قوموں کی تاریخ میں یہ بڑا نازک وقت ہے، جو اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر قوم نہ صرف اپنی موجودہ حالت پر غور کرے، بلکہ اگر اسے اقوام عالم کے دفتر میں اپنا نام قائم رکھنا منظور ہے تو اپنی آئندہ نسلوں کی بہبودی کو بھی ایک موجودہ واقعہ تصور کرے اور ایسا طریقِ عمل اختیار کرے جس کے احاطۂ اثر میں اس کے اخلاف کا تمدن بھی شامل ہو۔ ایک زمانہ تھا جب اقوامِ دنیا کی باہمی معرکہ آرائیوں کا فیصلہ تلوار سے ہوا کرتا تھا، اور یہ فولادی حربہ دنیائے قدیم کی تاریخ میں ایک زبردست قوت تھی، مگر حال کا زمانہ ایک عجیب زمانہ ہے، جس میں قوموں کی بقا اُن کے افراد کی تعداد، اُن کے زورِ بازو اور اُن کے فولادی ہتھیاروں پر انحصار نہیں رکھتی، بلکہ ان کی زندگی کا دارومدار اس کاٹھ کی تلوار پر ہے، جو قلم کے نام سے موسوم کی جاتی ہے۔ آج کل کی جنگوں کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قومیں ہتھیار بند ہوں اور ایک خاص میدان میں آراستہ ہوکر جدال و قتال کا بازار گرم کریں، نہ آج کل یہ ضروری ہے کہ کوئی قوم کسی ہمسایہ قوم پر فتح پانے کے لیے اس کے ملک پر چڑھائی کرے۔ یہ تمام سامان زمانۂ قدیم کے ساتھ مختص ہے۔ ہمارے زمانے میں ایک اور خاموش قوت ہے جس پر قوموں کی بقا و فنا انحصار رکھتی ہے اور جس کے بل پر ایک قوم گھر بیٹھے دوسری قوم کو ہمیشہ کے لیے صفحۂ عالم سے حرفِ غلط کی طرح مٹاسکتی ہے۔ ہاتھوں کی لڑائی کا زمانہ گزر چکا… اب دماغوں، تہذیبوں اور تمدنوں کی ہنگامہ آرائیوں کا وقت ہے، اور یہ جنگ ایک ایسی جنگ ہے جس کے زخم رسیدہ زنگاری اور کافوری مرہم سے ہرگز اچھے نہیں ہوسکتے۔ ظاہری فاصلہ، جو قوموں کے خلا و ملا میں بمنزلہ ایک سدِّ سکندری کے تھا، اب ریل اور پیامِ برقی کی حیرت انگیز ایجادوں سے گویا بالکل معدوم ہوگیا ہے، اور وہ ممالک جو کبھی ناپیدا کنار سمندروں کی وجہ سے ایک دوسرے سے اس قدر دور تھے کہ ایک کو دوسرے کی ہستی کا بھی علم نہ تھا، موجودہ صدی میں فنِ جہاز رانی کی تعجب خیز ترقی سے ایک شہر کے دو محلوں کی طرح معلوم ہوتے ہیں، جس سے دنیا کی تمام قومیں ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن سے روز بروز متاثر ہورہی ہیں۔ برق، جس کی مضطربانہ چمک تہذیب کے ابتدائی مراحل میں انسان کے دل میں مذہبی تاثرات کا ایک ہجوم پیدا کردیا کرتی تھی، اب اس کی پیام رسانی کا کام دیتی ہے۔ اسٹیم اس کی سواری ہے اور ہوا اس کے پنکھے جھلا کرتی ہے۔ آفتاب، جس کی عظمت و جلال نے نہ صرف ابراہیم کی باریک بین نگاہوں کو دھوکے میں ڈال دیا تھا، بلکہ ایک مہذب قوم کے دل و دماغ کو بھی متاثر کردیا تھا، اب اپنی حرارت اور روشنی کو حضرتِ انسان کے اشارے پر صرف کرتا ہے۔ غرضیکہ نظامِ قدرت کے وہ تمام محض قوائے، جن کے ناقابلِ تشریح عمل سے مرعوب ہوکر قدیم قومیں انہیں ربوبیت کے لباس سے مزین کرکے ان کے لیے عظیم الشان معابد تعمیر کیا کرتی تھیں، موجودہ علوم کی وساطت سے انسان کے دست بستہ غلام ہیں، اور یہ ظلوم و جہول اس عظیم الشان امانت کا بار اٹھائے، جس کے اٹھانے سے پہاڑوں نے بھی انکار کردیا تھا، اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر بجاناز کررہا ہے۔ اس کی مستفسرانہ نگاہیں قدرت کے سربستہ رازوں کو کھول رہی ہیں اور اس کا دماغ انہی علمی فتوحات کے سہارے پہاڑوں، سمندروں، دریائوں، حتیٰ کہ چاند، سورج اور ستاروں پر بھی حکومت کررہا ہے۔ یہ ہے وہ حیرت انگیز تغیر، جو زمانۂ حال کو زمانۂ ماضی سے متمیز کرتا ہے، اور جس کی حقیقت اس امر کی متقاضی ہے کہ تمام قومیں جدید روحانی اور جسمانی ضروریات کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے انہیں اپنی زندگی کے لیے نئے سامان بہم پہنچائیں۔ میرا منشا یہ ہے کہ اس تغیر کے لحاظ سے اقوام ہندوستان اور خصوصاً مسلمانوں کی موجودہ حالت پر ایک نظر دوڑائوں اور اس امر کو واضح کروں کہ زندگی کی کٹھن راہ میں ہمیں کون کون سی مشکلات درپیش ہیں اور ہمیں ان کے ازالے کے لیے کیا کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ میرا مقصد زیادہ تر ناظرین کے دل و دماغ کو قومی زندگی کے اہم اور ضروری سوال کی طرف متوجہ کرنا ہے، اور اگر ناظرین میں سے کسی ایک فرد کو بھی اس ضروری مسئلے پر سوچنے کی تحریک ہوگئی تو میں سمجھ لوں گا کہ یہ مضمون لاحاصل نہیں گیا۔
واقعاتِ عالم کے مشاہدے سے حکما اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زندگی کی مختلف صورتوں، یعنی انسانوں، حیوانوں، پودوں وغیرہ میں ایک قسم کی عالم گیر جنگ شروع رہتی ہے۔ گویا نظامِ فطرت کارزارِ زندگی کا ایک دردناک نظارہ ہے، جس میں ہر طبقے کے حیوان اپنے ہمسایہ طبقوں سے برسر پیکار رہتے ہیں۔ اس کشمکشِ حیات میں کامیاب ہونے کے لیے ہر طبقۂ زندگی مصروف رہتا ہے، لیکن فتح صرف اُسی طبقے کو حاصل ہوتی ہے جس میں رہنے کی قابلیت ہو، یعنی جس نے زندگی کے متغیرہ حالات کے ساتھ موافقت پیدا کرلی ہو۔ صدہا اقسام کے عجیب و غریب چوپائے اور پرندے کبھی روئے زمین پر اور سمندروں میں موجود تھے، مگر اب ان کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جوں جوں زندگی کے حالات اور اس کی شرائط تبدیل ہوتی گئیں، یہ حیوان فنا ہوتے گئے، کیوں کہ یہ اس انقلاب کے مختلف مراحل میں حالات کے ساتھ موافقت پیدا نہ کرسکے۔ یہ قانون جس کو حکمائے حال نے کمالِ محنت سے دریافت کیا ہے، ایک عالمگیر قانون ہے۔ انسان، حیوان، چرند پرند، درخت… غرضیکہ زندگی کی کوئی ایسی صورت نہیں جو اس کے اثر سے آزاد ہو۔
(تحقیق و تدوین: پروفیسر عبدالجبار شاکر، ترتیبِ نو: ڈاکٹر خالد ندیم۔ علامہ اقبال کی اردو نثر مع حواشی و تعلیقات)
مجلس اقبال
اس کی تقدیر میں مظلومی و محکومی ہے
قوم جو نہ کر سکی اپنی خودی سے انصاف
پاکستان کے آج کے قومی نقشے اور ریاستی اور حکومتی معاملات پر نظر ڈالیں تو یہ شعر علامہ کی جانب سے ”الہامی تبصرہ“ دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے علامہ نے یہ شعر آج لکھ کر بھیجا ہو۔ اقبالی عدالت ِ فکر کے قاضی کا کیا ہی خوب صورت فیصلہ ہے کہ جو قوم اپنی خودی سے انصاف نہ کرسکے، اُس کا انجام مظلومی و محکومی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ غور کیجیے کہ انسانی اور زمینی نعمتوں سے مالامال سرزمین پاکستان کی نااہل، بدقماش اور بدعنوان قیادتوں نے اسے کہاں پہنچا دیا ہے کہ نہ اس کے پاسپورٹ کی عزت نہ انسان کی۔ قرضوں کا لامتناہی ناروا بوجھ، سیکورٹی اور خارجہ پالیسیوں کی تشویش ناک صورتِ حال، قومی غربت بھی بے مثل اور حکمرانوں کی بے وفائی بھی لاشریک۔ علامہ درسِ خودی فرد اور قوم دونوں کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ آج فکر ِ اقبال پر قائم ریاست کے لیے اہم ترین ایجنڈا ہی یہ ہے کہ فرد اور قوم اپنی خودی کو پہچانیں۔