مولانا مودودی ؒکے چار خطوط

مجھے اپنی ایک پرانی فائل سے حضرت مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے اپنے نام چار خطوط ملے۔ خطوط کا پس منظر درج ذیل ہے:خط نمبر-1 میں اگست 1957ء میں گورنمنٹ کالج منٹگمری ( اب ساہیوال) میں ایف اے کا طالب علم تھا۔ اُن دنوں مجھے تفہیم القرآن کی جلد اوّل مہیا ہوئی اور میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا۔ اور اس کے بعد ہماری لائبریری (اسلامی جمعیت طلبہ کی) میں دوسری جلد دستیاب نہ تھی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابھی یہ تفسیر مکمل نہیں لکھی گئی، تو میں نے حضرت مولاناؒ کی خدمت میں اپنے والہانہ اشتیاق سے مضطرب ہوکر ایک خط لکھ کر التماس کی کہ آں جناب سارے کام چھوڑ کر تفہیم القرآن کو مکمل کریں۔ اس عرض داشت کے جواب میں یہ خط لکھا گیا۔ اُس زمانے میں چودھری محمد یحییٰ صاحب مرکزِ جماعت اچھرہ میں مولانا کے معاون تھے۔ یہ جواب اُن کے قلم سے نکلا تھا۔خط نمبر-2 دوسرا خط میں نے گرامی منزلت پیر و مرشد سید مودودیؒ کو اُس وقت لکھا جب میں نے ایم اے کا پرائیویٹ امتحان دیا تھا، اور میں نے کامیابی کے لیے دعا کرنے کی درخواست کی تھی۔ مولاناؒ کی خدمت میں خط لکھتے وقت جذباتی کیفیت طاری تھی، اس لیے میرا خط طویل ہوگیا۔ یہ پوسٹ کارڈ اسی طلبِ دعا کے جواب میں لکھا گیا تھا۔خط نمبر-3 2مارچ 1960ء والا خط میری اس درخواست کے جواب میں لکھا گیا تھا جس میں بانسری بجانے سے متعلق استفسار تھا۔ اس کے جواب میں یہ مفصل خط لکھا گیا تھا۔خط نمبر-4 10نومبر 1960ء کا خط پرائز بانڈ کے سلسلے میں اس پر ملنے والے منافع کی اصل حقیقت سمجھنے کے لیے لکھا گیا تھا۔قارئین! تیسرا اور چوتھا خط دیکھ کر اندازہ ہوجائے گا کہ مولانا محترم کس قدر شفقت اور معلمانہ اُنس سے مسئلہ سمجھانے کے لیے وضاحت سے کام لیتے تھے۔(1)مورخہ14اگست 1957ءمحترمی و مکرمی السلام علیکم و رحمتہ اللہجناب کا عنایت نامہ مولانا مودودیؒ صاحب کو ملا۔ ان کی جانب سے جواب درج ذیل ہے:’’میں خود یہ آرزو رکھتا ہوں کہ مرنے سے پہلے یہ کام مکمل کر جائوں، مگر افسوس ہے کہ صحت کی خرابی اور کاموں کی کثرت مجھے موقع نہیں دے رہی ہے۔ کوشش کروں گا کہ جلد ہی اس کام کے لیے کچھ وقت الگ کردوں‘‘۔خاکسارمحمد یحییٰ(برائے مولانا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی)……٭٭٭……(2)اچھرہ لاہور31-10-64مکرمی و محترمی، السلام علیکم و رحمتہ اللہآپ کا طویل مکتوب ملا۔ میں آپ کے حق میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو دنیا و عقبیٰ کے سارے امتحانات میں کامیاب کرے اور عاقبت بخیر کرے۔خاکسارابوالاعلیٰ……٭٭٭……(3)اچھرہ، لاہور2مارچ 1960ءمکرمی، السلام و رحمتہ اللہآپ کا عنایت نامہ ملا۔ اس مضمون کی احادیث موجود ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ نے بنسری کی آواز سن کر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی تھیں اور بیان کیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے موقع پر ایسا ہی عمل فرمایا تھا۔ جس روایت میں خاص یہ واقعہ بیان ہوا ہے اس کو بعض محدثین نے منکر کہا ہے، لیکن بعض دوسرے محدثین کے قول کے مطابق ان میں انکار کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ ان کے راوی سب ثقہ ہیں اور ان میں کوئی بات دوسری احادیثِ صحیحہ کے خلاف نہیں۔غنا اور آلاتِ موسیقی کی کراہت و حرمت کا انحصار صرف ایک دو احادیثِ مذکورہ پر ہی نہیں ہے۔ اس بارے میں دیگر متعدد احادیث موجود ہیں جن سے شریعت کا منشا اور نقطہ نظر بالکل واضح ہوجاتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام گانے بجانے اور آلاتِ طرب کی قطعاً حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ اسلام میں صرف شادی کے موقع پر دف بجانے کی اجازت ہے۔ دف کی آواز سے راگ اور موسیقی پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کا اصل مقصود اعلانِ نکاح ہے۔ اس پر قیاس کرکے ڈھول بجانے کو بھی جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ ماسوا دف کے، کوئی اور ایسی مثال نہیں ملتی کہ عہدِ نبویؐ میں کسی دوسرے آلۂ موسیقی کو استعمال کیا گیا ہو، یا اس کے استعمال کو جائز اور مباح قرار دیا گیا ہو، حالانکہ اس معاشرے میں راگ رنگ عام طور پر رائج تھا اور باقاعدہ مغنی اور مغنیات ہر جگہ موجود تھے۔موسیقی اور اس کے آلات کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کے اندر بے خودی اور سرمستی پیدا کرکے اس کے قوائے ذہنیہ و عملیہ کو معطل کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی شراب ہے جو کانوں کے رستے ہمارے اندر انڈیلی جاتی ہے۔ آپ نے بنسری سے پیدا شدہ اثرات و کوائف کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے وہ خود بتارہے ہیں کہ اس سے ایک مدہوشی اور خود فراموشی کا عالم طاری ہوجاتا ہے۔ یہی جنون و وارفتگی بسا اوقات انسان کو عیاشی اور معصیت کے راستوں پر گامزن کردیتی ہے۔ مان لیا کہ آپ یا آپ جیسے دوسرے چند انسانوں کے اندر موسیقی سے جنسی اور سفلی جذبات برانگیختہ نہ ہوتے ہوں، لیکن اس طرح کی استثنائی صورتیں کم ہی ہوتی ہیں، اور جو ہوں وہ بھی زیادہ دیرپا نہیں ہوتیں۔ تاریخِ انسانی کا عام مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ موسیقی اور بدکاری کے مابین ہمیشہ سے نہایت گہرا رشتہ رہا ہے۔ اسلام کا یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ وہ برائی کے گردا گرد دور دور تک باڑھ لگاتا ہے، اور اس طرف جانے والے سارے راستوں پر قدغن لگا دیتا ہے تاکہ انسان اس کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائے۔ اسی طرح اسلام جو قاعدہ اور قانون بھی مقرر کرتا ہے وہ عام فطرتِ انسانی کا لحاظ رکھ کر کرتا ہے، وہ مستثنیات کو سامنے رکھ کر قانون نہیں بناتا۔ مثال کے طور پر کچھ انسان ایسے ہوسکتے ہیں جو شراب پی کر بدمست نہ ہوں اور کسی بدتمیزی کا صدور اُن سے نہ ہو، لیکن اکثر حالات میں چونکہ شراب عقل و تمیز کو معطل کردیتی ہے اس لیے اسلام نے اسے حرام کردیا ہے۔خاکسار(معاون مولانا ابوالاعلیٰ مودودی)یہ جواب میری ہدایات کے مطابق ہےابوالاعلیٰ……٭٭٭……(4)اچھرہ، لاہور10 نومبر 1960ءمکرمی، السلام علیکم و رحمتہ اللہآپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:-1 انعامی بانڈز کے معاملے میں صحیح صورتِ واقعہ یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈز بھی اسی نوعیت کے قرضے ہیں جو حکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لیے لوگوں سے لیتی ہے اور ان پر سود ادا کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہر وثیقہ دار کو اس کی دی ہوئی رقم پر فرداً فرداً سود دیا جاتا تھا، مگر اب جملہ رقم کا سود جمع کرکے اسے چند وثیقہ داروں کو بڑے بڑے ’’انعامات‘‘ کی شکل میں دیا جائے گا، اور اس امر کا فیصلہ کہ یہ ’’انعامات‘‘ کن کو دیئے جائیں، قرعہ اندازی کے ذریعے سے کیا جائے گا۔ پہلے ہر وثیقہ دار کو سود کا لالچ دے کر اس سے قرض لیا جاتا تھا۔ اب اس کے بجائے ہر ایک کو یہ لالچ دیا جاتا ہے کہ شاید ہزاروں روپے کا ’’انعام‘‘ تیرے ہی نام نکل آئے، اس لیے قسمت آزمائی کرلے۔یہ صورتِ واقعہ صاف بتاتی ہے کہ اس میں سود بھی ہے اور روحِ قمار بھی۔ جو شخص یہ وثائق خریدتا ہے وہ اولاً اپنا روپیہ جان بوجھ کر ایسے کام میں قرض کے طور پر دیتا ہے جس میں سود لگایا جاتا ہے۔ ثانیاً جس کے نام پر ’’انعام‘‘ نکلتا ہے اُسے دراصل وہ سود اکٹھا ہوکر ملتا ہے جو عام سودی معاملات میں فرداً فرداً ایک ایک وثیقہ دار کو دیا جاتا ہے۔ ثالثاً جو شخص بھی یہ وثیقے خریدتا ہے وہ مجرد قرض نہیں دیتا بلکہ اس لالچ میں قرض دیتا ہے کہ اسے اصل سے زائد ’’انعام‘‘ ملے گا۔ اور یہی لالچ دے کر قرض لینے والا اس کو قرض دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لیے اس میں نیت سودی لین دین ہی کی ہوتی ہے۔ رابعاً جمع شدہ سود کی وہ رقم جو بصورت ’’انعام‘‘ دی جاتی ہے اس کا کسی وثیقہ دار کو ملنا اسی طریقے پر ہوتا ہے جس پر لاٹری میں لوگوں کے نام ’’انعامات‘‘ نکلا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا باقی تمام لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیہ ایک انعام دار کو مل جاتا ہے۔ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل رقمِ قرض نہیں ماری جاتی بلکہ صرف وہ سود، جو سودی کاروبار کے عام قاعدے کے مطابق ہر رائن کو اُس کی دی ہوئی رقمِ قرض پر ملا کرتا ہے، انہیں نہیں ملتا، بلکہ قرعے کے ذریعے سے نام نکل آنے کا اتفاقی حادثہ ان سب کے حصوں کا سود ایک یا چند آدمیوں تک پہنچنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ بعینہٖ قمار تو نہیں ہے مگر اس میں روحِ قمار ضرور موجود ہے۔-2 مرزاعی کو سلام کرنے میں سبقت کرنے کی ضرورت نہیں۔-3 غیر مسلم کے ساتھ مل کر حلال شے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں، البتہ منتظم یا عہدیدار کے طور پر غیر مسلم کے انتخاب میں رائے دینا صحیح نہیں۔-4 عیسائی یا مرزائی کے سلام کے جواب میں صرف وعلیکم کہہ دینا چاہیے۔-5 یہ کہنا غلط ہے کہ قرون اولیٰ میں مسلمان غیر مسلموں کو سلام مسنون (یعنی سلام علیکم) کہتے تھے۔ البتہ ’’سلام علی من اتبع الہدی‘‘ کہا جاتا تھا (سلام ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی)۔ ظاہر ہے کہ اس سلام کا مخاطب وہ ہے جو ہدایت پر ہے۔ آپ چاہیں تو یہ الفاظ آج بھی کہہ سکتے ہیں۔خاکسارابوالاعلیٰ