امریکہ کے بعد اسلامی تعاون تنظیم نے بھی دھیمے سُروں میں بھارت میں مسلمان خواتین کے ساتھ حجاب کے مسئلے پر ہونے والے سلوک پر لب کشائی کی ہے۔ امریکہ کی طرف سے اظہار تشویش کو بھارت نے اندرونی معاملہ قرار دے کر مسترد کیا تھا۔ اوآئی سی کے تبصرے پر بھی بھارت کا ردعمل اس سے چنداں مختلف نہیں ہوگا۔ اس وقت بھارت کو مغرب کی ضرورتوں اور مجبوریوں نے ہوا کے اس گھوڑے پر سوار کیا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے بھارت کے حالات پر کیے گئے تبصرے میں کہا گیا ہے کہ او آئی سی کا جنرل سیکرٹریٹ ایک بار پھر بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مسلمان برادری کے تحفظ اور سیکورٹی کو یقینی بنائے، اور تشدد اور نفرت انگیز جرائم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ عالمی برادری مسلمانوں کی سرِعام نسل کُشی کی دھمکیوں اور مسلم خواتین کو سوشل میڈیا پر ہراساں کرنے کے واقعات کا نوٹس لے۔
بھارت کی سرزمین جس طرح مسلمانوں پر تنگ ہورہی ہے، یہ حالات پاکستان کے قیام کے جواز کو اور نکھار رہے ہیں۔ چند دن قبل خالصتان تحریک کے ایک سرگرم حامی اور جلاوطن لیڈر ڈاکٹر امرجیت سنگھ تقسیم ہند کے وقت سکھوں کے مشترکہ لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کی کوتاہ اندیشی کا رونا روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ سکھ قیادت نے جناح صاحب کی بات نہ مان کر اپنی نسلوں کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ پانچ اگست کے بعد یہی تاسف محبوبہ مفتی کے ایک جملے کی صورت میں ڈھلک کر رہ گیا تھا کہ ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے قائداعظم کا ساتھ نہ دے کر غلطی کی تھی۔
بھارتی مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنے اجداد کی طرف سے قیام پاکستان میں مرکزی کردار ادا کرنے سے ناخوش اور ناراض رہا، اس طبقے کا ہمیشہ یہ زعم رہا کہ وہ ہندو اکثریت کا دل اپنے کردار و عمل اور وفا شعاری سے جیتنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ ان کے خیال میں مولانا ابوالکلام آزاد کی سوچ وفکر سے جڑے رہ کر وہ ماضی کے اعمال کا ’’کفارہ‘‘ ادا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ وقت اس تاثر کو غلط ثابت کرتا جارہا ہے۔ بھارت کی جو نئی شکل و شباہت اُبھر رہی ہے اس میں اکثریت کو ایک ایسے ملک کی اقلیتوں پر جبری طور پر مسلط کیا جارہا ہے جہاں اقلیتوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ دیوار سے لگائے جانے والے ان لوگوں میں دوسرے مذاہب کے لوگ ہی نہیں بلکہ خود اپنے ہندو مذہب سے وابستہ دلت آبادی کی بہت بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ حجاب کو جس طرح موضوعِ بحث بنایا جارہا ہے اس آئینے میں سکھوں کو اپنا مستقبل اس طرح نظر آنے لگا ہے کہ اگلے مرحلے میں مسلمان خواتین کے چہروں سے حجاب نوچنے والے ہاتھوں کی دیدہ دلیری اس قدر بڑھ جائے گی کہ وہ سکھوں کی پگڑی تک بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ ایسے میں ارون دھتی رائے نے بھارت کے خوفناک انجام کی پیش گوئی کی ہے۔
ارون دھتی رائے بھارت کی معروف مصنف، دانشور اور حقوقِ انسانی سے وابستہ خاتون ہیں۔ کئی بیسٹ سیلر کتابوں کی مصنف ہونے کی حیثیت سے کسی تعار ف کی محتاج نہیں۔ کشمیر پر اُن کی رائے مبنی بر انصاف رہی ہے، اور اس کی انہیں قیمت بھی چکانا پڑی ہے۔ وہ کئی بار انتہا پسندوں کی نفرت انگیز مہمات کا نشانہ رہی ہیں۔ ارون دھتی رائے بھارت میں اُبھرتے ہوئے ہندوتوا مائنڈ سیٹ اور مسلم دشمنی کی کڑی ناقد ہیں۔ انہوں نے بھارتی میڈیا ہائوس ’’دی وائر‘‘ کے مشہور صحافی کرن تھاپر کو ایک اہم اور چونکا دینے والا انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے بھارت میں تیزی سے قوت پکڑنے والی فاشسٹ اپروچ کے نتیجے میں سوویت یونین جیسے انجام کی پیش گوئی کی ہے۔ ارون دھتی رائے کا کہنا تھا کہ کشمیر کو قبرستان بنادیا گیا ہے۔ کشمیر بھارت کو ہرا نہیں سکتا مگر یہ اسے کھا جائے گا۔ ان کا تاریخی جملہ کچھ یوں تھا “Kashmir may no defeat India but it can consume India.” ارون دھتی رائے نے کشمیر کی موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ کیا اور کہا کہ وہاں صحافیوں کو خاموش کردیا گیا ہے، انہیں دھمکایا جارہا ہے، جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کے علَم بردار خرم پرویز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جن بہترین لوگوں نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دے کر دنیا کے سامنے پیش کیا انہیں جیلوں میں بند کردیا گیا ہے۔ کشمیریوں کو آزادی مانگنے کا حق ہے، وہ کس قسم کی آزادی چاہتے ہیں، یہ طے کرنے کا حق پاکستان اور بھارت کے بجائے خود کشمیریوں کو ہے۔ ان کو بولنے تو دیا جائے کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی یہ کہانی گم کردہ لوگوں کی کہانی ہے، کشمیر کی کہانی لوگوں کو دبانے کی کہانی ہے۔ ان کی تاریخ بدلی جارہی ہے، ان کی زمینیں چھینی جارہی ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ یہ ہو تو آپ کیا کریں گے؟ پھر اُن کے پاس آزادی مانگنے کا راستہ ہی رہ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک میکنزم ہونا چاہیے جس کے تحت کشمیریوں سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟کشمیری کیا چاہتے ہیں یہ طے کرنے کا حق پاکستان اور بھارت کو نہیں خود کشمیری عوام کو حاصل ہے، مگر اس اظہار کے لیے انہیں بولنے کی آزادی ملنی چاہیے۔
ارون دھتی رائے نے تاریخ کی ایک طالب علم کے طور پر بہت اہم دوررس بات کی ہے کہ کشمیر بھارت کو ہرا نہیں سکتا مگر یہ اس کو کھا جائے گا۔یہ حقیقت ہے کہ کشمیر اور بھارت کے درمیان طاقت کا کوئی تناسب نہیں۔بھارت جغرافیائی اور عددی اعتبار سے ایک بڑی طاقت ہے اور کشمیر ایک وادی میں محصور چند لاکھ لوگوں کا مسکن ہے جن کا بیرونی دنیا سے کوئی (باقی صفحہ 41پر)
رابطہ نہیں،جنہیں باڑھ کے اندر بند کردیا گیا ہے،جن کی آواز دنیا تک نہیں پہنچ رہی۔اس لیے کشمیر کے ٹین ایجر لڑکے بندوقوں سے بھارت کو کشمیر سے نکال باہرنہیں کرسکتے۔ کشمیر کو کنٹرول کرنے کے لیے بھارت جو قوانین اپنا رہا ہے، جو راستہ اختیار کر رہا ہے وہ فاشزم کا راستہ ہے۔بھارت نے کشمیر کی چھوٹی سی پٹی اور اسّی لاکھ آبادی میں جاری ایک مقبول تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے 1990ء میں نت نئے ظالمانہ مرکزی قوانین کا سہارا لیا۔ ان قوانین کے ذریعے فوج کو ’پکڑو اور مارو‘ کے لامحدود اختیارات دئیے گئے۔ فوج کی تعداد کو غیر معمولی حد تک بڑھا دیا گیا۔ آزادیاں سلب کرنے اور آبروریزی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ہر قسم کے جدید اسلحہ کا استعمال کشمیر میں کیا گیا۔ تین عشروں سے جاری یہ مشق آخرکار بھارت کا مائنڈسیٹ بن گئی، اور کشمیر میں حاصل کی جانے والی تربیت اور تشکیل پانے والے مزاج نے بھارت میں کئی ’’کشمیر‘‘ پیدا کرنے کا عمل شروع کیا، اور یوں بھارت کا پائوں کشمیر میں ایک ایسی دلدل میں پھنس گیا جس سے نکلنا تو دور کی بات، اس کے بعد کئی اور دلدلی علاقے وجود میں آتے گئے۔ یہاں تک کہ چین کے ساتھ ایک تنازع شدید ہونے کی وجہ بھی کشمیر ہی بنا۔ یہ طرزعمل بھارت کو گہری کھائی کی طرف لے جانے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو ارون دھتی رائے جیسی صاحبِ نظر شخصیت بھارتی عوام کو سمجھانا چاہ رہی ہے۔ بھارت کبھی ایک مضبوط ریاست اور ملک نہیں رہا، یہ کثیرالقومی اور کثیرالثقافتی رجواڑوں پر مشتمل خطہ رہا ہے۔ اس تاریخی حقیقت کو نظرانداز کرکے بھارت کو ہندوراشٹریہ بنانے کی کوششیں اس ملک کو سوویت یونین اور یوگوسلاویہ کے انجام سے دوچار کرسکتی ہیں، اور اسی حقیقت کو ارون دھتی رائے نے بیان کیا ہے۔