آئیں ایک کوئز سے شروع کرتے ہیں، صرف دو سوال ہیں۔
سوال اول: ان میں سے کون زیادہ توانائی کا حامل ہے؟
الف: ایک گیلن گیسولین
ب:ڈائنامائٹ اسٹک
ج:دستی بم
سوال دوم: ان میں سے کون امریکہ میں سب سے سستا دستیاب ہے؟
الف: ایک گیلن دودھ
ب:ایک گیلن کینو کا رس
ج:ایک گیلن گیسولین
درست جواب الف اور ج ہیں: گیسولین۔ یہ حیرت انگیز توانائی کی حامل ہوتی ہے۔ ایک سو تیس ڈائنامائٹ اسٹک مل کر ایک گیلن گیسولین کے برابر توانائی پیدا کرتی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ڈائنامائٹ اپنی ساری توانائی بہ یک وقت خارج کردیتا ہے، جبکہ گیسولین دھیرے دھیرے جلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم گاڑیوں میں ڈائنامائٹ اسٹک کے بجائے گیسولین استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ میں گیسولین نسبتاً بہت سستی ہے، کم کم ہی گیس اسٹیشن پر رکنے کی زحمت کرنی پڑتی ہے۔
گیسولین کے بارے میں یہ دو حقیقتیں ذہن نشین کرلیں کہ یہ سستا ہے اور توانائی سے بھرپورہے۔ ہم اس پرخرچ کیے جانے والے ایک ایک ڈالرکی توانائی محسوس کرتے ہیں، گیسولین سونا ہے۔ مماثل پراڈکٹس جیسے ڈیزل اور جیٹ فیول، کوئی بھی دوسرا ذریعۂ توانائی گیسولین جتنا سستا اور دستیاب نہیں۔ فی یونٹ توانائی اور فی ڈالر استعمال کے جڑواں تصورات یہاں بہت اہم ہیں۔ ہمیں ان کی مدد سے کاربن کے خاتمے کی راہیں نکالنی ہوں گی، اس سے ہم پر ٹرانسپورٹیشن کا سارا نظام واضح ہوگا۔ جیسا کہ کوئی شبہ نہیں کہ ہماری گاڑیوں، جہازوں اور طیاروں میں جلتا تیل عالمی کاربن اخراج میں بھرپور حصہ ڈالتا ہے، عالمی حدت کا سبب بنتا ہے۔ صفر کاربن تک پہنچنے کے لیے ہمیں اس تیل کی جگہ کوئی دوسرا ذریعۂ توانائی تلاش کرنا ہوگا۔ ایسا ذریعۂ توانائی جو طاقت ور اور سستا ہو۔
شاید آپ کو تعجب ہو کہ میں ٹرانسپورٹیشن کا ذکر ساتویں باب پر پہنچ کرکررہا ہوں، حالانکہ یہ عالمی کاربن اخراج کا سولہ فیصد بنتا ہے۔ اس کا درجہ چوتھا بنتا ہے۔ جب مجھے یہ علم ہوا تو میں خود بھی متعجب ہوا۔ یہی عام تاثر ہے کہ بدلتے موسم میں فیول کے استعمال کا بڑا ہاتھ ہے۔ بجلی بنانے کے لیے کوئلے کا جلایا جانا، گاڑیاں چلانا، اور جہاز اڑانا بہت کاربن خارج کرتا ہے۔
مگر یہ الجھن قابلِ فہم ہے۔ اگرچہ ٹرانسپورٹیشن دنیا بھر میں اخراجِ کاربن کا سب سے بڑا ذریعہ نہیں ہے، مگر امریکہ میں یہی نمبر ون ہے۔ امریکی بہت زیادہ ڈرائیوکرتے ہیں، بہت زیادہ اڑان بھرتے ہیں۔ بہرصورت، ہمیں صفر کاربن تک پہنچنا ہے۔ ہمیں ساری گرین ہاؤس گیسوں سے جان چھڑانی ہے۔ خواہ یہ امریکہ اور دنیا بھر میں ٹرانسپورٹیشن کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔
یہ کتنا مشکل ہوگا؟ بہت مشکل ہوگا، مگر یہ ناممکن نہیں
انسانی تاریخ کی ابتدا میں 99.9 فیصد، ہم نے قدرتی ایندھن کے بغیر زندگی بسر کی۔ ہم پیدل چلے، جانوروں پر سواری کی، اور پانیوں میں کشتیاں اتاریں۔ انیسویں صدی کے اوائل میں ہم لوکوموٹو اور اسٹیم بوٹ استعمال کرنے لگے، یہ کوئلے کی مدد سے ہوا۔ پھرہم نے پلٹ کرنہیں دیکھا۔ صدی بھرمیں ریل گاڑیاں براعظموں کے درمیان دوڑنے لگی تھیں، اور پانی کے جہاز لوگوں اور مصنوعات کو سمندر پار پہنچانے لگے۔ گیس سے چلنے والی گاڑیاں سڑکوں پرآئیں، یہ بیسویں صدی کا زمانہ تھا۔اس کے بعد کمرشل پروازیں فضاؤں میں اڑان بھرنے لگیں، یہ آج کی معیشت کا جزوِ لاینفک بن گیا۔ گوکہ ہمیں دوسوسال بیت گئے کہ جب ہم نے پہلی بار قدرتی ایندھن جلایا تھا، ہم اب بھی اس پر مکمل انحصار کررہے ہیں۔ اگر کوئی سستا متبادل ذریعۂ توانائی بہم نہ پہنچایا گیا تو ہم قدرتی ایندھن سے کبھی بھی جان نہیں چھڑا سکیں گے۔
(جاری ہے)