’کھرب پتی دیو‘

وطنِ عزیز کے بلند و بالا مقام دِیر بالا سے جناب عبید خان نے پوچھا ہے:
’’لکھ پتی، کروڑ پتی اور ارب پتی میں ’پتی‘ کے معنی کیا ہیں؟‘‘
عبید خان کے سوال کا جواب دینے سے پہلے اپنے صحافی بھائیوں سے ایک گلہ کرتے چلیں۔ ہمارے ہر قسم کے ذرائع ابلاغ خیبر پختون خوا کے اِس خوب صورت خطے کو ’اَپر دِیر‘ اور ’لوئر دِیر‘ لکھنے اور بولنے کا رواج عام کررہے ہیں۔ جب کہ اس علاقے کے باشندے آج بھی لفظ ’بالا‘ اور ’پائیں‘ استعمال کرتے ہیں۔ بالا کا مطلب ہے بلند یا اُوپرکا۔ پائیں کا مطلب نیچے یا نِچلا ہے۔ اِن دل کش الفاظ کو محض انگریزی سے مرعوبیت کا شکار ہوکر بے رواج کیا جارہا ہے۔ یہ اپنی قوم انگلش سے جب بیگانہ تھی تو لوگ گھروں کی چوکھٹ سے نیچے اُترکر خوشی خوشی اپنے ’پائیں باغ‘ کی سیر کرلیا کرتے تھے، اب اُترتے ہیں تو پریشانی کے عالم میں ‘Lawn’ میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں۔
ہندی زبان میں ’پَت‘ کہتے ہیں عزت، آبرو اور ساکھ کو۔ سندھی اور پنجابی زبان میں بھی یہی مفہوم ہے۔ یہ لفظ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جان ؔ صاحب کو ایک دن اُن کا محبوب گالی دے بیٹھا تو بُرا مان گئے کہ ہماری تو عزت ہی جاتی رہی۔ (وہاں تھی ہی کب؟)
گالی وہ نہ بھولے گی تمھاری
ناحق کو ہماری پَت اُتاری
’پتلون‘ اگرچہ ‘Pantaloon’ کی ’تارید‘ ہے، تاہم آپ کا جی چاہے تو پتلون کا ناتا بھی پت سے جوڑ لیجیے۔ ’ناحق کو ہماری پت اُتاری‘۔ ’عزت‘ کی طرح ’پت‘ کے ساتھ بھی ’جانا، اُتارنا، رکھنا اور گنوانا‘ استعمال کیا جاتا ہے (ہو لال مِری پَت رکھیو بھلا…) اللہ جانے یہ ’پانی پَت‘ کیا ہے جہاں بہت سی فوجوں کی پت پانی پانی ہوگئی۔ جو شخص عزت والا، مقام والا اور مرتبے والا ہو، اُسے ’پَتی‘ کہتے ہیں۔ یعنی جو مالک و مختار ہو، صاحبِ ملکیت ہو وہی ’پَتی‘ ہوتا ہے۔ چوں کہ عام طور پر دولت والوں کو عزت والا بھی سمجھ لیا جاتا ہے، چناں چہ اب معاشرے میں کسی صاحبِ کردار نادار کی تو عزت نہیں کی جاتی، مگر ہر بدکار زردار کو عزت والا مان لیا جاتا ہے۔ لکھ پتی، کروڑ پتی اور ارب پتی لوگوں کو معزز مان کر ’تشریفات‘ سے نوازا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو اب خیر سے کھرب پتی بھی پائے جاتے ہیں۔ لکھ پتی کا مطلب لاکھوں روپے کا مالک و مختار، کروڑ پتی کا مطلب کروڑوں روپے کا مالک، اور ارب پتی کا مطلب اربوں روپے کا مالک۔
’پ‘ پر زیر کے ساتھ پِت کے معنی ’صفرا‘ ہیں۔ یہ زرد رنگ کا ایک کڑوا پانی ہے جو جسم کے اندر پایا جاتا ہے۔ جسم کے جس عضو میں ’پِت‘ کا ذخیرہ ہوتا ہے اُسے ’پِتّا‘ کہتے ہیں۔ یہ جگر سے ملا ہوا عضو ہے۔ فارسی میں اسے ’زَہرہ‘ کہا جاتا ہے۔ صفراوی مزاج کا آدمی غصور اور جلد باز ہوتا ہے۔ اگر غصے کی جگہ تحمل و برداشت پیدا ہوجائے تو ’زہرہ آب‘ ہوجاتا ہے، جسے ’پِتّا پانی ہوجانا‘ بھی کہتے ہیں۔ تحمل رکھنے والے شخص کو ڈرپوک بھی سمجھ لیا جاتا ہے، اسی وجہ سے پِتّا پانی ہوجانے کا ایک مطلب خوف کھانا یا ڈر جانا بھی ہے۔ تکلیف برداشت کرنے اور زیادہ محنت و مشقت کرنے کو ’پِتّا مارنا‘ کہتے ہیں۔ مشکل اور محنت طلب کام کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ ’یہ تو بڑا پِِتّے ماری کا کام ہے‘۔
’پ‘ پر زبر کے ساتھ ’پَت‘ کو پَتّے کے مخفف کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً خزاں کے موسم میں پیڑوں سے پتّے جھڑنے کو ’پَت جھڑ‘ کہا جاتا ہے۔ آپ بھی کہیں گے کہ بات لکھ پتی، کروڑ پتی اور ارب پتی کی ہورہی تھی، تم یہ کیا خزاں کی باتیں لے کر بیٹھ گئے۔ تو صاحب خزاں اگرچہ دولت پر نہیں آتی، مگر دولت مند پر تو آتی ہے۔ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُر۔ آج کا لکھ پتی کل کو ’ککھ پتی‘ ہوسکتا ہے۔ اگر آپ معجون کی ڈبیا میں تنکا ڈال کر معجون نکالنے کی کوشش کریں تو تنکے پر معجون کی جتنی مقدار لگی ہوگی حکیم حضرات اُس کو ’ککھ‘ کہتے ہیں۔ زنانِ پنجاب ظالم دولت مندوں کو بالعموم یہ بد دُعا دیا کرتی ہیں کہ ’تیرا ککھ نہ رہے‘۔
لکھ پتی اور کروڑ پتی جیسے معنوں میں ہندی کی دوسری تراکیب بھی ہیں۔ مثلاً سرمایہ دار، دولت مند یا صاحبِ ثروت شخص کو ’پونجی پتی‘ کہا جاتا ہے۔ مذہبی پیشوا ’دھرم پتی‘ ہے۔ دُنیا کا مالک و مختار ہندی میں ’جگ پتی‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ’راشٹر‘ یعنی ’مملکت‘ کے سربراہ کو ’راشٹر پتی‘ کہتے ہیں۔ ’سَینا‘ کا مطلب ’سپاہ‘ ہیں، سو اِن کا سالار ’سَینا پتی‘ کہلاتا ہے۔ ’لوک سبھا‘ کا یا کسی بھی بزم کا میرِ مجلس ’سبھا پتی‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ’سبھا پتی‘ کو ’اسپیکر‘ یا ’چیئرمین‘ کہتے ہیں، اردو کی کوئی اصطلاح اِن پتیوں کو نصیب نہیں ہوئی۔
ہمارا کالم یہاں تک پڑھ کر تو ہر ’پتنی‘ کے پِتّی اُچھل چکی ہوگی کہ ہمارے پَتی کا ذکرآیا ہی نہیں۔ ’پِتّی اُچھلنا‘ یا ’پِتّی نکلنا‘ ایک بیماری ہے جو خون کے جوش مارنے سے بدن پر ’دَدوڑے‘ ڈال دیتی ہے۔ پھر ان ’دَدوڑوں‘ میں خارش ہونے لگتی ہے۔ ’دَدوڑا‘ اُس چوڑے سُرخ دانے کو کہتے ہیں جو مچھر کے کاٹنے یا خون کے جوش مارنے سے منہ اور جلد کے دیگر مقامات پر نمودار ہوجاتا ہے۔ شعورؔ کا شعر ہے:
گوری رنگت پہ قیامت ہے نکلنی پِتّی
رشکِ یاقوت نکل آیا دَدوڑا کیا کیا
اِس کالم کی پَت برقرار رکھنے کو، اور پتنیوں کو پِتّی سے نجات دلانے کو ایک دردناک داستان سنانی پڑے گی۔ مشرکانہ تہذیبوں میں عورت اجناس کی طرح بیچی اور خریدی جاتی تھی۔ اس کی ’ملکیت‘ منتقل ہوا کرتی تھی۔ یعنی ہر پتنی ایک ’منقولہ جائداد‘ تھی۔ خواہ وہ مشرکینِ عرب ہوں، مشرکینِ یونان ہوں یا مشرکینِ ہندوستان۔ ان میں سے کسی کے ہاں عورت اور ’مالِ مقبوضہ‘ میں کوئی فرق نہ تھا۔ قدیم انگریزی ناولوں، قصوں اور کہانیوں میں عورت اپنے شوہر کو “My master”کہتی ہوئی ملے گی۔ ایران کے آتش پرستوں کے ہاں بھی یہی تصور تھا۔ شوہر اپنی بیوی کا آقا، مالک اور مختار ہوتا تھا۔ فارسی میں مالک و مختار شخص کو ’خداوند‘ کہا جاتا ہے۔ چچا غالبؔ بھی بہادر شاہ ظفر کو ’’خداوند ولیِ نعمت‘‘ کے القاب سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ میاں بھی اپنی بیوی کا خداوند ہی ہوتا تھا۔ مگر ’خدائی‘ کے منصب سے گھٹتے گھٹتے یہ ’خداوند‘ بے چارہ اب فقط ’خاوند‘ ہوکر رہ گیا ہے۔ ضمیرؔ جعفری کو بھی اس کا قلق تھا۔ کہتے تھے:
جانِ محفل تھا خدا بخشے ضمیرؔ
اب تو اِک مدت سے شوہر ہو گیا
ہندوستان میں بھی عورت کا ’پتی‘ عورت کا مالک و مختار ہوتا تھا۔ ملکیت ایسی پختہ تھی کہ اگر پتی مرجائے تو عورت کو اُس کے ساتھ ہی سَتی ہونا پڑتا تھا۔ بھارت میں آج بھی شوہر کے لیے احتراماً ’پتی دیو‘ کا لقب استعمال کیا جاتا ہے۔ ’دیو‘ یہاں دیوتا کا مخفف ہے، جیسے ’مہادیو‘ سب سے بڑا دیوتا،’بُھو دیو‘ زمین کا دیوتا (جو برہمن کو کہتے ہیں)، اور’کام دیو‘ خواہشاتِ نفسانی کا دیوتا وغیرہ۔ گویا ’پتی دیو‘ کی پوجا لازم ہے۔ اوراگر وہ ’کھرب پتی دیو‘ ہو تو کیا کہنے۔
اسلام نے آکر میاں بیوی کو ’زوج، زوج‘ کیا۔ یعنی جوڑے دار یا جوڑی دار قرار دیا۔ ایک دوسرے کا لباس کہا۔ برابر کا درجہ دیا۔ دونوں میں تقسیمِ کار کی۔ دونوں کا دائرۂ کار متعین کیا۔ عورت ہو یا مرد اپنے جوڑے کے بغیر دونوں ادھورے اور نامکمل ہیں۔ عالم عرب میں بیوی کو ’’سَواء سَواء‘‘ یعنی مساوی، مساوی یا ہم پلہ کہا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں بیوی کو پاؤں کی جوتی کے برابر گردانا جاتا ہو، جوتی کی نوک پر رکھا جاتا ہو، یا کنیز اور لونڈی سمجھا جاتا ہو، تو جان لیجیے کہ وہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ ’جاہلیت‘ کی روایات کو تازہ کیا جا رہا ہے۔ اسلام نے ہماری اور آپ کی بیگمات کو بھی برابری کا مقام عطا کیا تھا، مگر وہ تو سر چڑھی جارہی ہیں۔