بچے بھی ہیں۔
روس کے پاس ایک آزادو خودمختار ملک پر حملے اور شہری آبادی کو تاراج و بے گھر کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس بدامنی کی بنیادی وجہ، دنیا میں اپنا اقتدارو اختیار مسلط کرنے کی شیطانی خواہش اور دوسری اقوام کے قدرتی وسائل پر قبضے کی ہوس ہے۔ اس مرحلے پر اس تنازعے کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے چند سطور:
سوویت یونین (USSR)کی تحلیل سے پہلے یورپ کو مشرق و مغرب میں تقسیم کرنے والی نظریاتی سرحد دیوارِ برلن تھی۔ سیاسی جغرافیے کی رو سے اس دیوار کے مشرق میں روس تک کا علاقہ مشرقی یورپ اور اس کا دوسرا رخ مغربی یورپ کہلاتا تھا جو امریکہ کی قیادت میں قائم ہونے والے نیٹو (NATO) اتحاد کے رکن ممالک پر مشتمل تھا۔ روس کے مشرقی یورپی اتحادی نیٹو کے انداز میں معاہدئہ وارسا (Warsaw Pact) کے تحت منظم تھے۔ مشرقی بلاک کی سرحدیں سوویت یونین کی ریاستوں بیلورشین سوشلسٹ ریپبلک اور یوکرین سوشلسٹ ریپبلک سے ملتی تھیں۔
افغانستان سے پسپائی کے بعد گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں سوویت یونین کی شکست و ریخت کا آغاز ہوا۔ وسط ایشیا کی سوویت ریاستوں نے آزادی کا اعلان کردیا اور اسی کے ساتھ یورپ کی رشین سوشلسٹ ریپبلک، بلارشین سوشلسٹ ریپبلک اور یوکرین سوشلسٹ ریپبلک بھی بالترتیب روس، بلارُس اور یوکرین کے نام سے خودمختار ملک بن گئے۔ سوویت یونین کے خاتمے پر فلسفہِ کمیونزم غیر مؤثر اور وارسا معاہدہ معدوم ہوگیا اور جلد ہی مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک نہ صرف آزادانہ تجارت کی راہ پر گامزن ہوئے بلکہ حفاظت کے لیے یہ ریاستیں نیٹو کی چھتری تلے آگئیں۔
نظریاتی تبدیلی سے یورپ کا سیاسی جغرافیہ یکسر بدل گیا اور اب نیٹو کی سرحد دیوارِ برلن سے گیارہ سو کلومیٹر مشرق کی جانب بلارُس اور یوکرین تک آگئی، یا یوں کہیے کہ بلارُس اور یوکرین نے روس اور نیٹو کے درمیان حائلی یا Bufferریاستوں کی شکل اختیار کرلی۔
اس نظریاتی تبدیلی سے بحرِ اسود بھی نیٹو کے ”نرغے میں آگیا۔ مغربی اور جنوبی روس کے لیے بحراسود کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ اس سمندر کے مغربی ساحل پر رومانیہ اور بلغاریہ ہیں تو جنوب میں ترکی۔ بحر اسود کا بڑا حصہ یوکرین سے لگتا ہے اور اس کے مراسم روس سے اس حد تک دوستانہ تھے کہ حفاظت کی تحریری ضمانت پر یوکرین اپنا جوہری پروگرام ختم کرکے تمام ایٹمی ہتھیار کریملن کے حوالے کرچکا ہے۔ اس ضمن میں بدترین وعدہ خلافی کی تفصیل آگے آئے گی۔
یوکرین اور روس کے تعلقات بہت عرصہ بہتر رہے، لیکن روسیوں اور تاتاروں کی صدیوں پرانی چپقلش کے ساتھ جزیرہ نمائے کریمیا اور اس سے متصل بحر اسود کی تہوں میں مدفون تیل و گیس کے بھاری ذخائر سے ماسکو کی نیت میں فتور پیدا ہوگیا۔ دس ہزار مربع میل رقبے پر مشتمل یہ علاقہ بحر اسود اور بحر ازاق سے گھرا ہوا ہے اور تین میل لمبی ایک تنگ سی خشک پٹی اسے یوکرین سے ملاتی ہے۔
فروری 2014ء میں روس نے کریمیا پر قبضہ کرلیا اور ہزاروں تاتار، قازقستان کی طرف دھکیل دیے گئے۔ جلد ہی ایک ریفرنڈم کے ذریعے کریمیا کو رشین فیڈریشن میں ضم کرلیا گیا۔ اسی کے ساتھ روسی خفیہ فوج نے مشرقی یوکرین کے دو اوبلاسٹ (صوبوں) یعنی دونیسک اور لوہانسک میں مقامی حکومتوں کو مفلوج کردیا۔ جلد ہی روس نواز باغیوں نے ان صوبوں کے کچھ علاقوں میں آزاد ریاست قائم کرلی اور یہاں بھی کریمیا کے انداز میں ریفرنڈم کے ذریعے اس کی توثیق کرا لی گئی۔ تاہم ان ریاستوں کو روس سمیت کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ دنبس (Donbas)کے نام سے مشہور یہ زرخیز علاقہ گندم، جو اور مکئی کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔
کریمیا اور دو مشرقی صوبے کھودینے کے بعد یوکرینی قیادت کو احساس ہوا کہ مستقبل میں روس کی چیرہ دستیوں سے بچنے کے لیے ایک مضبوط سہارے کی ضرورت ہے، چنانچہ نیٹو سے سلام و پیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ زرعی اجناس، معدنیات اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کے اعتبار سے یوکرین ایک مالامال ملک ہے، یعنی اس طرف ہے گرم خون اور ان کو عاشق کی تلاش۔ چنانچہ نیٹو نے یوکرین کی خواہش کا مثبت جواب دیا۔
یہ صورت حال روس کے لیے ناقابلِ قبول تھی۔ اس وقت تو یوکرین روس اور نیٹو کے درمیان حائل ہے، لیکن نیٹو کا رکن بن جانے کی صورت میں امریکہ نواز اتحاد، روس کی دہلیز تک آجائے گا۔ صدر پیوٹن نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ کسی صورت نیٹو کو اپنی سرحدوں کے قریب نہیں آنے دیں گے۔
اگر دیکھا جائے تو روس کا یہ خدشہ بے بنیاد بھی نہیں۔ اس ضمن میں معروف امریکی سیاست دان اور امریکی سینیٹ کے رکن برنی سینڈرز نے اپنی حکومت کو یاد دلایا کہ سابق صدر کینیڈی نے کیوبا میں روسی میزائل کی تنصیب کو ناقابلِ قبول قرار دیا تھا اور اس حوالے سے واشنگٹن کا مؤقف اتنا غیر لچک دار تھا کہ 1962ء میں امریکہ اور روس کے مابین خوفناک جوہری جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ کیوبا تو امریکہ سے 90 میل کے فاصلے پر ہے جبکہ یوکرین کی سرحدیں روس سے ملی ہوئی ہیں۔
زبانی گولہ باری اور دھمکیوں کے بعد 24 فروری کو روس نے اپنے حملے کا آغاز مشرقی یوکرین سے کیا اور ڈنبس کے دونوں صوبوں پر قبضہ کرکے انھیں آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا۔
یوکرینی تنازعے کا سب سے نمایاں پہلو جھوٹ و افترا ہے۔ صدر پیوٹن مسلسل کہتے رہے کہ ان کا فوج کشی کا کوئی ارادہ نہیں اور سرحد پر عسکری سرگرمیاں فوجی مشقوں کا حصہ ہیں۔ حتیٰ کہ فوجی کارروائی کے آغاز پر بھی صدر پیوٹن نے اسے جنگ کے بجائے محدود عسکری کارروائی یا Limited Operation کہا جس کی درخواست بقول اُن کے، ڈنبس کے لوگوں نے کی تھی۔ قوم سے اپنے خطاب میں روسی صدر نے کہا کہ ڈنبس کے لوگوں کو وفاقی حکومت کی جانب سے نسل کُشی کا خطرہ تھا جس کی وجہ سے انھوں نے اپنے روسی بھائیوں کو مدد کے لیے پکارا۔ جلد ہی سارے یوکرین کو روسی فضائیہ نے اپنے نشانے پر رکھ لیا اور برّی افواج نے مشرق اور شمال کی جانب سے تیز رفتاری پیش قدمی شروع کردی۔ صدر پیوٹن نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کو غیر مسلح اور ”نازی عزائم“ سے پاک کرنا ان کی عسکری مہم کا حصہ ہے۔
اگلے دن بحر اسود کی سب سے بڑی بندرگاہ اوڈیسا پر روسیوں نے قبضہ کرکے جنوب کی جانب سے بھی آگے بڑھنا شروع کردیا، اور روسی بمباروں نے دوسری بندرگاہ خیرسن کو عارضی طور پر ناکارہ کردیا۔ اوڈیسا پر قبضے اور خیرسن کو ناقابلِ مرمت نقصان پہنچا کر یوکرین کی سمندر تک رسائی مسدود کردی گئی۔
تادمِ تحریر خونریز جنگ جاری ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس جنگ میں کون فاتح رہے گا اور کس کو شکست کی ذلت برداشت کرنی ہوگی، لیکن غیر جانب دار عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ ”ننھی“ سی یوکرینی فوج شدید مزاحمت کررہی ہے۔ حملے کے آغاز پر کہا جارہا تھا کہ 25 فروری تک دارالحکومت کیف روسیوں کے قبضے میں آجائے گا، لیکن اپنے دارالحکومت پر یوکرینی فوج کی گرفت ہنوز بہت مضبوط ہے۔ مذاکرات پر صدر پیوٹن کی آمادگی سے بھی اندازہ ہورہا ہے کہ میدانِ جنگ کی کامرانیاں ان کی توقعات سے کم ہیں۔ اس سے پہلے صدر پیوٹن بات چیت کے لیے ہتھیار ڈالنے پر اصرار کررہے تھے۔ جنگ کے متوقع نتائج اور دنیا پر اس کے اثرات کے بارے میں گفتگو اِن شااللہ آئندہ نشست میں۔
جنگ کی وجہ سے ایندھن اور اناج کی قیمتوں میں اضافے نے دنیا بھر کے غریبوں کو جس مشکل میں مبتلا کردیا ہے اس کا ماتم اپنی جگہ، لیکن اس جنگ نے ”مہذب قوتوں“ کی وعدہ خلافی اور اخلاقی دیوالیہ پن کو جس بے رحمی سے بے نقاب کیا ہے اس کا ذکر قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔
جب 1991ء میں یوکرین نے آزاد ریاست کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا اُس وقت نہ صرف سوویت دور کی جوہری تنصیبات وہاں موجود تھیں بلکہ بھاری مقدار میں ایٹمی اسلحہ بھی یوکرینی فوج کے ہاتھ لگ گیا۔ دنیا کے پانچ بڑوں کو جوہری ہتھیاروں پر سخت تشویش تھی، لہٰذا یوکرین پر زور دیا گیا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرکے جوہری ہتھیار سے دست بردار ہوجائے۔ ایسی ہی ”تلقین“ قازقستان اور بلارُس کو بھی کی گئی، جن کے پاس سوویت دور کے جوہری ہتھیار موجود تھے۔ تاہم تینوں ہی اپنے سلامتی کے خوف سے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے پر تیار نہ تھے۔
ان ملکوں کے خدشات دور کرنے کے لیے دفاع اور تعاون کی یورپی تنظیم OSCEکے بینر تلے ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں ایک اجلاس ہوا، جہاں سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان نے یقین دلایا کہ اگر یوکرین، قازقستان اور بیلارُس اپنے جوہری پروگرام ختم کردیں تو برطانیہ، روس اور امریکہ اُن کے تحٖفظ اور سلامتی کے ذمے دار ہوں گے۔ طویل مذاکرات کے بعد 5 دسمبر 1994ء کو ضمانتِ تحفظ کی ایک یادداشت پر دستخط ہوئے جسے Budapest Memorandum on Security Assuranceکہا جاتا ہے۔ اس 6 نکاتی یادداشت میں برطانیہ، روس اور امریکہ نے بہت صراحت کے ساتھ ضمانت دی کہ اگر قازقستان، یوکرین اور بیلارُس اپنا جوہری پروگرام ختم کرکے ایٹمی اسلحہ روس کے حوالے کردیں تو:
1۔بیلارُس، قازقستان اور یوکرین کی سلامتی، خودمختاری اور سرحدوں کا مکمل احترام کیا جائے گا۔
2۔بیلارُس، قازقستان اور یوکرین کو دھمکی یا ان کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے گا۔
3۔بیلارُس، قازقستان اور یوکرین کے خلاف کسی قسم کی معاشی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔
4۔بیلارُس، قازقستان اور یوکرین کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے گریز کیا جائے گا۔
5۔اگر یہ ملک دھمکی یا طاقت کا نشانہ بنے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ان کے دفاع کی ذمے دار ہوگی۔
6۔اگر اس عہد سے متعلق کبھی کوئی شک یا ابہام پیدا ہوا تو تینوں ضامن مشورے کے بعد ان ملکوں کو اعتماد میں لیں گے۔
اس تحریری معاہدے کے باوجود 2014ء میں روس نے کریمیا اور یوکرین کے دو مشرقی صوبوں کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا، یعنی ایک ضامن نے خود ہی معاہدے کو ہوا میں اڑا دیا، اور دوسرے ضامنوں سمیت ساری دنیا خاموش رہی۔ اب ایک بار پھر بے اماں یوکرینی روسی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اگر یوکرین کے پاس جوہری ہتھیار ہوتے تو اس کے عوام اس بے بسی کے عالم میں نہ مارے جاتے۔ بھولی یوکرینی قیادت نے ”بھیڑیوں“ کو معصوم سمجھنے کی مجرمانہ غلطی کا ارتکاب کیا جس کی قیمت آج ساڑھے چار کروڑ یوکرینی ادا کررہے ہیں۔
اس یادادشت پر روس کے سابق صدر بورس یلسن، امریکی صدر بل کلنٹن، اور برطانیہ کے وزیراعظم جان میجر نے دستخط کیے تھے۔ ان میں سے بورس یلسن آنجہانی ہوچکے لیکن جان میجر اور بل کلنٹن اب بھی حیات ہیں۔ اپنے دستخطوں سے جاری ہونے والی ضمانت کی دھجیاں بکھرتی دیکھ کر انھیں ذرا شرم نہ آئی۔
سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان کی جانب سے وعدہ خلافی کی اس سنگین واردات کے بعد دنیا، خاص طور سے ایران اور شمالی کوریا عالمی ادارے کی یقین دہانیوں پر کیسے اعتماد کرسکتے ہیں!
………………….
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔