تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے عام آدمی نے شاید ہی کسی روز سُکھ کا سانس لیا ہو، ورنہ ہر روز ایک نئی آفتِ ناگہانی ہے… مہنگائی، اور بے روزگاری کی کہانی تو خاصی پرانی ہے… ہر طرف اشیائے ضروریہ کی گرانی ہے… امن و امان کا یہ عالم ہے کہ خون کی ارزانی ہے… معاشرے میں بے حیائی اور عریانی کی فراوانی ہے… پیٹرول و گیس تو ایک طرف، اب تو نایاب پانی ہے… اس صورتِ حال پر حزبِ اختلاف کی تنقید فقط زبانی ہے… صرف جماعت اسلامی ہے جس نے عملی احتجاج کے لیے ایک نہیں، ایک سو ایک دھرنوں کی ٹھانی ہے… ان میں گجرات، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ میں خاصے بڑے اور کامیاب احتجاجی دھرنے ہوچکے، 4 مارچ کو ساہیوال اور پھر شہر شہر سو دھرنوں کے بعد اسلام آباد کی باری آنی ہے…!
جمعۃ المبارک 18 فروری کو گوجرانوالہ میں دھرنا اس ماحول میں دیا گیا کہ حکومتی اہلکاروں اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، جماعت کے مقامی قائدین کو ڈرایا دھمکایا گیا اور گرفتاریوں کی تنبیہات جاری کی گئیں، تاہم جماعت کی مقامی قیادت جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈٹ گئی اور ہر طرح کے حالات میں احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا، اور محض اعلان ہی نہیں کیا اس اعلان کو نہایت کامیابی سے عملی جامہ پہنایا۔ دوسری جانب ضلعی انتظامیہ نے بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھرنا کے منتظمین اور مقامی قیادت سمیت 59 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔
احتجاجی دھرنے سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، وسطی پنجاب کے امیر محمد جاوید قصوری، ضلعی امیر مظہر اقبال رندھاوا، صدر نیشنل لیبر فیڈریشن شمس الرحمان سواتی، جے آئی یوتھ وسطی پنجاب کے صدر جبران بٹ، صدر گوجرانوالہ یوتھ بشارت صدیقی اور حمید الدین اعوان سمیت مقامی قائدین نے شرکت کی۔ دھرنے میں حضرات کے علاوہ خواتین، بچوں اور بزرگوں کی بھی بڑی تعداد شریک تھی۔ شرکاء نے اسلامی نظام کے حق میں پُرجوش نعرے لگائے اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی ہدایت پر اسلام آباد دھرنے میں بھرپور شرکت کا عہد کیا۔
دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت ملک کی سیاسی تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے۔ وزیراعظم جلسوں میں اعلانات کرنا چھوڑیں، عوام کو ساڑھے تین برسوں کی کارکردگی بتائیں۔ وزیراعظم نے قوم سے جو بھی وعدہ کیا اسے پورا نہیں کیا۔ ہماری معاشی پالیسیوں پر فیصلے کابینہ نہیں، آئی ایم ایف کے ہاں ہوتے ہیں۔ 2018ء کے بعد ملک کے زوال کا آغاز ہوا، 2022ء میں پاکستانی معیشت کا مکمل سقوط ہوچکا۔ عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر فیصلے ہوتے ہیں اور وزیراعظم کو صرف آگاہ کیا جاتا ہے۔ راتوں رات پیٹرول کی قیمت 12روپے بڑھا دی گئی، وزیراعظم نے اوگرا کی سمری واپس کی تو انھیں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کا حکم ہے۔ سقوطِ ڈھاکا کے وقت ملکی کرنسی کی قدر میں 58 فیصد کمی آئی، موجودہ حکومت کے دور میں کوئی جنگ ہوئی نہ کوئی بڑی ایمرجنسی، لیکن روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 53 فیصد نیچے گر گیا۔ روپے کے زوال کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کے دور میں اخلاقی زوال بھی آیا اور ادارے بھی تباہ ہوئے۔ دیکھ رہا ہوں وزیراعظم اور ان کی ٹیم عوام کا سامنا کرنے کے لیے گھروں سے نہیں نکل سکیں گے۔ سونامی نے ہر شعبے میں تباہی مچا دی ہے۔ پی پی اور نون لیگ نے ہر موقع پر حکومت کا ساتھ دیا۔ منی بجٹ سینیٹ سے پاس ہوا تو اپوزیشن بتائے اس نے کیا کیا؟ کل اوگرا بل پاس ہوا تو سینیٹ میں اپوزیشن غائب تھی۔ ایوانِ بالا میں اپوزیشن کی اکثریت ہے، لیکن اس کے باوجود حکومتی بل سینیٹ سے پاس ہوجاتے ہیں۔ ملک میں عدالتوں کے دروازے سونے کی چابی سے کھلتے ہیں، عام طالب علم کے لیے تعلیم کا حصول ناممکن ہوگیا۔ میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے 80لاکھ روپے درکار ہیں۔ پاکستان کو اسلامی نظام چاہیے۔ انسانیت کی کامیابی کے لیے اسلام ہی واحد ذریعہ ہے۔ جماعت اسلامی کو اقتدار ملا تو سود کا خاتمہ کریں گے اور ملک میں قرآن و سنت کا نظام لائیں گے۔
امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، حکومت کی بیڈ گورننس اور آئی ایم ایف کی غلامی کے خلاف 101دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جماعت اسلامی ہی پاکستان کے 22کروڑ عوام کی حقیقی ترجمان ہے۔ عوام نے دیکھ لیا کیسے تبدیلی سرکار نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ ان کے پاس عوام کو دینے کے لیے محض زبانی کلامی اقدامات کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کا دور ظلم و جبر کا دور ہے، عوام کو اس سے گھبرانا نہیں، یہ بھی جلد ختم ہوجائے گا۔ عوام درپیش مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کے نشان ترازو کو کامیاب کروائیں۔