کتاب
:
اسلامی بینکاری کی تشکیلِ جدید
مصنف
:
اشتیاق احمد فاروق
سابق مشیر اسٹیٹ بینک آف پاکستان
(بینک دولت پاکستان)
صفحات
:
80 قیمت:230 روپے
باہتمام
:
ادارہ معارفِ اسلامی، منصورہ ملتان روڈ لاہور
فون
:
042-35252475,35419520-24
ای میل
:
imislami1979@gmail.com
تقسیم کنندہ
:
مکتبہ معارف اسلامی منصورہ ملتان روڈ لاہور
فون
:
042-35252419,35419520-24
یہ مختصر کتاب بہت اہم موضوع کو زیر بحث لاتی ہے، اور ایک اہلِ علم کے قیمتی فکری نتائج کی حامل ہے۔ اسلامی بینکاری کے سلسلے میں اسلامی معاشیات میں ثمین اضافہ ہے۔ ادارہ معارف اسلامی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حافظ ساجد انور تحریر فرماتے ہیں:
’’عصرِ حاضر میں اگرچہ سودی نظام مالیات نجی طور پر کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، مگر معاشی نظام میں سودی معیشت کا مرکز اور گڑھ بینکنگ کا مروجہ نظام ہے۔ اس ضمن میں اگرچہ نظامِ معیشت کو اسلامی غیر سودی نظام پر ڈالنے کے لیے مختلف کوششیں کی گئی ہیں، لیکن تاحال اس کی تنفیذ نہ ہونا اربابِ اقتدار کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ذیل میں ان کوششوں کا اجمالی و مختصر جائزہ پیش خدمت ہے:
٭ قراردادِ مقاصد کی منظوری (1949ء) کے بعد بھی سودی نظام چلتا رہا، اگرچہ سپریمیسی آف قرآن و سنت کو ریاستی سطح پر تسلیم کیا جاچکا تھا۔
٭1969ء میں ڈھاکا میں اسٹیٹ بینک کی استدعا پر اسلامی نظریاتی کونسل (تب اسلامی مشاورتی کونسل) نے واضح کیا کہ ’’بینک کا منافع‘‘ اصلاً سود ہی ہے۔
٭ اسلامی نظریاتی کونسل 1977ء میں بنی اور 1980ء میں کونسل نے سود کو حرام قرار دیتے ہوئے متبادل سفارشات پیش کیں جوکہ ہنوز عمل درآمد کی منتظر ہیں۔
٭ 1988ء میں فیڈرل شریعت کورٹ کا قیام عمل میں آیا، لیکن مالیاتی امور کو اس کے دائرۂ کار سے باہر رکھا گیا۔
٭ 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت سے سود کی حرمت پر فیصلہ آیا، لیکن حکومت نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔
٭ 1997ء میں سود کے خاتمے کے لیے کمیٹی بنائی گئی، لیکن کمیٹی کی تشکیل کے باوجود حکومت نے اپیل واپس نہ لی۔ اس دوران وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف 67 اپیلیں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئیں۔
٭ 1999ء میں سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کے 1100 صفحات کے تفصیلی فیصلے کو برقرار رکھا اور حکومت کو غیر سودی نظام معیشت کی تیاری کے لیے دو سال کی مہلت دے دی۔
٭2002ء میں پرویزمشرف حکومت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے مؤقف دیا کہ ہم بینک کے سود کو حرام ہی نہیں مانتے۔ بینک کے سود پر رباکا اطلاق نہیں ہوتا۔ جسٹس مفتی تقی عثمانی صاحب کو شریعت اپیلٹ بینچ سے برطرف کردیا گیا۔ یو بی ایل کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف پھر اپیل دائر کروائی گئی۔ اپیل منظور ہوئی اور کیس دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کو ریفر کردیا گیا۔ تب سے اب تک کئی سماعتیں ہوچکی ہیں لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آج محتاط رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں تین سو سے زائد بینک اسلامی اصولوں کے مطابق کامیابی سے چل رہے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلامک بینکنگ عملاً ممکن اور نافذالعمل ہے۔
پاکستان میں اس وقت بعض بینکوں نے غیر سودی بینکاری کی ونڈوز کھولی ہیں۔ اس ادھورے کام کی پذیرائی بھی بہت ہے۔ حال ہی میں اسلامک فنانس نیوز ملائشیا کی ووٹنگ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مسلسل چوتھی بار کامیاب اسلامک بینکنگ کو فروغ دینے والے مرکزی بینک کا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ اس سے قبل ستمبر 2020ء میں اسٹیٹ بینک کو گلوبل اسلامک فنانس ایوارڈ (GIFA) بھی دیا گیا تھا۔ اسلامک بینکنگ نے گزشتہ پانچ سالوں میں ریکارڈ 30 فیصد گروتھ کی۔ دسمبر 2020ء میں اسلامک بینکنگ اثاثے 4269 ارب روپے، ڈپازٹس 3389 ارب روپے، اور منافع 34 فیصد اضافے سے 88.4 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
اس وقت مغربی مالیاتی اداروں نے بھی مسلم ممالک کے سرمایہ داروں کو متوجہ کرنے کے لیے غیر سودی بینکنگ کے شعبے قائم کیے ہیں۔ دنیا میں اسلامک بینکنگ کی مجموعی مالیات 17 کھرب ڈالر سے متجاوز ہے۔ آج پاکستان میں روایتی بینکنگ میں اسلامک بینکنگ کا شیڈ بڑھ کر تقریباً 20 فیصد ہوچکا ہے، اور ملک میں 17 اسلامک بینکوں کی برانچوں کا نیٹ ورک 3303تک پہنچ چکا ہے۔
ذرا غور کیجیے اگر پاکستان اپنے نظام معیشت کو مکمل غیر سودی نظام میں ڈھال دے تو اس کے کتنے اچھے اور بہترین اثرات ہمارے معاشرے میں سامنے آئیں گے اور پوری قوم اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے خلاف جنگ کی حالت میں ہونے سے بچ جائے گی۔
زیر نظر کتاب محترم اشتیاق احمد فاروق کی کاوش ہے۔ ان کا اخلاص اور جذبہ دیدنی اور قابلِ قدر ہے۔ انہوں نے اسلامی معاشی نظام اور بینکاری کی تشکیل کے چند اہم پہلوئوں پر معروضات پیش کی ہیں۔ راس المال میں سرمایہ کاری، قرضہ جات، فکسڈ ڈپازٹ، کرنٹ اکائونٹ اور بین الاقوامی قرضہ جات جیسے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے‘‘۔
پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم سابق صدر شعبۂ معاشیات و سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج آف سائنس لاہور رقم طراز ہیں:
’’معیشت اور بینکاری نظام کو اسلامی اصولوں پر کیسے چلایا جائے گا؟ یہ سوال آج بھی لوگ پوچھتے ہیں۔ اس سوال میں وہ تمام سوال بھی پوشیدہ ہوتے ہیں کہ آج کا بینکاری نظام تو بہت پیچیدہ ہے اور سیدھا سادہ نہیں ہے، اس کا متبادل بھی ایسے تکنیکی ماہرین کو دینا چاہیے جو خود اس نظام کا حصہ رہے ہوں اور اس کی پیچیدگیوں کو پوری طرح سمجھ کر شریعت کے تقاضوں کے مطابق اس کے متبادلات پر بات کرسکتے ہوں۔
جناب اشتیاق احمد فاروق (آئی اے فاروق) ان لوگوں میں ایک بڑا نام ہے کہ جنہوں نے عمرِ عزیز کا ایک بڑا حصہ اسی دشت کی سیاحی میں گزارا ہے۔ بینک دولت پاکستان (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) میں مختلف اور اہم ذمے داریوں پر فائز رہے۔ بینکاری کے مختلف شعبوں اور ورکنگ کے بارے میں پوری طرح آگاہ ہیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو دین کے ساتھ وابستگی اور اسلامی یا غیر سودی بینکاری اور معیشت کے قیام کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی فراواں دیا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے سے اس مقصد کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔ ہر اُس دروازے کو انہوں نے کھٹکھٹایا ہے جہاں سے انہیں امید بندھی کہ ان لوگوں میں دین اور دینی تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ موجود ہے۔ وہ سود اور ربا کی حرمت اور اس کے متبادلات پر مسلسل لکھ بھی رہے ہیں اور لوگوں کو قائل بھی کررہے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں سود کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں قرارداد پاس ہوئی تو اس حوالے سے آگاہی دینے کے لیے انہوں نے ادارہ معارف اسلامی اور ایوانِ اقبال وغیرہ میں سیمینار منعقد کروائے۔
سپریم کورٹ میں ربا کیس عرصہ دراز سے زیر بحث ہے، اس حوالے سے محترم اشتیاق احمد فاروق (آئی اے فاروق) جماعت اسلامی پاکستان، تنظیم اسلامی و دیگر متعلقینِ کیس کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور اپنی طرف سے مسلسل رہنمائی دے رہے ہیں۔ اسلامی بینکاری کی تشکیلِ جدید بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ادارہ معارف اسلامی لاہور کے تحت شائع ہونے والی اس کتاب میں جناب اشتیاق احمد فاروق نے اسلامی معاشی نظام اور اسلامی بینکاری کی تشکیلِ جدید کے مختلف پہلوئوں پر تجاویز پیش کی ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے اسلامی بینکاری نظام میں وسائل کے حصول اور ان کے استعمال کے طریق کار پر اپنی تجاویز پیش کی ہیں اور اسلامی بینکاری میں سود کے متبادلات پر بحث کی ہے۔ راس المال میں سرمایہ کاری، مقامی سطح پر قرضہ جات، کرنٹ اکائونٹ، فکسڈ ڈپازٹ، بین الاقوامی قرضوں وغیرہ جیسے تکنیکی موضوعات پر تجاویز پیش کی ہیں۔ امید ہے کہ اہلِ علم، عدالتِ عالیہ میں بحث میں حصہ لینے والے وکلا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شعبۂ اسلامی بینکاری سے متعلق افراد کے لیے یہ ایک رہنما تحریر ہوگی‘‘۔
’’آج کے عالمی نظامِ معیشت کا مرکز بینکاری ہے جو سود کے محور کے گرد گھومتی اور مختلف سمتوں میں حرکت کرتی ہے۔ اس نظام کو قرآن و سنت پر مبنی نظام میں تبدیل کرنے کے لیے مذہبی طبقہ خصوصاً علما نے بھی ذمے داری پوری کرنے سے گریز کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ دینی مدارس کا نظام تدریس اور نصاب ہے جس میں معیشت کا عمل دخل نہیں ہے۔
بینکاری کے نظام کو دین کے دائرے میں لایا جائے تو یہ بتدریج سارے نظام کو دین کے دائرے میں لے آئے گا۔ یہ رسالہ اسی نئے نظامِ معیشت کا مرکزی حصہ ہے۔ ابتداً کم از کم اسے مدارس کے نظامِ تعلیم میں شامل ہونا چاہیے۔ آج مغربی علم کا بیشتر حصہ یا تو معاشیات کا علم ہے یا معاشیات کے زور پر منظرعام پر آنے والے دوسرے علوم ہیں۔ مرکزی حصے کے محور کی تبدیلی سمت میں تبدیلی کا باعث ہوگی۔ اس سے علم کا مکالمہ شروع ہوگا۔ چوں کہ علوم قرآن (الکتاب، السنہ) ہی اللہ کی آخری ہدایات ہیں (اور نہ صرف انہیں قیامت تک رہنا ہے بلکہ ان کی حفاظت بھی اللہ تعالیٰ کی ذمے داری ہے) لہٰذا یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس مکالمے میں فتح اللہ کی آخری ہدایت ہی کی ہوگی۔ علما (اور مدارس) کو علوم کی اس نئی کشمکش میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘۔
اس کتاب میں جن موضوعات پر تحریریں ہیں وہ درج ذیل ہیں:
اسلام میں بینکاری نظام کی تشکیلِ جدید، وسائل کے حصول کی تحریک، وسائل کا استعمال، پاکستان میں بلاسود بینکاری یا اسلامی بینکاری، کمپنی کا سیٹ اَپ، وسائل، پہلا متبادل، ایکویٹی (راس المال میں سرمایہ کاری)، قرضہ جات (مقامی مارکیٹ میں)، کرنٹ ڈپازٹ، معینہ مدت کے ڈپازٹ، عبوری منافع یا نقصان، قرضے (بین الاقوامی مارکیٹ)، دوسرا متبادل، اتفاقی ذمہ داریاں، متفرق، وسائل کا استعمال، سرمایہ کاری، قرضوں کی دستیابی، بین الاقوامی مارکیٹ کو قرضے، دوسرا متبادل، متفرق، عدالت عظمیٰ کے ربا پر فیصلے اور رسالے کی روشنی میں مالیاتی نظام کی تشکیل کا عمل، غیر رسمی معیشت، ادائیگیاں، ڈپازٹ، اثاثے، قرضہ جات، دیگر حسابات، قانون دان طبقہ، کاروباری حضرات، بینکنگ کمپنیز آرڈی نینس میں مجوزہ تبدیلی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ میں مجوزہ تبدیلیاں، عہد کی پُرسش ہوگی، حکومت کے لیے، معاشرتی، مالیاتی نظام، نظریہ بینکاری… ایک زاویہ، اسلامی بینکاری، اختیاری اور بتدریج تبدیلی کا راستہ۔