دہشت گردی کی لہر میں تیزی

امریکہ سے نجات کے بعد طالبان رہنمائوں نے پاکستان، چین اور ازبکستان کے رہنماؤں کو مشورہ دیا تھاکہ وہ اپنے اپنے مسلح گروپس کے ساتھ سیاسی عمل کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں، طالبان حکومت اس میں تعاون اور سہولت کاری کرسکتی ہے۔ اس پیش کش کے بعد ہی پاکستان میں ٹی ٹی پی سے بات چیت کا عمل شروع ہوا تھا۔ اس کامیابی کی راہ میں کہاں رکاوٹ آئی، اس پر بعد میں بات کریں گے، اس سے پہلے چین اور ازبکستان کے ردعمل پر بات ہوجائے۔ محتاط زبان میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ چین کا اپنے مسلح مخالفین سے متعلق مؤقف بہت سخت ہے، ممکن ہے وہ مذاکرات پر آمادہ نہ ہو۔ اسی سے ملتا جلتا مؤقف ازبکستان کا بھی ہے۔ ازبک حکومت سمجھتی ہے کہ مسلح گروہوں نے قانون ہاتھ میں لیا اور جرائم کیے، لہٰذا ان کے ساتھ مصالحت مشکل ہے۔ افغان طالبان رہنماؤں نے تحریک طالبان پاکستان کو اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی تجویز پیش کی تھی، اور یہ عمل شروع بھی ہوگیا تھا، ابتدا میں اعتماد سازی کے لیے نومبر میں ایک ماہ کی جنگ بندی ہوئی تھی۔ طالبان حکومت سمجھتی تھی اور ہے کہ مسلح گروہ اسے میراث میں ملے ہیں، اور انہیں بوجھ تصور کیا گیا۔ تاہم طالبان حکومت کے لیے ممکن نہیں کہ وہ انہیں کسی دوسرے ملک کی حکومت کے حوالے کرے، لیکن افغان طالبان حکومت کا فیصلہ یہ تھا کہ کسی کو بھی دوسرے ملک کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لیکن اب بلوچستان کے علاقوں نوشکی اور پنجگور میں فوجی مراکز پرحالیہ حملوں کے بعد اہم ترین سمت سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ حملہ آور افغانستان اور بھارت میں اپنے منصوبہ سازوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت کی مکروہ منصوبہ بندی تو کہیں بھی اور کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ افغان طالبان حکومت کی جانب سے آئی ایس پی آر کے بیان پر ردعمل نہیں آیا۔ ماضی کا حوالہ دیا جائے توپاکستانی طالبان، افغان طالبان کے امیر کو اپنا امیر سمجھتے ہیں اور ایسا 2007ء سے چلا آرہا ہے۔ قبائلی معاشرے میں مہمان کی جو عزت ہے اس سماجی روایت کو ابھی تک درجہ اول کی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا کابل میں پاکستانی طالبان افغان طالبان کے مہمان ہیں۔ افغان طالبان کی ایک تجویز یا سوچ یہ بھی ہے کہ افغان طالبان کسی پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتے۔ یہ تجاویز بھی زیر بحث آئیں کہ اسلامی نظام پر کسی کا دباؤ برداشت نہ کیا جائے اور نہ حکومت میں کسی اور کو جگہ دی جائے۔ طالبان حکومت اپنی ترجیح کے ساتھ چلنا چاہتی ہے، وہ سمجھتے ہیں ہم نے ٹی ٹی پی اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مذاکرات کی میز سجا دی تھی، اب بات آگے بڑھانا ان دونوں کی ذمے داری ہے، ہم ثالث بنیں گے نہ کسی پر دبائو ڈالیں گے۔ اس پس منظر میں کابل کا ماحول بدلا ہوا معلوم ہورہا ہے، درجنوں اہم طالبان جیلوں سے رہا بھی ہوچکے ہیں۔ اب یہ صورتِ حال نہایت احتیاط سے تجزیہ کرنے کی متقاضی ہے۔ کوئی ایسی بات لکھنی چاہیے اور نہ بولنی چاہیے جس سے تشویش پیدا ہو۔
پاکستان میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ کابل میں طالبان کے آنے کے بعد پاکستان میں تشدد کے واقعات میں کمی آئے گی، لیکن معاملہ کچھ مختلف نظر آتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں حالیہ تبدیلی کے بعد پاکستان اور تاجکستان میں ’چین کے مفادات‘ پر حملوں کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ سیکورٹی کونسل کی یہ رپورٹ 3 فروری کو جاری ہوئی جس میں جون 2021ء سے دسمبر 2021ء تک کے حالات کا احاطہ کیا گیا۔ رپورٹ میں نام لے کر بتایا گیا کہ کون کس قدر فعال ہے اور کس کے پاس کتنا پیسہ ہے۔ یہ رپورٹ اُس وقت سامنے آئی جب چین نے افغان عوام کے لیے وہاں کی حکومت کے ذریعے کچھ آگے بڑھ کر کرنا چاہا ہے۔ پاکستان میں حملوں کے واقعات کو بہت سنجیدہ لیا گیا ہے، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ تشدد میں اضافے کے بعد چاروں صوبوں میں سیکورٹی الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ٹی ٹی پی اور بلوچ مسلح گروپس کے درمیان رابطوں کی بھی نشاندہی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ اسلام آباد میں پولیس پر حالیہ حملہ بھی دہشت گردی قرار پایا کہ ٹی ٹی پی نے واقعے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ قبائلی مشران دوبارہ کابل جانا چاہتے ہیں تاکہ بات چیت کا سرا دوبارہ ہاتھ آجائے۔ سابقہ قبائلی اضلاع کا خیبر پختون خوا سے انضمام ختم کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے۔ پاکستان کے لیے کون سے مطالبات تسلیم کرنا ممکن ہوگا؟ اس پر ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا، اور نہ ہی یہ درست بات ہوگی۔ اس وقت مذاکرات کی بحالی کا روڈ میپ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔