معروف ماہرِ تعلیم ، ادیب اور منتظم، سابق سربراہ گورنمنٹ ڈگری کالج برائے طلبہ و طالبات کندھ کوٹ
ملک بھر کی طرح صوبہ سندھ کے چھوٹے شہروں، قصبات اور گوٹھوں میں بھی بہت ساری ایسی بڑی شخصیات قیام پذیر ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے اپنے شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دے کر عزت اور ناموری حاصل کی، بلکہ اپنی محنت، لگن، اخلاص ِنیت اور جستجو کی بنا پر کامیابی حاصل کرکے اوروں کے لیے بھی ایک مثال قائم کی ہے۔ ایسی تمام شخصیات بلاشبہ ’’چھوٹا شہر بڑا آدمی‘‘ کے لقب کی سزاوار قرار پاتی ہیں۔ ایسی ہی شخصیات میں ایک نامِ نامی پروفیسر حفیظ اللہ سندرانی کا بھی ہے جنہوں نے ذرّے سے آفتاب بننے کا سفر محولہ بالا اوصاف کی وجہ سے طے کیا ہے اور نیک نامی سمیٹی ہے۔ حفیظ اللہ ولد صوبیدار خان سندرانی 8 فروری 1961ء کو اپنے دادا جان مرحوم کے نام پر قائم کردہ گوٹھ وفادار خان سندرانی دیہہ لوگی، تعلقہ ٹھل ضلع جیکب آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے تین بھائی اور تین ہی بہنیں بھی ہیں۔ سندرانی صاحب نے ناظرہ قرآن پاک کی تعلیم قریبی گوٹھ خدا بخش نوناری میں مرحوم استاد یار محمد ولد سونو خان نوناری سے حاصل کی۔ باقاعدہ طور پر مدرسے میں نہ پڑھنے کے باوجود مطالعۂ کتب کی بدولت دینی معلومات سے بہرہ مند ہوئے۔ 1974ء میں پرائمری کی تعلیم اسی گائوں کے اسکول، اور پھر مڈل کی تعلیم بھی یہیں سے اپنے وقت کے نامور اساتذہ غلام قادر نوناری، حافظ محمد کامل نوناری، حاجی عبدالغفور نوناری، محمد ایوب نوناری اور استاد پیارو خان نوناری سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان 1979ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول تنگوانی سے دیا، جہاں ان کے اساتذہ محمد دائم خان مگسی، محمد تگیل جکھرانی، محمد بخش اوگاہی، محمد عثمان لاشاری، شاہ بخش مگسی، اللہ یار ڈھائی تھے۔ 1981ء میں گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کندھ کوٹ سے انٹر کیا۔ یہاں بھی خوش قسمتی سے انہوں نے بڑے قابل اساتذہ سے تعلیم حاصل کی جن میں پروفیسر محمد نواز سومرو، پروفیسر کوڑراخ، پروفیسر امان اللہ بنگلانی، پروفیسر واجد علی پڑھیار، پروفیسر غلام اکبر ڈھانی اور پروفیسر عبدالخالق سہریانی (ان کا تعارف اسی سلسلے کے تحت فرائیڈے اسپیشل میں چھپ چکا ہے) کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ یہاں پر قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ بعدازاں سندرانی صاحب نے اسی کالج میں بطور 18 ویں پرنسپل کے بھی اپنے فرائض سر انجام دیئے۔ پروفیسر موصوف نے بی اے کی سند گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد سے 1984ء میں زیراہتمام سندھ یونیورسٹی سیکنڈ کلاس میں حاصل کرنے کے بعد اسی کالج سے ایم اے اسلامک کلچر کی سند زیراہتمام شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے فرسٹ کلاس تھرڈ پوزیشن میں، اور 1989ء میں یہیں سے ایم اے تاریخ کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1999ء میں شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور کی جانب سے منعقدہ اوّلین کنونشن میں یونیورسٹی نے انہیں ڈگری کے ساتھ نمایاں نمبر حاصل کرنے پر سابق وزیراعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ کے ہاتھوں چاندی کا تمغا بھی عطا کیا۔پیشہ ورانہ تعلیم: 1988ء میں گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج لاڑکانہ سے سی ٹی کا کورس اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ محنت، اعلیٰ تحریر اور خوش خطی کی وجہ سے اُس وقت کے کالج کے پرنسپل، بارہا صدارتی انعام یافتہ نامور مصنف پروفیسر ڈاکٹر عبدالہادی سرہیو نے (ان کا تفصیلی تعارف بھی اس سلسلے کے تحت چند برس پہلے شائع ہوچکا ہے) انہیں اعزازی سند عطا کی۔ عمدہ کارکردگی پر بعدازاں اسی کالج کے بعد میں مقرر ہونے والے پرنسپل پروفیسر عطا محمد سہاگ نے بھی اعزازی سرٹیفکیٹ سے نوازا۔ 1982ء میں انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے زیراہتمام بی ایڈ کا امتحان پاس کیا۔ اپنے اس تمام تر تعلیمی سفر کے دوران موصوف نے بے شمار کتب کا مطالعہ کیا اور خاصی کتب بھی جمع کیں، کیوں کہ مطالعۂ کتب کا شوق اوائل عمری ہی سے تھا، اور اِس وقت بھی ان کی ذاتی لائبریری میں مختلف النوع موضوعات پر لگ بھگ تین ہزار کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ رجحان آغاز سے ہی پڑھنے پڑھانے کی طرف تھا، نیز موصوف ایک بہترین خطاط اور خوش خط بھی ہیں۔ ایک مرتبہ جب محمد امین کھوسو مرحوم کی برسی کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر جیکب آباد اور مہمانِ خاص محمد ہارون میمن کو سندرانی صاحب کا تیار کردہ ضلع جیکب آباد کا نقشہ پیش کیا گیا تو وہ ان کے فن، کام اور قابلیت سے اتنے زیادہ متاثر ہوئے کہ بذریعہ ایس ڈی ایم نذیر احمد عباسی انہیں نہ صرف 500 روپے کا انعام دیا بلکہ تپیدار (جسے صوبہ سندھ میں بڑی قدر و قیمت سے دیکھا جاتا ہے) کی ملازمت دینے کی پیشکش بھی کی، لیکن اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ تعلیم و تعلم کی طرف فطری رجحان کی وجہ سے انہوں نے معذرت کرلی۔ ا گلے برس ایک دفعہ پھر یہی پیشکش ڈی سی موصوف کی طرف سے دہرائی گئی لیکن اس کا جواب بھی انہوں نے حسبِ سابق وہی دیا۔ دیگر شعبوں میں ملنے والے ملازمت کے مواقع سے بھی مذکورہ سبب سے اجتناب کیا۔پروفیسر حفیظ اللہ سندرانی نے مختلف اوقات میں تین شادیاں کیں اور کثیرالعیال فرد ہیں، ان کا سارا کنبہ کُل ملاکر 49 افراد پر مشتمل ہے جن میں بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی شامل ہیں۔ آٹھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں شادی شدہ ہیں، ان کے 12 صاحبزادوں میں سے کلیم اللہ اور قدرت اللہ عالم قرآن، صفی اللہ حافظِ قرآن، اور نصراللہ لیکچرر، سیف اللہ ایم ایس کے نرسنگ پاس ہیں، جبکہ دیگر صاحبزادے بھی برسرروزگار ہیں، ساری بیٹیاں بھی پڑھی لکھی ہیں۔ شادی شدہ ساری اولاد بھی صاحبِ اولاد ہے۔ تمام اولاد ان کے زیرکفالت، نیک اوصاف ہے۔ سلسلۂ تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے ابتداً چھوٹی موٹی ملازمتیں کرنے کے بعد 5 فروری 1986ء تا 14 اپریل 1993ء بطور پرائمری ٹیچر فرائض انجام دیئے۔ موصوف نے جن تعلیمی اداروں میں بھی پڑھایا، نیک نامی اور شہرت حاصل کی۔ دیگر اسکولوں کے طلبہ بھی بہ غرضِ تعلیم اپنے سرٹیفکیٹس نکلواکر ان کے اسکول میں داخلہ لیا کرتے تھے۔ انہیں انگریزی، اردو، سندھی، سرائیکی اور بلوچی زبانوں پر دسترس حاصل ہے۔ 5 اپریل 1993ء کو سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ ڈگری کالج ٹھل میں اسلامک کلچر کے لیکچرر تعینات ہوئے۔ نومبر 2009ء میں ترقی پاکر اسی کالج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 11مئی 2018ء کو ترقی پاکر گریڈ 19 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بن گئے اور انہیں گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کندھ کوٹ میں مقرر کیا گیا۔ دورانِ ملازمت سندرانی صاحب نے بطور معلّم بہت سارے نامور اور لائق وفائق طلبہ بھی تیار کیے جن کی ایک بڑی تعداد ملک کے مختلف سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ پروفیسر صاحب 7فروری 2021ء کو اپنی مدتِ ملازمت بحسن وخوبی پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوگئے۔ بطور پرنسپل انہوں نے اپنے کالج کی بہتری اور ترقی کے لیے متعدد یادگار اور نمایاں امور سر انجام دیئے جس کی وجہ سے انہیں ایک اچھا منتظم بھی گردانا جاتا ہے اور ان کا شمار کامیاب ترین پرنسپلز میں کیا جاتا ہے۔دورانِ ملازمت اعلیٰ کارکردگی پر بارہا انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ اپریل 2007ء میں انہیں گورنمنٹ ڈگری کالج ٹھل میں منعقدہ ایک تقریب میں سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر سہراب سرکی نے ’’بہترین استاد‘‘ کا ایوارڈ دیا۔ 2018ء میں پروفیسر لیاقت علی گھانگرو ریجنل ڈائریکٹر کالجز لاڑکانہ نے انہیں سندھ کالجز گیمز کے حوالے سے شیلڈ دی۔ (باقی صفحہ 41پر)کالج کے علاوہ اپنی قوم اور قبیلے کے افراد کو بھی پڑھاتے رہے ہیں اور بعداز ریٹائرمنٹ بھی انہوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اپنے گائوں میں ایک مسجد اور مدرسے کی تعمیر کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ساری حیاتِ مستعار طلبہ کو پڑھانے میں گزاری ہے، وہ ایک اچھے ادیب بھی ہیں، ان کا مضمون اسلامیات رہا ہے، لہٰذا ان کی بیشتر تحاریر اور مقالہ جات بھی اسی حوالے سے شائع ہوئے ہیں۔ شخصی طور پر بے حد خوش اخلاق، وضع دار اور اچھے انسان ہیں۔ دینِ اسلام سے والہانہ لگائو رکھتے ہیں۔ راسخ العقیدہ مسلمان اور صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بطور صدقۂ جاریہ بہترین خوش خطی کے ساتھ باوضو ہوکر قرآن پاک کا جو قلمی نسخہ لکھا ہے وہ اِن شاء اللہ اُن کے لیے توشۂ آخرت ثابت ہوگا۔انگریزی سکھانے کی غرض سے ان کی لکھی گئی کتاب ’’الحفیظ پارٹس آف اسپیج‘‘ طلبہ کی دل پسند کتاب ہے۔ موصوف کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے موقع پر معروف اسکالر پروفیسر ڈاکٹر محمد شریف شاد سومرو نے (جن کا تعارف فرائیڈے اسپیشل میں چھپ چکا ہے) بطور یادگار ایک کتاب بعنوان ’’پروفیسر حفیظ اللہ سندرانی جون تعلیمی، علمی ء ادبی خدمتون‘‘ سندھی زبان میں تحریر کی ہے، جس میں ان کی خدمات کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اس میں سندرانی صاحب کے تحریر کردہ مضامین اور ان کے بارے میں دیگر معلومات شامل ہیں۔پسندیدہ ادیب: مولانا اشرف علی تھانویؒپسندیدہ شاعر: شاہ عبداللطیف بھٹائیؒپسندیدہ کتب: تفاسیر اور احادیث کی کتبپسندیدہ کھانا: سبزیاںپسندیدہ پھل: آمپیغام: بحیثیت مسلمان کے ہمارا یہ فرضِ اوّلین بنتا ہے کہ ہم مطالعۂ قرآن و احادیث اور سیرتِ نبویؐ کریں۔ اپنی عملی زندگی میں دینِ اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہوں تاکہ ہماری دنیا و آخرت سنور سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ دورِ جدید میں کامیابی کے حصول کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم پر بھی دسترس حاصل کریں تاکہ نئے دور کے چیلنجز سے عہدہ برا ہوپائیں۔