بروز اتوار 6 فروری 2022ء کو معروف سینئر کالم نگار اور دانش ور دستگیر بھٹی نے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پراپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات کے لیے پیش خدمت ہے۔
نوٹ: کالم کے تمام مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔
……٭٭٭……
’’قبل از قیامِ پاکستان سندھ میں ایک ہی مادرِعلمی ہوا کرتی تھی، سندھ یونیورسٹی… جو سندھ کے دارالحکومت کراچی میں تھی۔ پاکستان بنا تو وزیراعظم لیاقت علی خان نے کراچی سے نہ صرف سندھ یونیورسٹی بلکہ سندھی ادبی بورڈ، سندھ اسمبلی اور دیگر کئی اداروں کو بھی وہاں سے منتقل کرادیا، اور اتنے بڑے ظلم اور ناانصافی کے خلاف سندھ کی سندھی قیادت کی جانب سے مجھے کسی بھی نوع کی کوئی بھی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ مزاحمت ہوتی تو نظر بھی آتی۔
خیر، دیگر اداروں کی طرح سندھ یونیورسٹی نے بھی کراچی سے آکر حیدرآباد کے ماڈل اسکول میں پناہ لی، اور بعدازاں جامشورو میں تعمیر شدہ نئے کیمپس میں منتقل ہوگئی۔ یہاں پر ہمارے علامہ آئی آئی قاضی، رضی الدین احمد، سید غلام مصطفی شاہ، شیخ ایاز، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اور ڈاکٹر غلام علی الانا جیسے دانا عالم اور نامور ماہرِ تعلیم ہوا کرتے تھے۔ وقت بدلتا گیا اور جدید دور میں جدید باتیں سننے لگ گئے، مثلاً پرانے زمانے سے یہ حقیقت ایک عالم پر آشکار ہے کہ پولیس تھانے نیلام ہوتے ہیں، یہ بات سننے کے بعد رپورٹر کے طور پر تحقیق کی تو آگہی ملی کہ یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہر ایک تھانے کا جدا جدا ریٹ مقرر شدہ ہے۔
اس کے بعد جو دور آیا اُس میں یہ چہ میگوئیاں پھیل گئیں اور یہ امر شہرت پاگیا کہ ماسٹری کی نوکری فروخت ہورہی ہے، اتنے لاکھوں روپے میں۔ اور اسکول خواہ جائیں یا نہ جائیں آپ کو ماہ بہ ماہ گھر بیٹھے تنخواہ ملتی رہے گی۔ ایک مشہور پیر کے گدی نشینوں کا وہ سنہری دور بھی اہلِ جہاں نے دیکھا (شاید پی پی کے سابق وزیر تعلیم صوبہ سندھ پیر مظہر الحق کی طرف اشارہ ہے!! مترجم)۔ اس کے بعد رشوت کا موذی مرض پرائمری اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک پھیلتا چلا گیا اور سبھی اس میں مبتلا ہوتے گئے۔ سب سے پہلے تو جعلی ڈگریوں کا کاروبار شروع ہوا، اور وہ اس طرح سے کہ آئین میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کا رکن، سینیٹر، وزیر یا مشیر بننے کے لیے گریجویٹ ہونا لازمی ہوگا۔ اَن پڑھ جٹ وڈیروں، سرداروں، چودھریوں اور خوانین میں اس اعلان سے ایک طرح سے بھگدڑ مچ گئی اور افراتفری پھیل گئی کہ اب ڈگری کہاں سے پیدا کریں؟ ان کے کاسہ لیسوں اور چمچوں کڑچھوں نے اپنے اپنے علاقے کی یونیورسٹی میں جاکر جگاڑی پروفیسروں اور انتظامی افسروں سے رابطہ کرکے انہیں اپنے اعتماد میں لیا، جنہوں نے بھاری بھرکم رقومات وصول کرکے اسمبلیوں، وزارتوں کے سارے شوقین حضرات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کر ڈالا، اور پھر رشوت بامِ عروج پر پہنچ گئی۔ لاکھوں کی جگہ کروڑوں نے لے لی۔ بالآخر یہ مرحلہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے آیا جب تھانے کے انچارجوں کی طرح یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے عہدے بھی نیلام ہونا شروع ہوگئے۔ ہمارے ہاں سندھ میں اس اہم ترین عہدے پر عالم فاضل مقرر کرنے کے لیے پانچ سال قبل اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن بنایا گیا، جس کا سربراہ ڈاکٹر عاصم نامی محض ایم بی بی ایس پاس شدہ حکمران جماعت کے خاص فرد کو لگایا گیا۔ نیلامی شروع ہوئی تو نااہل اور رشوت خور حریص طبقے کے افراد کی گویا چاندی ہوگئی انہیں خبر تھی کہ ہر یونیورسٹی کے ترقیاتی امور کے لیے اربوں روپے کا سالانہ بجٹ ملتا ہے۔ مالک بھی خوش اور غرض کے بندے بھی راضی۔ اس طرح سے ہر جامعہ کی وائس چانسلری کے حصول کے لیے بہت سارے امیدواروں کی لائن سی لگ گئی ڈاکٹر عاصم کے کلفٹن والے دفتر کے باہر، جہاں اس زمانے میں ہی ریاستی اداروں کے طاقتور افراد ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کرکے لے گئے تھے اور موصوف دو ڈھائی برس جیل میں پڑے رہے۔ کمال یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے جیل جانے کے بعد اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا کوئی بھی سربراہ مقرر نہیں کیا گیا۔ جونہی موصوف اسیری سے چھوٹے، انہوں نے دوبارہ چارج سنبھال لیا اپنے پارٹی چیئرمین کے حکم پر، اور اب بھی وائس چانسلر مقرر کرنے کا اختیار ڈاکٹر عاصم کے پاس ہے۔ سندھ کی تمام یونیورسٹیوں میں اسی طرح کا خراب ماحول پیدا ہوچکا ہے جس طرح کا ابتر حال ہمارے ہاں کے گوٹھوں اور شہروں کا ہے۔ بروز جمعرات سندھ یونیورسٹی کی ایک طالبہ کا ایک سندھی اخبار میں خط چھپا ہے کہ جانوروں اور مال مویشیوں کو کھلانے جیسی روٹی اور سالن دو سو روپے میں لینے پر انہیں مجبور کیا جارہا ہے۔ ہاسٹل میں رہائش پذیر جو بچیاں بیمار کردینے والے اس کھانے کو کھانے کے بجائے اپنے لیے خود کھانا تیار کرنا چاہتی ہیں انہیں ذلیل کیا جاتا ہے۔ ماروی ہاسٹل میں رہائش پذیر سندھو ملاح نامی طالبہ نے مزید کہا ہے کہ یہاں کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے ایک لیڈی ڈاکٹر اور ایک ڈسپنسر بھی مقرر تھیں جو کسی بھی اچانک بیمار پڑ جانے والی طالبہ کا فوری علاج کیا کرتی تھیں، یا اگر بیماری شدید ہے تو اسے ابتدائی طبی امداد دے کر لمس اسپتال میں داخل کرانے کا بندوبست کیا کرتی تھیں۔ معلوم نہیں وہ ڈاکٹر سال ڈیڑھ سال سے کہاں غائب ہوگئی؟ اگر ہاسٹل میں کسی طالبہ کی طبیعت خراب ہوجائے تو وہ بے چاری تڑپتی، سسکتی اور بلکتی رہ جاتی ہے، کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ نہ ابتدائی طبی امداد اور نہ ہی کوئی ایمبولینس ماروی ہاسٹل کو دینے کے لیے تیار ہے۔ کئی ماہ آہ و فغاں کرتے ہوئے گزر گئے ہیں لیکن یہاں کوئی سننے یا کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ طالبات پر اپنا کھانا خود تیار کرنے پر پابندی اس لیے عائد کی گئی تاکہ وہ میس سے مہنگا اور بدمزہ کھانا خریدنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماروی ہاسٹل کی طالبات کو ایک بس ملی ہوئی تھی جس میں بیٹھ کر ہاسٹل سے باہر شہر جاکر ہم اپنی مطلوبہ اشیا، کتابیں، سودا سلف، سبزی وغیرہ کی خریداری بھی کیا کرتے تھے۔ یہ پوائنٹ اب اس بہانے سے چھین لیا گیا ہے کہ کہیں یہ یہاں سے بھاگ نہ جائیں۔ سندھو ملاح نے لکھا ہے کہ جس لڑکی کو بھاگنا ہوگا کیا وہ صرف اسی بس کے ذریعے بھاگے گی؟ وہ تو کسی اور ٹرانسپورٹ کے توسط سے بھی جاسکتی ہے۔ اور ماروی ہاسٹل کی طالبات کا سب سے اہم مسئلہ انٹرنیٹ سے محرومی ہے۔ آج کل کورونا وائرس کے پھیلائو کی وجہ سے آن لائن پڑھانے کا رواج بڑھا ہے۔ ویسے بھی جتنی علمی معلومات سوشل میڈیا کے ذریعے ملتی ہیں اتنی تو ڈیوٹی چور اساتذہ بھی مہیا نہیں کرتے۔ ہاسٹل کی پرووسٹ بھی اسی عورت کو مقرر کیا گیا ہے جسے نائلہ رند کی پراسرار موت کے سبب ہٹایا گیا تھا۔ ان سہولیات کی نایابی کی وجہ سے اگر اس سے شکایت کریں تو ایک دم وہ یہ دھمکی دے دیتی ہے کہ شکایت کنندہ کو ہاسٹل سے نکال دیا جائے گا۔ صرف سندھ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات ہی کے ساتھ اتنی زیادتی اور ظلم کا رویہ روا نہیں رکھا جارہا ہے، بلکہ خیرپور کی شاہ عبداللطیف یونیورسٹی سے سندھ یونیورسٹی تک طالبات سے بدسلوکی اور انہیں اغوا کرنے کی کوشش کرنے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ بروز جمعہ سجاول کی ایک طالبہ الماس کلاس روم سے ماروی ہاسٹل کی جانب اپنے کمرے کی طرف جارہی تھی کہ تین موٹر سائیکلوں پر سوار 6 بدمعاشوں اور لوفروں نے اسے اغوا کرنے کی ناپاک کوشش کی، لیکن طالبہ کے واویلا کرنے اور شور مچانے پر بہت ساری طالبات موقع
پر پہنچ گئیں جنہیں دیکھ کر سارے لوفر وہاں سے بھاگ گئے۔ اگرچہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں جن کے ذریعے ملزمان کی شناخت باآسانی کی جاسکتی ہے، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کو آخر کیا پڑی ہے اور اسے ایسی کیا مجبوری لاحق ہے کہ وہ مغز ماری کرے! سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پر نیب کے کیس داخل ہیں لیکن موصوف نے قبل از گرفتاری ضمانت منظور کرالی ہے۔
سندھ کے حکمرانوں کو تعلیم کی تباہی کی جانب اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ اداروں کو تباہی سے بچانے کی خاطر بہت عمدہ ساکھ کے حامل تعلیمی ماہرین کو اعلیٰ عہدوں پر مقرر کیا جائے۔ اگر نیب سے ضمانت پر آزاد شدہ ڈاکٹر عاصم ہی سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کرتا دھرتا رہے تو پھر یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان اداروں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوکر رہ جائے گی۔