عربی لغت میں عافیت اسم ہے اور یہ عفو سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب مکمل صحت ہے۔ اور اس کی مختلف قسمیں ہیں۔ دین کے معاملے میں عافیت سے مراد گناہوں اور بدعات جیسے اُمور سے بچنا اور اطاعت میں کاہلی سے چھٹکارا ہے۔ دنیا کے معاملے میں عافیت سے مراد اس کے شر اور مصائب سے اللہ کی پناہ میں آنا ہے۔ خاندان کے معاملے میں عافیت سے مراد مرض و بیماری اور گناہوں کی زیادتی سے سلامتی ہے- جب کہ مالی عافیت سے مراد نت نئی مالی آفتوں سے بچنا ہے۔
عافیت کی ان تمام قسموں میں دینی عافیت انسان کے لیے سب سے نفع بخش ہے، کیونکہ یہ اتنی معتبر ہے کہ اس کے مثل دنیا میں کلمۂ اخلاص کے بعد کوئی نعمت نہیں۔ یہ نہ صرف بندے کے ایمان کو قائم رکھتی ہے بلکہ اللہ کی پکڑ سے بھی بچاتی ہے۔ اگر انسان کو سب عافیتوں میں سے کسی عافیت کو چننا پڑے تو دین کی عافیت کے مقابل کسی عافیت کو نہ پائے گا، جو نہ صرف اللہ کی پکڑ سے بچاتی ہے بلکہ بندوں کے شر سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔
عافیت کی قسموں میں بدنی عافیت بھی شامل ہے، کیونکہ یہ انسان کی زندگی ہی ہے جس کی وجہ سے انسان احسن طریقے سے عبادت کرسکتا ہے، اور اپنے دیگر امور کے لیے بھی اقدامات و جدوجہد کرسکتا ہے۔ اسی طرح اس میں خاندان کی عافیت بھی شامل ہے تاکہ اللہ اُن کے دین، اخلاق، صحت، احوال، رزق، مال اور دیگر دنیاوی نعمتوں میں برکت ڈالے۔
اللہ سے دین و دنیا کی عافیت کا ملنا ایک ایسی نعمت ہے جو اُن تمام باتوں کا احاطہ کرتی ہے جن کا تقدیر میں ذکر ہے۔ جو اس بات کو سمجھے اُس پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے کیونکہ یہ توحید کے بعد نعمتِ عظیم ہے۔
حضرت عباسؓ کا قول ہے: جب تم اللہ تعالیٰ کا قول اُذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ،تم پر جو اللہ کی نعمتیں ہیں ان کا ذکر کرو، تو کہا کرو: عافیۃ اللہ،اللہ کی عافیت۔ اور جب اللہ تعالیٰ فرمائیں: وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْہِ تَجۂَرُوْنَo (النحل۱۶:۵۳) ’’تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اسی کی طرف دوڑتے ہو‘‘۔ اس آیت کی تلاوت کے بعد پھر حضرت عباسؓ نے پوچھا: اے لوگو! کیا تم اس نعمت کو جانتے ہو؟ وہ نعمت ہے عافیت، صحت، سلامتی اور تمھارے مالوں کا نقصان سے بچنا، اور یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں۔ پھر فرمایا: اور یہ بھی اسی کے ہاتھ سے ہوتا ہے، یعنی جو بھی مصیبت تمھارے بدن پر آتی ہے، مثلاً بیماری اور آسائشات میں کمی، تو تم اللہ کی استعانت طلب کرتے ہو اور اس مستغیث سے دعا مانگتے ہو، کیونکہ تم جانتے ہو کہ اس سے بچانے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ پس تم اللہ کی ثنا بیان کرو، اس کی اطاعت کرو اور اس کا شکر ادا کرو تاکہ وہ تمھیں گناہوں سے بچائے اور مغفرت کرے۔
عافیت سے بڑھ کر انسان کو اِس دنیا میں کوئی نعمت عطا نہیں کی گئی۔ عافیت ایک عظیم دائمی نعمت ہے اور کلمۂ اخلاص (لا الٰہ الا اللہ) کے بعد اس سے بہتر کوئی شے نہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: میں نے حضرت ابوبکرؓ کو اس منبرِ رسولؐ پر فرماتے ہوئے سنا: میں نے پچھلے سال آج ہی کے دن رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا، پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ رُکے اور رونے لگے۔ پھر فرمایا: میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: نہیں عطا کی گئی کلمۂ اخلاص کے بعد کوئی شے جو عافیت کے مثل ہو۔ پس اللہ سے عافیت کا سوال کرو (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا افضل ہے تو آپؐ نے جواب دیا تھا کہ ’عافیت کی دعا‘۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسولؐ اللہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ کون سی دعا افضل ہے؟ فرمایا: اللہ سے دنیا اور آخرت کی عافیت کا سوال کرو۔ اگلے دن وہی آدمی پھر آیا اور اپنا سوال دہرایا: اے اللہ کے رسولؐ! کون سی دعا افضل ہے؟ فرمایا: وہی جو تجھے بتائی تھی۔ تیسرے دن وہ آدمی پھر آیا اور بولا: وہی دعا؟ رسولؐ اللہ نے فرمایا: جس کو دنیا میں عافیت عطا کی گئی، اس کو نہیں عطا کیا جائے گا آخرت میں کچھ سوائے فلاح کے۔ (ترمذی)
عافیت کی دعا کی وہ شان ہے کہ اس کا التزام نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کرتے تھے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے۔ مسند احمد اور ترمذی میں مذکور ہے، حضرت عباسؓ نے فرمایا: میں نے رسولؐ اللہ سے کہا: مجھے ایسی شے کے بارے میں بتائیے جس کا میں اللہ سے سوال کروں؟ فرمایا: اللہ سے عافیت کا سوال کرو۔ کچھ دنوں کے بعد میں پھر گیا اور رسولؐ اللہ سے پوچھا: مجھے ایسی شے کے بارے میں بتائیے جس کا میں اللہ سے سوال کروں؟ فرمایا: اے عباسؓ!اے میرے چچا! اللہ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کیجیے۔
رسولؐ اللہ خود عافیت کے بغیر کوئی دعا نہیں مانگتے تھے۔ مسند احمد اور ترمذی میں مذکور ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک آدمی نے اللہ سے صبر کی دعا کی تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: کیا تُو اللہ سے ابتلا و آزمائش مانگ رہا ہے؟ اگر سوال کرنا ہے تو اللہ سے عافیت کا سوال کر، لہٰذا جس نے اللہ سے صبر کا سوال کیا تو اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صبر مشقت کے بغیر نہیں، اور جس نے مشقت مانگی تو گویا اس نے ابتلا و آزمائش مانگی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت کی کہ جب بھی اللہ سے اس کے فضلِ عظیم کا سوال کرو تو عافیت کا سوال کرو۔
عافیت کا راستہ صرف اللہ عزوجل سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے جو صرف اطاعت کے راستے پر چل کر ہی مل سکتا ہے۔ پس ابتلا کی سمجھ سے تطہیر کی ابتدا ہوتی ہے اور بندہ عافیت کے راستے پر چل پڑتا ہے، جس سے اس کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن رات اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے تھے۔ (باقی صفحہ 41پر)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی دن اور رات ایسی نہیں دیکھی جب رسولؐ اللہ یہ کلمات نہ ادا کرتے ہوں:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَ دُنْیَایَ وَ أَہْلِیْ وَ مَالِیْ، اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَتِیْ، وَٰامِنْ رَوْعَتِیْ، اَللّٰہُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ، وَعَنْ یَّمِیْنِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ، وَمِنْ فَوْقِیْ، وَأَعُوْذُ بِعَظَمَتِکَ اَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ۔
(عن عمرؓ، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی)
”اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں، معافی اور عافیت اپنے دین میں اور اپنی دُنیا میں، اور اپنے اہل اور مال میں۔ اے اللہ! میرا عیب ڈھانپ دے اور خوف کو امن سے بدل دے۔ اے اللہ! میری حفاظت کر، میرے آگے سے اور پیچھے سے اور میرے داہنے سے اور میرے بائیں سے اور میرے اُوپر سے، اور مَیں تیری عظمت کے واسطے سے پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ ناگہاں اپنے نیچے سے پکڑ لیا جاؤں۔“
(الطریق الی العافیۃ سے اخذ و ترجمہ)