کورونا پابندیوں کے خلاف کینیڈا کا ٹرک دھرنا
تحفظ و انسدادِ کورونا کی پابندیوں کے خلاف کینیڈا میں 21 دن سے جاری ٹرک دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے طاقت کا استعمال شروع کردیا ہے۔ جمعرات 10 فروری کو کینیڈین ریاست اونٹاریو کی عدالتِ عظمیٰ نے دھرنا غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جمعہ کی شام سات بجے تک اونٹاریو کے شہر ونڈسر اور امریکی ریاست مشی گن کو ملانے والا Ambassador Bridge خالی کرانے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد گورنر ڈگلس فورڈ نے ہنگامی حالت نافذ کرکے پولیس کو دھرنا ختم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی ٹرک ڈرائیوروں سے گھر جانے یا اپنی راہ لینےکی درخواست کی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق عدالتی احکامات کے احترام میں درجنوں ٹرک راستے سے ہٹالیے گئے ہیں، اور وہاں موجود ڈرائیوروں نے پولیس کو پُرامن رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے، لیکن پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ پُرامن رہنا کافی نہیں بلکہ شاہراہ کو ہر قسم کے ٹریفک کے لیے کھلا رکھنا ضروری ہے۔ ایک دن پہلے پولیس نے متنبہ کیا تھا کہ ہفتے کے دن 11 بجے کے بعد وہاں کھڑے ٹرکوں میں موجود ڈرائیوروں کی گرفتاری شروع ہوجائے گی۔ ٹرکوں کے ساتھ ان کی حمایت میں شاہراہ پر دھرنا دیے عام لوگوں کو بھی وہاں سے چلے جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
دھرنے پر مُصِر ٹرک ڈرائیوروں اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی ناروا پابندیوں نے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردیے اور لاکھوں افراد نان ِ شبینہ کو محتاج ہوگئے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ قومی خزانے سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات پر عیش کرنے والے پالیسی سازوں کو کیا پتا کہ اگر پابندیوں اور لاک ڈائون کی وجہ سے دہاڑی دار ایک دن مزدوری پر نہ جاسکے تو اس کے زیرکفالت افراد کو کس عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پولیس کی متعدد تنبیہ کے باوجود سیکڑوں ٹرک اور ہزاروں مظاہرین پُل پر موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام لوگ غیر مسلح اور پُرامن ہیں اور ہم کسی صورت نہ تو قانون اپنے ہاتھ میں لیں گے اور نہ کسی قسم کا تشدد کریں گے۔ کینیڈا کا دستور اپنے شہریوں کو پُرامن احتجاج و مظاہرے کی ضمانت دیتا ہے اور ہم اپنے اسی حق کے استعمال کے لیے یہاں جمع ہیں۔ پولیس افسران بہلا پھسلاکر ڈرائیوروں کو ٹرک راستے سے ہٹانے پر امادہ کرتے نظر آرہے تھے۔
بات چیت کے ساتھ پکڑ دھکڑ اور آنسو گیس کا سلسلہ بھی جاری ہے، کہ بقول پولیس ”مردِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک بے اثر“۔ اکثر جگہ جزوی ٹریفک تو بحال ہوگیا ہے لیکن تادم تحریر مجمع منتشر نہیں ہوا۔ دارالحکومت اٹاوا میں اب بھی ہزاروں نعرہ زن افراد چوکوں اور چوراہوں پر بیٹھے ہیں۔ مظاہرین کی سیاسی و نظریاتی ہیئت خاصی متنوع ہے۔ ان کی اکثریت تو لازمی جدرین کاری کے مخالفین پر مشتمل ہے لیکن ہجوم میں دائیں بازو کے قدامت پسند بھی ہیں جنھیں وزیراعظم ٹروڈو کی لبرل معاشی پالیسی پسند نہیں۔ مہنگائی اور غربت کے ستائے لوگ بھی ہیں۔ ویکسین پاسپورٹ کے ساتھ ہائے مہنگائی اور ٹروڈو مُردہ باد کے نعرے بھی زور شور سے لگائے جارہے ہیں۔
کینیڈین حکام کا کہنا ہے کہ کورونا کی پابندیاں 15 فروری سے بتدریج ختم کی جارہی ہیں اس لیے دھرنا جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں، اور لاک ڈائون کے دوران ٹرک ڈرائیوروں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی کے لیے حکومت بات کرنے کو تیار ہے۔
تنازعے کا آغاز اُس وقت ہوا جب نومبر میں کورونا کی نئی قسم اومیکرون (Omicron) نے کینیڈا کے بڑے حصے کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ اومیکرون سے متاثر ہونے والوں کی اکثریت اُن افراد پر مشتمل ہے جنھوں نے حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائے۔ چنانچہ یورپی ممالک کی طرح کینیڈا میں بھی لازمی جدرین کاری(Vaccine Mandate)کا سلسلہ شروع ہوا۔ فضائی راستوں سے کینیڈا آنے والے غیر ملکیوں اور مقامی شہریوں کے لیے جانچ پڑتال اور شک کی صورت میں قرنطین کا انتظام موجود تھا، لیکن زمینی راستے سے واپس آنے والے کینیڈا کے شہریوں کے لیے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ چنانچہ ملک واپس آنے والے کینڈین شہریوں کے لیے ویکسین پاسپورٹ لازمی قرار دے دیا گیا جس پر جدرین کاری کی تفصیل موجود ہے۔ ویکسین پاسپورٹ پیش نہ کرنے والے افراد کے لیے امیگریشن کے بعد گھر جانے سے پہلے دو ہفتے قرنطین ضروری ہے۔
ٹرک ڈرائیوروں کے لیے یہ پابندی بے حد تکلیف دہ ہے۔ اس وقت تک 60 فیصد ٹرک ڈرائیوروں کی جدرین کاری ہوچکی ہے جن کی اکثریت کے پاس ویکسین پاسپورٹ موجود ہے۔ کچھ ڈرائیوروں کو ویکسین پر اعتماد نہیں اور وہ اس انجیکشن کو مضر صحت سمجھتے ہیں، جبکہ باقی افراد مذہبی اور دوسرے تحفظات کے پیش نظر جدرین کاری سے اجتناب کررہے ہیں۔ ان لوگوں کو کینیڈا واپسی پر مہنگے ہوٹلوں میں قرنطین کی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ جن لوگوں کی جدرین کاری ہوچکی ہیں ان میں سے بھی بہت لوگوں نے ویکسین پاسپورٹ نہیں بنوایا۔ ایسے افراد کو سرحد پر جانچ پڑتال کے مشکل مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔ ٹرک ڈرائیور طویل سفر کے بعد ملک پہنچتے ہیں۔ سفر کی تھکان اور اہلِ خانہ سے علیحدگی کا عذاب سہنے والے یہ محنت کش ملک میں داخل ہوتے ہی فوری طور پر گھر پہنچنا چاہتے ہیں، چنانچہ جانچ پڑتال کی کارروائی انھیں بہت گراں گزرتی ہے۔ چڑچڑے ڈرائیوروں اور امیگریشن حکام کے درمیان ناشائستہ جملوں کا تبادلہ عام ہے۔
اس سال کے آغاز پر ٹرک ڈرائیوروں نے کورونا پابندیاں، خاص طور سے لازمی جدرین کاری اور ویکسین پاسپورٹ ختم کرنے کے لیے تحریک چلانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مشن میں انھیں امریکی ٹرک ڈٖرائیوروں کی بھی اخلاقی حمایت حاصل تھی۔ احتجاجی تحریک کے لیے کاروانِ آزادی یا Freedom Convoy 2022نکالنے کا اعلان کیا گیا۔ اخراجات کے لیے اعانت جمع کرنے کی مشہور ویب سائٹ GoFundMeپر اپیل شایع کی گئی۔ کارواں کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے تحریک کے ترجمان بین ڈکٹر (Ben Dichter) نے کہا کہ ہمارا نصب العین لازمی جدرین کاری اور ویکسین پاسپورٹ کا خاتمہ ہے۔ جناب ڈکٹر کے خیال میں ویکسین پاسپورٹ نے ڈرائیوروں کی زندگی جہنم بنادی ہے، اور اس کے خاتمے پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ویکسین پر ٹرک ڈرائیوروں کو کوئی اعتراض نہیں لیکن ریاست اسے لازم نہیں کرسکتی۔ کینیڈا آزاد انسانوں کا ملک ہے اور حکومت کو ہماری رضامندی کے خلاف کوئی ضابطہ مسلط کرنے کا حق نہیں۔
ڈرائیوروں کے اس اعلان پر جہاں امریکہ اور کینیڈا کی حکومتوں کے ماتھے پر بل آئے، وہیں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فرانس اور برطانیہ سمیت کئی دوسرے ملکوں کی ٹرک ڈرائیور انجمنوں نے اس فیصلے کا زبردست خیرمقدم کیا۔
تحریک کا آغاز برٹش کولمبیا صوبے سے ہوا، اور 22 جنوری کو صبح سویرے ساحلی شہر پرنس روپرٹ سے روانہ ہونے والا قافلہ شمالی برٹش کولمبیا کے سب سے بڑے شہر پرنس جارج پہنچ گیا۔ دوسرے دن ایک اور قافلہ وینکور (Vancouver) کے مضافاتی شہر ڈیلٹا سے روانہ ہوا، اور ان دونوں قافلوں نے شہر سے نکلنے والی مرکزی شاہراہ بند کردی۔
یہ دونوں کارواں منتظمین کی توقع سے بڑے تھے، جس سے حوصلہ پاکر ہر صوبے سے قافلے نکالنے کا اعلان کیا گیا۔ 24 جنوری کو امریکی سرحد کے قریب کینیڈین شہر ریجینا(Regina)سے 1200 گاڑیوں کے قافلے نے مرکزِ شہر پہنچ کر ٹریفک کے نظام کو مفلوج کردیا۔
اس کے دوسرے دن یعنی 25 جنوری کو تمام قافلے دارالحکومت اٹاوا (Ottawa) پہنچے، جہاں سیکڑوں گاڑیوں کے ساتھ دو ہزار سے زیادہ پیدل مظاہرین بھی تھے۔ اس کے بعد ہر روز کئی سو اضافی گاڑیاں اٹاوا آنے لگیں۔ ٹرک ڈرائیوروں سے یکجہتی کے لیے نجی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر دارالحکومت آنے والے افراد نے عملاً شہر پر قبضہ کرلیا، اور ایمبولینس کے سوا کسی گاڑی کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی۔ قرب و جوار کے دیہاتوں سے نعرہ زن کسان اپنے ٹریکٹر بھی وہاں لے آئے۔
دوسرے مرحلے میں امریکی سرحد کو مسدود کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، 29 جنوری کو کینیڈا کے صوبے البرٹا (Alberta) اور امریکی ریاست مونٹانا (Montana) کی سرحد بند کردی گئی۔ البرٹا مویشی بانی کا بڑا مرکز ہے، اور یہاں سے سیکڑوں ٹن گوشت امریکہ بھیجا جاتا ہے۔ سرحد بند ہونے سے جہاں امریکہ میں سور کے گوشت کی قلت پیدا ہوگئی وہیں دوسری طرف کینیڈا کے قصاب اور گوشت کے آڑھتی پریشان ہوگئے۔ منت سماجت کے بعد دھرنا دینے والوں نے گوشت سے لدے 50 ٹرکوں کو امریکہ جانے کی اجازت دے دی۔
چچاسام کی حقیقی پریشانی 7 فروری سے شروع ہوئی جب مظاہرین نے ایمبیسیڈر پُل کو ہر قسم کے ٹریفک کے لیے بند کردیا۔ دریائے ڈیٹرائٹ پر تعمیر کیا جانے والا یہ سوا دوکلومیٹر طویل پُل، گاڑی سازی کی امریکی صنعت کے لیے شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کینیڈا اور امریکہ کے مابین تجارتی حجم 511 ارب ڈالر ہے، جس میں دوتہائی یعنی 337 ارب ڈالر مالیت کا سامانِ تجارت بری راستے سے بھیجا جاتا ہے۔ (بحوالہ ”الجزیرہ“)
امریکہ اور کینیڈا کے درمیان تجارتی مال و اسباب کی ایک چوتھائی نقل و حمل اسی پل کے ذریعے ہوتی ہے، اور ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ امریکیوں کا روزگار ایمبیسیڈر پل سے ہونے والی آمدورفت سے وابستہ ہے۔ ڈیٹرائٹ ایک زمانے تک دنیا کا موٹر وہیکل کیپٹل کہلاتا تھا۔ اب ڈیٹرائٹ گاڑی سازی کا عالمی مرکز تو نہیں رہا لیکن یہ شہر امریکہ میں اِس صنعت کی شناخت ہے۔
امریکی اور کینیڈین گاڑی کی صنعتوں کا انحصار ایک دوسرے پر ہے، یعنی انجن کہیں بنتا ہے تو بریک دوسرے ملک سے آتے ہیں۔ گاڑیوں کے دروازے امریکی ساختہ ہیں تو اس کے ہینڈل کینیڈا میں بنتے ہیں۔ ایمبیسیڈر پُل کے بند ہونے سے گاڑیاں بنانے کے دونوں بڑے کارخانے فورڈ اور جنرل موٹرز کے ساتھ جاپانی کارساز ادارے ٹویوٹا کے ڈیٹرائٹ پلانٹ پر پیداوار معطل ہوگئی، جس کی وجہ سے نئی گاڑیوں کی قلت کے ساتھ پرانی گاڑیوں کی مرمت کا کام مشکل اور مہنگا ہوگیا ہے، کہ ضروری پرزہ جات کینیڈا سے آتے ہیں۔
اسی کے ساتھ اشیائے خورونوش خاص طور سے گوشت اور گوشت سے بنی مصنوعات کی دستیابی مشکل ہوگئی ہے، جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دکان دار من مانے نرخ وصول کررہے ہیں۔ کورونا کی پابندیوں کی وجہ سے امریکی بندرگاہوں پر کام بہت سست ہے۔ جہازوں سے مال اتارنے اور چڑھانے میں تاخیر، اور پھر بندرگاہ سے سامان شہر لانے کے لیے ٹرک ڈرائیور بھی ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے جہاں بازاروں میں مال کی قلت ہے، وہیں دوسرے ممالک سے امریکہ آنے والے جہاز کئی کئی دن گہرے پانیوں میں چکر لگاتے ہوئے ایندھن پھونک رہے ہیں، کہ بندرگاہ کے قریب ایک بھی لنگر خالی نہیں جہاں وہ پڑائو ڈال سکیں۔ کھلونے، الیکٹرانکس، فیشن ایبل ملبوسات، بھاری مشینری اور دوسری مصنوعات سے لدے جہاز ان بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں خام تیل اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں جو غیر معمولی اضافہ نظر آرہا ہے اس کی بڑی وجہ امریکہ، چین، اور یورپین بندگاہوں پر بحری ٹریفک کا جام ہونا ہے، جسے کاروباری اصطلاح میں شکستگیِ زنجیرِ فراہمی (Supply Chain) کہا جارہا ہے۔
بحری ٹریفک جام کے نتیجے میں نازل ہونے والا قلت و مہنگائی کا عذاب کیا کم تھا کہ ٹرکوں کے دھرنے نے زنجیرِ فراہمی کے ایک اور حلقے کو مفلوج کردیا ہے۔
فی الحال تو یہ بحران صرف امریکہ کی شمالی سرحدوں تک محدود ہے، لیکن خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا نظر آرہا ہے۔ امریکی وزارتِ داخلی سلامتی (DHS) کا کہنا ہے کہ کیلی فورنیا کے ٹرک ڈرائیور بھی اجرتوں میں اضافے اور بہتر سہولیات کے لیے ٹرک کارواں نکالنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ ہفتے کو جب کینیڈین حکام اپنے ٹرک ڈرائیوروں کو دھرنا ختم کردینے پر آمادہ کررہے تھے، عین اسی وقت ٹرکوں کا ایک قافلہ فرانس کے دارالحکومت پیرس کی طرف جاتا نظر آیا۔ آنسو گیس، گرفتاریوں اور پولیس رکاوٹوں کے ذریعے ٹرکوں کا یہ جلوس منتشر کردیا گیا لیکن جاتے جاتے ڈرائیور کہہ گئے ہیں کہ ”ہم دوبارہ آئیں گے“۔ اشیائے ضرورت کی قلت اور مہنگائی سے دنیا بھر کے محنت کش مضطرب ہیں۔ لاک ڈائون اور انسدادِ کورونا کی دوسری پابندیاں غریبوں کے اسبابِ حیات کو چاٹ چکی ہیں۔ حکومتیں ان لوگوں کی دادرسی کے بجائے اپنے دکھڑے رو رہی ہیں۔ ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ ٹرک دھرنا اور سرحدوں کی بندش آنے والے دنوں میں احتجاج کا نیا عنوان بن سکتا ہے۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔