صدر مملکت نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز(پیکا) ترمیمی آرڈیننس جاری کرکے ملک میں صحافت اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی عیاں کردی ہے۔ صدارتی آرڈیننس کا مقصد جعلی خبریں روکنا بتایا گیا ہے، اور یہ اب قابلِ دست اندازی پولیس اور ناقابلِ ضمانت قرار پا گیا ہے، اور اس الزام میں کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکے گا۔ آرڈیننس کے مطابق کسی فرد کے تشخص پر حملے کی سزا 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردی گئی ہے، اور ’’تشخص‘‘ کی تعریف میں تمام ایسی ایسوسی ایشنیں، ادارے، تنظیمیں یا اتھارٹی بھی شامل ہیں جو حکومتی قوانین کے تحت قائم کی گئی ہوں۔ عدالتوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ اس نوعیت کے کیسوں کا چھ ماہ کی مدت میں فیصلہ کریں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس کا مقصد میڈیا کو کنٹرول کرنا نہیں ہے۔ نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کا استثنیٰ برقرار رہے گا، مگر ماضی میں جس طرح کی کارروائیاں کی گئی ہیں ان کے پیش نظر استثنیٰ کی یہ شق بھی سوالیہ نشان ہے، یہی وجہ ہے کہ اخباری صنعت کی تمام تنظیموں اے پی این ایس، سی پی این ای، پی بی اے، پی ایف یو جے اور ایمینڈر پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے قانون واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اپوزیشن رہنمائوں نے اسے غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیا۔ انسانی حقوق کے کمیشن نے بھی ترمیمی قانون کے ذریعے حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقید کو ناقابلِ ضمانت جرم قرار دینے کو مسترد کردیا ہے۔
سیاسی و سماجی رہنمائوں، میڈیا تنظیموں اور انسانی حقوق کمیشن کے صدارتی آرڈیننس پر شدید تحفظات ہیں۔ ہر دور میں حکمرانوں کے ستم میڈیا کا نصیب ہی رہے۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے فوجداری طرز کے جو نئے میڈیا قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں ان کے لیے صحافی تنظیموں، ماہرین اور ابلاغی اداروں کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ البتہ بے قابو ہوتا سوشل میڈیا اپنی درست سمت کے تعین کے لیے قانون سازی سے لے کر اور بہت سے انتظامی نوعیت کے اقدامات کا متقاضی ہے۔ سوشل میڈیا پگڑی اچھال بنتا جارہا ہے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ ٹاک شوز میں میڈیا لاز میں تبدیلی اور نئے قوانین پر خود مکالمے کا انتظام کرے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے فوج، عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں پر تنقید کرنے والوں کو پانچ سال قید کی سزا، نیز وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کو بھی انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت دینے اور ان فیصلوں کا نفاذ بذریعہ صدارتی آرڈیننس کرنے کی منظوری جمہوری روایات کے منافی اور پارلیمان کی کھلی حق تلفی کے مترادف ہے۔ کابینہ سے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے قانون 2016ء میں آرڈیننس کے ذریعے ترامیم لانے کی منظوری لی گئی ہے جس میں فوج، عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں پر تنقید کرنے والوں کے لیے پانچ سال تک قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ یہ قانون مسلم لیگ(ن) کی حکومت لائی تھی اور اب تحریک انصاف کی حکومت نے اس میں ترمیم کی، اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسے نافذ کردیا ہے، آئینی طور پر حکومت اسے 120 روز کے اندر اندر پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی پابند ہے، دوسری صورت میں یہ آرڈیننس خود بخود ختم ہوجائے گا۔ وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چودھری کے بقول سوشل میڈیا پرلوگوں کی عزت اچھالنے کو قابلِ تعزیرجرم قرار دے دیا گیا ہے، قانون کے تحت عدالتوں کوپابند کیا گیا ہے کہ فیصلہ چھ ماہ میں کیا جائے، جبکہ کابینہ کی منظور کردہ دوسری تجویز کے تحت وزراء اور ارکانِ پارلیمنٹ بھی انتخابی مہم میں حصہ لے سکیں گے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق میں ترمیم کی بھی کابینہ سے منظوری لے لی گئی ہے۔ یہ صورت حال آزادیِ اظہار اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے ہر پاکستانی کے لیے بجا طور پر باعث ِتشویش ہے۔جمہوری نظام حکومت کا مرکز و محور اور سب سے بالاتر ادارہ عوام کے منتخب نمائندو ں پر مشتمل پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ ملک کے لیے آئین تشکیل دینا اور پھر اس کے مطابق حسب ِضرورت قانون سازی کرنا پارلیمنٹ ہی کا فرضِ منصبی ہے۔جنگ یا کسی آسمانی آفت وغیرہ کے نتیجے میں رونما ہونے والی ہنگامی صورتِ حال میں جب پارلیمنٹ کا اجلاس نہ ہورہا ہو اور اسے طلب کرنا بھی ممکن نہ ہو تو حکومت آئین میں متعین مدت کے لیے صدارتی فرمان کے ذریعے وقتی طور پر قانون سازی کرسکتی ہے، لیکن مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے متعلقہ صدارتی آرڈیننس کا پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا لازمی ہوتا ہے، اور پھر یہ عوامی نمائندوں کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ صدارتی فرمان کو بعینہٖ منظور کرلیں، مکمل طور پر مسترد کردیں، یا اس میں ترامیم کرکے مستقل قانون کی شکل دیں۔لیکن موجودہ دور میں قانون سازی کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر اور عموماً بلاجواز طور پر صدارتی فرامین کا سہارا لیا جارہا ہے وہ جمہوری اصولوں کی رو سے کسی طور قابلِ اطمینان نہیں۔ موجودہ حکومت کے ساڑھے تین برسوں میں 63 صدارتی آرڈیننس اور چھ صدارتی آرڈر جاری کیے گئے ہیں جن میں سے بیشتر معاملات میں براہِ راست پارلیمنٹ میں قانون سازی ممکن تھی۔ فرائیڈے اسپیشل نے اس قانون سے متعلق سیاسی رہنمائوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد سے رائے لی، جو پیش خدمت ہے:
فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات
پیکا آرڈیننس میں ترمیم صحافیوں سے متعلق نہیں ہے، اپوزیشن خود ترمیم لے کر آئی، اب کس منہ سے قانون کی مخالفت کررہی ہے! جرم ناقابلِ ضمانت ہوگا تو ایسے مقدمات میں کمی واقع ہوگی۔ سائبر کرائم ہمارے سوشل فیبرک کو تباہ کر رہا ہے، میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے دوبارہ بات کریں گے، میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ بیٹھ کر ان کے تحفظات سنیں گے، میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا اپنا ایک مؤقف ہے۔ ہم فیک نیوز کی تعریف پر کام کررہے ہیں، پیکا آرڈیننس میں جس ترمیم کی بات ہو رہی ہے وہ صحافیوں سے متعلق نہیں، آرڈیننس میں سزا کو2 سال سے بڑھا دیا ہے۔ ہماری خواتین کی زندگیاں تباہ ہو کر رہ گئیں۔
یوسف رضا گیلانی
قائدِ حزبِ اختلا سینیٹ آف پاکستان
ڈریکونین قوانین کے ذریعے میڈیا پر قدغن لگانا چاہتے ہیں، اس قانون کو پہلے، بنانے والوں پر لاگو کرنا ہوگا۔ مخالفین کو ڈرانے کے لیے قوانین بنائے جارہے ہیں۔ پیپلزپارٹی پری وینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کو مسترد کرتی ہے۔
رضا ربانی
سابق چیئرمین سینیٹ
صدرِ مملکت کی جانب سے پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بجائے آرڈیننس کے اجرا کا سلسلہ جاری ہے، تاہم اس ضمن میں وہ 73ء کے آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈیننس کے لیے درکار ضروریات کو پورا کررہے ہیں نہ ہی خود سے فیصلہ کررہے ہیں۔ لہٰذا پارلیمنٹ اس بارے میں سوچے گی کہ وہ صدر کے خلاف کس طرح کا اقدام کرے۔
سینیٹر عرفان صدیقی
پاکستان مسلم لیگ(ن)
اہم قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کو نظرانداز کرکے صدارتی آرڈیننس کو بطور ہتھیار استعمال کرنا جمہوری روایات اور پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ سینیٹ کے اجلاس کے دو دن بعد اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اچانک منسوخ کردینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت ایک واردات کے انداز میں آرڈیننس لانا چاہتی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں تحریک انصاف کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ نہ صرف ملک وقوم بلکہ خود اس کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی جمہوری روایات کو کمزور کرنے کے بجائے مستحکم کرنا بہتر ہے۔ پارلیمنٹ کو آئین کے مطابق مقام اور اختیارات دے کر ہی قومی یکجہتی اور اتحاد کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، جبکہ غیرجمہوری طور طریقے انتشار اور خلفشار کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔
مریم اورنگ زیب
ترجمان مسلم لیگ(ن)
جن کے لیے یہ قانون بنایا ہے اُن میں میڈیا کا ایک بڑا حصہ آتا ہے۔ آپ جتنا ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کریں گے، یہ اتنی زور سے پھیلیں گی۔ بے گناہ کو جیل میں ڈالنے کا جواب آپ کو دنیا اور آخرت میں دینا پڑے گا، لیکن زبان بندی تو آج تک نہیں ہوئی۔
انجینئر افتخار چودھری
ترجمان تحریک انصاف
انسدادِ فیک نیوز قانون گرچہ میرے نزدیک دیر سے آیا ہے لیکن پھر بھی اسے خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں جھوٹ نے اس معاشرے کو برباد کیا ہے۔ قرآن کریم کی سورہ حجرات میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایمان والو جب تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو۔ خبر بغیر تحقیق کے خبر نہیں، زہر ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہے کہ زندہ شخص کے بارے میں خبر چھاپ دی گئی کہ وہ مر گیا ہے۔ آپ نے کبھی سوچا کہ اُس کے گھر والوں پر کیا گزری؟ آج جس کا جی چاہتا ہے جھوٹی خبر چھاپ دیتا ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک میں جھوٹی خبر پر سخت جرمانے اور سزائیں ہیں۔ آج کل ریحام خان کی کتاب کے تذکرے ہیں، خود انہیں زلفی بخاری سے معافی مانگنا پڑی اور بھاری جرمانہ دینا پڑا ہے۔کیا پاکستان ہی ایسا ملک ہے کہ جھوٹی خبر دے کر کسی ایک شخص کا ستیا ناس کردیا جائے! یہ قوانین سب کے لیے بہتر ثابت ہوں گے۔ اس میں پی ٹی آئی ہو یا نون لیگ، پیپلز پارٹی ہو یا جے یو آئی… سب کو سکون ملے گا۔ اس جھوٹ نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کررکھا ہے۔ میں اس قسم کے قوانین کی پُرزور حمایت کرتا ہوں۔
میاں محمد اسلم
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
پیکا آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق اور آزادیِ اظہارِ رائے کے قتل کے مترادف ہے۔ حکومت حقائق دبانے کے لیے صحافیوں کو پانچ سال قید کی سزا اور ناقابلِ ضمانت جرم کی دھمکی دے کر ڈرانا چاہتی ہے، اس قسم کے قواتین دورِ آمریت کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی پیکا آرڈیننس کی بھرپور مذمت کرتی ہے، اس طرح کے اقدامات سے صحافیوں کے قلم کو زنجیروں میں جکڑا جاسکتا ہے اور نہ ہی زبانوں پر پہرے بٹھائے جاسکتے ہیں۔ اہم قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کو نظرانداز کرکے صدارتی آرڈیننس کو بطور ہتھیار استعمال کرنا جمہوری روایات اور پارلیمنٹ کی توہین ہے آزادیِ اظہار اور میڈیا کی جانب سے فراہم کردہ حقیقی و درست اطلاعات تک رسائی خوشحال اور محفوظ جمہوری معاشروں کی بنیاد ہوتی ہے۔ پیکا جیسے اقدامات کا مقصد ملک میں اُٹھنے والی اختلافی آوازوں کو دبانا ہے۔ موجودہ حکومت کے ساڑھے تین برسوں میں 63 صدارتی آرڈیننس اور چھ صدارتی آرڈر جاری کیے گئے ہیں جن میں سے بیشتر معاملات میں براہِ راست پارلیمنٹ میں قانون سازی ممکن تھی۔ کسی بھی شخصیت کے خلاف منفی پروپیگنڈہ قابلِ مذمت اقدام ہے، اس کی روک تھام، اور ضابطہ اخلاق اور قانون سازی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر قانون سازی کی جاتی تو بہتر تھا، مگر پیکا جیسے کالے قوانین آزادیِ صحافت کا گلا گھونٹنے کے مترداف ہیں۔
عظم چودھری
تجزیہ نگار، کالم نگار
یہ قانون خود ہی حکومت کے اپنے گلے پڑ جائے گا، اسے علم ہی نہیں کہ یہ کیا کرنے جارہی ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی، قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کربات کرنے کی آزادی تو آئین نے دی ہوئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ آئین اور قانون کے تابع رہ کر ہی قانون سازی کرے۔ ویسے بھی ایک ایسی حکومت جو عام آدمی کے مسائل حل نہ کرسکے، اور اس کے پاس عام آدمی کو دینے کے لیے بھی کچھ نہ ہو تو اس پر تنقید تو ہوگی، اور تنقید برداشت کرنی چاہیے۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ عوامی بھلائی کے منصوبوں پر کام کرے۔ حکومت کو اپنی محدود سمجھ اور ابلاغیات کے حوالے سے اپنی مکمل نااہلیت سے جو کرنا تھا، کردیا۔ یہ تو حکومت کو تب پتا چلے گا جب کبھی وہ اپوزیشن بنے گی کہ وہ کیا کر بیٹھی۔
کامران عباسی
گروپ لیڈر اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز
معاشرے سے فیک نیوز کے خاتمے کے لیے قانون لانا ضروری تھا۔ اب جھوٹی خبر پر 3 سال کی جگہ 5 سال سزا ہوگی اور جرم ناقابلِ ضمانت ہوگا۔ صدر، وزیراعظم، اراکین اسمبلی سمیت کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ وفاقی کابینہ کو دو اہم قانون منظوری کے لیے بھیجے گئے تھے، پہلے قانون کے تحت پارلیمنٹیرینز کو الیکشن مہم میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی، جبکہ دوسرے قانون کے تحت سوشل میڈیا پرلوگوں کی عزت اچھالنے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ فیصلہ چھ ماہ میں کیا جائے۔ میرے خیال میں اس قانون کے بننے سے مستقبل میں فیک نیوز کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
بابر جمال
صدر ٹریڈر ونگ پاکستان مسلم لیگ(ج)
قوانین کا اطلاق سماجی رویوں کی بہتری کے لیے ہوا کرتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک عموماً سیاست دان اور صحافی اپنے بیانات رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی حمایت کے اظہار اور اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے بعض اوقات اخلاقی حدود سے گزر جاتے ہیں۔ بحیثیت پاکستانی شہری ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سی جھوٹی اطلاعات کو خبر بلکہ بریکنگ نیوز بناکر رائے عامہ میں سنسنی پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب ایسی تمام کوششوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ جاوید لطیف کی معذرت کہ انہیں مراد سعید کی بہنوں کے حوالے سے اپنی کہی ہوئی باتوں پہ افسوس اور شرمندگی ہے، اور یہ کہ وہ میری بیٹیوں جیسی ہیں۔ اسی قانون کی بدولت بہت سے لوگ جو خبر نما بیانات کا سہارا لے کر دوسروں کی تضحیک کرتے ہیں، انہیں اپنے رویوں پہ نظر ثانی کرنا ہو گی۔ مہذب معاشروں میں کسی بھی غلط خبر یا تضحیک آمیز بیان پہ افراد عدالتوں میں جا کر ا نصاف لے سکتے ہیں، جب کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس معاملے میں نہ صرف سست ہیں بلکہ ایسے معاملات سے صرفِ نظر کے رویّے کے باعث اخلاق سے گرے ہوئے لوگوں کو موقع مل رہا تھا۔ اس قانون کے اطلاق کے بعد ایسے لوگوں کو خود سے احتیاط کرنی ہوگی۔ اگرچہ اب بھی ان قوانین کو نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت، اور ایسے معاملات میں حساسیت کے بغیر محسن بیگ جیسے واقعات جنم لے سکتے ہیں جو افراد، اداروں بلکہ قوم کے لیے باعثِ شرمندگی ہیں۔