حکومت نے صدارتی فرمان کے ذریعے یہ قانون نافذ کیا ہے کہ جھوٹی خبر دینے پر پانچ سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔ اس قانون کو پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ترمیمی آرڈیننس (پیکا) کا نام دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اس ضمن میں پریس کانفرنس کے دوران قانون کی وضاحت کرتے ہوئے اس کے مسودے کی تیاری کی ذمے داری بھی قبول کی اور کہا کہ جھوٹی خبروں کی روک تھام کے لیے یہ قانون ضروری تھا۔ جھوٹی خبر معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے، معاشرے کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جائے تو کیا بنے گا! صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے لیکن کچھ لوگ معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، ذرائع ابلاغ تنقید کرنے میں آزاد ہیں مگر جھوٹی خبر نہیں ہونی چاہیے، یہ قانون ذرائع ابلاغ پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ کیا ہم نہیں چاہتے کہ جھوٹی خبر اب نہیں ہونی چاہیے؟ وزیراعظم کی ذاتی زندگی سے متعلق باتیں پھیلائی گئیں، اب جھوٹی خبروں پر کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا، جھوٹی خبر پر تین سال کے بجائے پانچ سال سزا ہوسکے گی اور خبر دینے والے کی ضمانت بھی نہیں ہوگی۔ ایسے مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ میں کرنا ہوگا، ورنہ عدالتِ عالیہ متعلقہ جج سے پوچھے گی۔
اصولی طور پر اس قانون اور اس سے متعلق وفاقی وزیر قانون کی وضاحتوں سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک وزیراعظم کی ذاتی زندگی سے متعلق باتیں پھیلانے کا تعلق ہے تو ’دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا‘ ورنہ خود وزیراعظم اور ان کے ساتھی کیا کیا کچھ نہیں کہتے رہے! پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے، اس کے آئین کی رو سے ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ قرآن حکیم میں جھوٹ بولنے والے کو ’لعنت اللہ‘ کا مستحق ٹھیرایا گیا ہے، ’’خبر‘‘ سے متعلق چودہ سو برس قبل نہایت واضح ہدایت دی گئی تھی کہ: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو‘‘ (الحجرات)۔ قرآن حکیم میں کئی دوسرے مقامات پر بھی جھوٹی خبریں پھیلانے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ مخبرِ صادق، رسولِ رحمتؐ کا یہ فرمان بھی ہماری رہنمائی کے لیے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلاتا پھرے… قرآن و سنت کے ایسے واضح احکامات کے بعد کون ہوگا جو جھوٹی خبر کی وکالت کے لیے کھڑا ہوگا! البتہ صدارتی فرمان کے ذریعے جاری کیے گئے زیر بحث قانون سے متعلق اوّلین گزارش تو یہی ہے کہ اسے جمہوری طریقے سے ملک کی مجلسِ شوریٰ میں پیش کرکے باقاعدہ بحث مباحثے کے بعد قانون کی شکل دی جاتی تو یہ زیادہ بہتر اور قابلِ قبول راستہ ہوتا، کہ تحریک انصاف کی حکومت صبح شام جمہوری اصولوں کا راگ الاپتے نہیں تھکتی، اس لیے اُسے خود بھی جمہوری اصولوں کی پاسداری کی مثال پیش کرنا لازم ہے۔
موجودہ صورت میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں ہی نے نہیں بلکہ صحافتی اداروں کے مالکان، مدیران اور کارکنان سبھی کی نمائندہ تنظیموں نے اس قانون کو ناقابلِ قبول قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ اسے آزادیِ صحافت پر حملہ، اظہارِ رائے کو دبانے کی کوشش اور بدنیتی پر مبنی ٹھیراتے ہوئے اس کے خلاف قانونی راستے اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ملک گیر دھرنوں اور احتجاج کا اعلان بھی ان تنظیموں کی طرف سے کیا گیا ہے۔ صحافتی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی تنقید اور احتجاج سے قطع نظر اگر سنجیدگی سے اس قانون کا تجزیہ کیا جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں قبل ازیں جھوٹی خبروں کے تدارک کے قوانین موجود نہیں؟ جواب ہے کہ قوانین پہلے سے موجود ہیں مگر اصل کمزوری ان کے نفاذ میں ہے، جو صرف اسی قسم کے قوانین کا مسئلہ نہیں بلکہ کم و بیش سبھی قوانین کا معاملہ یہی ہے۔ ہمارا نظام لوگوں کو انصاف دینے میں قطعی ناکام ہے، یہ بااثر لوگوں کو تو ان کے حق سے بھی بہت کچھ زائد اور فوری طور پر فراہم کردیتا ہے مگر عام آدمی ساری ساری عمر عدالتوں میں جوتے چٹخانے کے باوجود انصاف سے محروم رہتا ہے اور اس کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ جس کے پاس لاٹھی ہو وہ بھینس لے جاتا ہے اور اصل مالک دیکھتا رہ جاتا ہے۔ انصاف میں تاخیر کو انصاف سے انکار کے مترادف قرار دیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے نظامِ انصاف کی حالت یہ ہے کہ اس وقت اکیس لاکھ سے زائد کیس عدالتوں میں فیصلہ طلب اور زیرالتوا ہیں، ایسے میں نئے قانون کا یہ پہلو حوصلہ افزا ہے کہ عدالت کو 6ماہ میں فیصلہ کرنے کا پابند کیا گیا ہے، مگر یہ پابندی صرف ایک قانون کے مقدمات تک ہی محدود کیوں رہے، اسے تمام مقدمات تک وسعت دے کر عام آدمی کو انصاف کی جلد فراہمی کو یقینی کیوں نہ بنایا جائے؟
پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس قانون کے تحت سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو جھوٹی خبر کی شکایت ملتے ہی خبر دینے والے کی گرفتاری کا جو اختیار دیا گیا ہے، اس کا جواز کیوں کر فراہم کیا جا سکتا ہے؟ عین ممکن ہے کہ جھوٹی قرار دی گئی خبر عدالتی فیصلے میں درست قرار پائے، اُس وقت صرف شکایت پر 6 ماہ تک زیر حراست رکھے گئے شخص کی شخصیت اور شہرت کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کی صورت کیا ہوگی؟ جرمِ بے گناہی میں اذیت اور قید میں گزرنے والے اس کی زندگی کے چھے ماہ اسے کون اور کیونکر واپس لوٹائے گا؟ اسی طرح اس قانون میں موجود کئی مزید سقم بھی گنوائے جا سکتے ہیں۔ اس لیے حکمرانوں سے گزارش ہے کہ مخصوص مقاصد کی خاطر آنکھیں بند کرکے شاہی فرمان، جن کی تعداد موجودہ حکومت کے دور میں ستّر کے قریب بتائی جاتی ہے، جاری کرتے چلے جانے کے بجائے نظامِ انصاف کی اصلاح اور عام آدمی کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی پر توجہ دیں۔ ورنہ اس طرح کی یک طرفہ قانون سازی کو قوم قبول کرے گی نہ متعلقہ حلقے… اور ایسا ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے جو پورے نظام کو لپیٹ کر رکھ دے۔
(حامد ریاض ڈوگر)