امریکہ میں سیاہ فاموں اور رنگ دار اقلیت کے خلاف نفرت کی مہم

امریکہ میں سیاہ فاموں کی جامعات اور کالجوں کو بم سے اڑا دینے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ افریقی نژاد باشندے قیامِ امریکہ کے وقت سے نسلی امتیاز کا شکار ہیں۔ خانہ جنگی کے اختتام پر1865ء میں تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے غلامی ختم کردی گئی، لیکن سیاہ فاموں کے خلاف امتیازی سلوک میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انھیں تعلیمی اداروں اور عبادت گاہوں میں داخلے کی اجازت نہ تھی۔ بازاروں اور سرکاری دفاتر میں ان کے آنے جانے کے اوقات متعین تھے۔ ریل گاڑیوں اور سرکاری بسوں پر رنگ دار لوگ صرف اپنے لیے مختص ڈبوں ہی میں بیٹھ سکتے تھے۔
ستم ظریفی کہ اس امتیازی سلوک کو امریکہ کی سپریم کورٹ نے قانونی جواز بھی مہیا کیا۔ اس کا قصہ کچھ اس طرح ہے کہ 1890ء میں ریاست لوزیانہ نے ریلوے کے لیے جداگانہ بوگی ایکٹ (Separate Car Act) منظور کرلیا، جس کے تحت گوروں اور رنگ داروں کے لیے ریل گاڑیوں میں علیحدہ ڈبے مختص کردیے گئے۔ لوزیانہ پہلے فرانس کی کالونی تھا جسے 1803ء میں ڈیڑھ کروڑ ڈالر کے عوض خرید کر USA کا حصہ بنایا گیا۔ لوزیانہ میں فرانسیسی نژاد سیاہ فام بھی تھے۔ ایسے ہی ایک 30 سالہ شخص ہومر پلیسی نے 7 جون 1892ء کو ریل گاڑی کے درجہِ اول (فرسٹ کلاس) کا ٹکٹ خریدا اور سفید فام لوگوں کے لیے مختص ڈبے میں بیٹھ گیا۔ جب کنڈیکٹر ٹکٹ کی جانچ پڑتال کے لیے آیا تو یہاں ایک کالے کو بیٹھا دیکھ کر آپے سے باہر ہوگیا۔ اس نے زنجیر کھینچ کر گاڑی روکی اور گارڈ کو وہاں بلا لیا، جس کے حکم پر ریلوے پولیس نے پلیسی کو جیل بھیج دیا۔
پلیسی پر ریلوے قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں مقدمہ قائم کیا گیا۔ پلیسی نے گرفتاری کے خلاف امریکی عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا، جس نے 18 مئی 1896ء کو فیصلہ سنایا کہ سیاہ فاموں کے لیے جداگانہ برتاؤ اور انتظام، آئین کے خلاف نہیں۔ نسلی بنیادوں پر تفریق کے لیے عدالت نے ’جداگانہ لیکن برابر‘ کا نظریہ اختیار کیا۔
خاتمہِ غلامی ترمیم کے بعد 1868ء میں چودھویں ترمیم نے سیاہ فام امریکیوں کو (برابر کی) شہریت کا حق دیا، جس کے دو سال بعد پندرہویں ترمیم کے ذریعے سیاہ فاموں کو ووٹ کا حق بھی دے دیا گیا، لیکن باوجودیہ کہ شدت کم ہوچکی ہے، رنگ داروں کے خلاف امتیازی بلکہ وحشیانہ سلوک کا ارتکاب اب تک جاری ہے۔ پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام نوجوانوں کا قتل اور افریقی امریکیوں پر نسل پرستوں کے حملے برابر ہورہے ہیں۔
غلامی کے خاتمے کے بعد بھی سیاہ فاموں کا تعلیمی اداروں میں داخلہ ممنوع تھا۔ مزے کی بات کہ 1954ء میں امریکی عدالتِ عظمیٰ نے تعلیمی اداروں میں نسلی بنیادوں پر تفریق کو غیر آئینی قرار دے دیا، لیکن عوامی ردعمل کی بنا پر کئی برس تک اس فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوسکا، بلکہ سابق صدر بل کلنٹن کی آبائی ریاست آرکنساس (Arkansas)کے دارالحکومت لٹل راک میں تو گورے والدین کی مزاحمت اس قدر شدید تھی کہ ایک عرصے تک ابتدائی جماعتوں کے لیے نسلی بنیادوں پر الگ کلاسوں کا سلسلہ جاری رہا۔ لٹل راک کے سینٹرل ہائی اسکول میں 1957ء کے تعلیمی سال سے سفید و سیاہ فام طلبہ کی مشترکہ کلاس کا آغاز کیا گیا اور 9 سیاہ فام طلبہ نے نسلی اعتبار سے مخلوط کلاس میں داخلہ لیا۔ ان میں چھ لڑکیاں اور تین لڑکے تھے۔
یہ خبر ملتے ہی اسکول انتظامیہ حرکت میں آئی اور ایک خط کے ذریعے ریاستی گورنر کو خبردار کیا گیا کہ اسکولوں میں نسلی بنیادوں پر علیحدگی کے خاتمے سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اسی دوران 19 سینیٹروں اور ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی)کے 81 ارکان نے ایک مشترکہ خط میں علیحدگی کے خاتمے کی مخالفت کی۔ اس خط میں جو ”منشورِ جنوب“ کے نام سے مشہور ہوا، یہ موقف اختیار کیا گیا کہ تعلیم کا انتظام و انصرام ریاستوں کی ذمے داری ہے اور وفاق کی مداخلت سے ریاستی خودمختاری متاثر ہورہی ہے۔ خط میں انتظامیہ کو متنبہ کیا گیا کہ اسکولوں میں جداگانہ کلاس ختم کرنے سے سیاہ و سفید کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا، اس لیے کہ دونوں فریق ”اُدھر تم، اِدھر ہم“ کے اصول پر اپنی اپنی جگہ خوش ہیں۔
شہر میں کشیدگی کے پیش نظر گورنر نے سینٹرل ہائی اسکول پر آرکنساس نیشنل گارڈ (ریاستی نیم فوجی دستے) تعینات کردیے۔ نیشنل گارڈ کو سیاہ فام بچوں کے تحفظ کے لیے لایا گیا تھا لیکن پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ان سپاہیوں نے خود ہی سیاہ فام طلبہ کو اسکول میں داخلے سے روک دیا، یعنی جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے۔
دوسری طرف واپس جاتے ان بچوں کو گوروں نے گھیر لیا اور تحقیر آمیز نعرے لگائے۔ ایک سیاہ فام طالبہ کو ہجوم نے طمانچے مارے۔ اس صورت حال کا عدلیہ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈال کر ریاستی نیشنل گارڈ بحیثیت ادارہ توہینِ عدالت کا مرتکب ہوا ہے، چنانچہ اس پر مقدمہ قائم کیا جائے۔
دوہفتے بعد جب یہ سیاہ فام طلبہ دوبارہ اسکول آئے تو ہزاروں افراد نے ان کے خلاف مظاہرہ کیا اور کئی بچے تشدد کا نشانہ بنے، تاہم یہ تمام کے تمام 9 طلبہ اسکول میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اس دوران سارا شہر وہاں امڈ آیا اور اسکول کا گھیرائو کرلیا۔ مظاہرین کو مقامی پولیس کی حمایت حاصل تھی۔ صورت حال اتنی خراب ہوگئی کہ صدر آئزن ہاور نے ان طلبہ کے حفاطت کے لیے وفاقی فوج بھیج دی۔ ان 9 طلبہ کی حفاظت کے لیے اسکول کے اندر اور باہر 350 مسلح فوجی تعینات کیے گئے، جبکہ فوجی ہیلی کاپٹر اسکول کی فضا میں پرواز کررہے تھے۔ سبق کے دوران کمرہِ جماعت کے باہر یہ فوجی پہرہ دیتے اور سیاہ فام طلبہ فوجیوں کی حفاظت ہی میں ایک کلاس سے دوسری کلاس تک جاتے۔ اسی طرح باتھ روم جاتے وقت بھی انھیں حفاظت فراہم کی جاتی۔
پورے تعلیمی سال کے دوران مسلح فوجی اسکول میں تعنیات رہے۔ جیسے اقبال کا مردِ مومن تلوار کی چھائوں میں کلمہ پڑھتا تھا ویسے ہی یہ سیاہ فام طلبہ بندوقوں کے سائے میں تعلیم حاصل کرتے رہے، لیکن مسلح سپاہیوں کی موجودگی میں بھی ان بچوں کو مسلسل ہراساں کیا جاتا رہا۔ اس دوران اشتعال انگیز جملوں کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کی پاداش میں ایک سیاہ فام طالب علم کو اسکول سے نکال دیا گیا۔ باقی طلبہ بھی تعلیم مکمل نہ کرسکے اور نفرت و حقارت کا پامردی سے مقابلہ کرکے صرف ایک نوجوان نے مئی 1958ء میں ہائی اسکول کی سند حاصل کی۔ معلوم نہیں یہ اشتعال تھا یا جھنجھلاہٹ کہ اسی سال گورنر صاحب نے لٹل راک ہائی اسکول کو بند کردیا کہ نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ جداگانہ تعلیم 1970ء تک امریکہ کی کئی ریاستوں میں جاری رہی۔
رنگ داروں کے خلاف تعصب اور بدسلوکی کے اس واقعے کے تفصیلی ذکر سے قارئین کو افریقی امریکی تعلیمی اداروں کے خلاف حالیہ مہم کا پس منظر سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
افریقی امریکیوں نے غلامی ختم ہوتے ہی اپنے بچوں کے لیے جامعات قائم کرنی شروع کردیں۔ سیاہ ووٹ کے تعاقب میں ڈیموکریٹک صدور نے بھی سرکاری خرچ پر ایسی جامعات کی بنیاد رکھی۔ اعلیٰ تعلیم کے یہ ادارے Historically Black Colleges and Universitiesیا HBCUsکہلاتے ہیں۔
اس سال 4 جنوری کو جامعہ ایگزاوئیر (Xavier University) کو بم کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔ سیاہ فام طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کا یہ ادارہ ریاست لوزیانہ کے عروس البلاد نیو اورلینز (New Orleans) میں 1925ء سے کام کررہا ہے۔ ابھی قانون نافذ کرنے والے ادارے جامعہ ایگزاوئیر کو دی جانے والی دھمکی کی تحقیقات کرہی رہے تھے کہ فروری کی پہلی تاریخ کو سیاہ فام طلبہ کے سب سے بڑے ادارے جامعہ ہاورڈ (Howard University) کو نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکی موصول ہوگئی، جس میں کہا گیا تھا کہ اس کی کئی عمارتوں میں تباہ کن بم نصب کردیے ہیں۔ خیال رہے کہ ہاورڈ اور ہارورڈ (Harvard) دو مختلف ادارے ہیں۔ رنگ داروں کی ہاورڈ یونیورسٹی دارالحکومت واشنگٹن میں، جبکہ رئوسا اور اشرافیہ کی ہارورڈ، ریاست میساچیوسٹس میں ہے۔
جامعہ ہاورڈ 1867ء میں قائم کی گئی۔ نائب صدر شریمتی کملا دیوی ہیرس اور امریکی سپریم کورٹ کے پہلے سیاہ فام جج آنجہانی تھرگوڈمارشل اسی جامعہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ جسٹس تھرگوڈ مارشل سے یاد آیا کہ جب 1967ء میں انھیں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر جانسن نے سپریم کورٹ کا جج نامزد کیا تو سینیٹ سے توثیق کے دوران قائدِ ایوان مائک منسفیلڈ اور قائدِ حزب اختلاف ایورٹ ڈرکسن نے ووٹ ڈالنے سے اجتناب کیا۔ غیر جانب دار رہنے والے سینیٹروں کی تعداد 20 تھی۔
ہاورڈ کے ساتھ ہی لوزیانہ کے دارالحکومت بیٹن روج کی سدرن یونیورسٹی، فلوریڈا کی بتھونی کوک مین یونیورسٹی (Bethune-Cookman University)، اسٹیٹ یونیورسٹی جارجیا، اور صدر بائیڈن کی آبائی ریاست کی ڈیلیوئر اسٹیٹ یونیورسٹی (Delaware State University) کو بھی اسی نوعیت کی دھمکیاں ملیں۔ امریکی نشریاتی ادارے NBCکے مطابق ایک درجن سے زیادہ HCBU’sکو سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کی صورت میں سنگین نتائج سے ڈرایا گیا ہے۔ خطرے کے پیش نظر نہ صرف ان اداروں میں درس و تدریس کا سلسلہ معطل کردیا گیا بلکہ ہاسٹل کے طلبہ کو بھی اپنے کمروں تک محدود رہنے کی ہدایت دے دی گئی۔ یہ تعطل بعض جامعات میں تین دن سے زیادہ جاری رہا، جس کے نتیجے میں طلبہ اور اساتذہ میں شدید خوف پھیل گیا۔ اگرچہ کہ تعلیمی سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد اب صورت حال معمول پر آچکی ہے، لیکن خوف و ہراس کی فضا اب بھی قائم ہے۔ اب تک اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
یہ دھمکی اُس وقت دی گئی ہے جب امریکی سیاہ فام، بلیک ہسٹری منتھ(Black History Month) منارہے ہیں۔ اس ضمن میں ہم ایک تفصیلی مضمون گزشتہ ہفتے قارئین کی نذر کرچکے ہیں۔ ان دھمکیوں پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے رکن کانگریس محترمہ کوری بش نے کہا کہ نسل پرستوں کو چاہیے کہ وہ اس ماہ کے دوران ہونے والی تقریبات سے فائدہ اٹھاکر سیاہ فاموں کی تاریخ کا مطالعہ کریں جس سے انھیں اندازہ ہوجائے گا کہ
وہ اور ہی ہوں گے کم ہمت، جو ظلم و تشدد سہہ نہ سکے
شمشیرو سناں کے دھارے پر رودادِ صداقت کہہ نہ سکے
جس بات سے تم نے روکا تھا اور دار پہ ہم کو کھینچا تھا
مرنے پہ ہماری عام ہوئی گو جیتے جی ہم کہہ نہ سکے
ہم نے کوری بش کے بیان کی بامحاورہ ترجمانی کے لیے جناب الطاف حسن قریشی کے کلام کا سہارا لیا ہے۔ قریشی صاحب نے مولانا مودودی مرحوم کی سزائے موت کی خبر سن کر یہ اشعار غالباً 1953ء میں کہے تھے۔ جن اداروں کو دھمکی دی گئی ہے اُن میں کوری بش کی مادرِ علمی ہیرس اسٹو اسٹیٹ یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ ریاست مسوری کے شہر سینٹ لوئس میں سیاہ فاموں کی یہ جامعہ 1857ء میں سرکاری خرچ پر قائم ہوئی تھی۔
یہ تمام دھمکیاں کھوکھلی ثابت ہوئیں اور کسی جگہ سے بھی کوئی مشتبہ مواد نہیں ملا۔ ڈرانے دھمکانے کی یہ منظم مہم رنگ داروں کے خلاف نفرت کی حالیہ مہم کا تسلسل محسوس ہورہی ہے۔ رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق 2021ء کے دوران یہاں نفرت پر مبنی جرائم میں 164 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کا نشانہ سیاہ فام، ہسپانوی اور ایشیائی افراد ہیں۔
نسل پرستی کے حوالے سے جامعہ ہارورڈ اور اشرافیہ کی دوسری جامعات میں داخلہ دیتے وقت ایشیائی طلبہ کو دیوار سے لگانے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ حال ہی میں Students for Fair Admissions(SFFA) کے نام سے منظم ہونے والے طلبہ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ طلبہ کا موقف ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی حیلوں بہانوں سے ایشیائی امریکیوں کی تعداد کو کم رکھ رہی ہے جس کا مقصد جامعہ میں ایک مخصوص (سفید) نسل کی اکثریت کو یقینی بنانا ہے۔ عدالت نے SFFAکے موقف سے اتفاق نہیں کیا۔ وفاقی جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ہارورڈ میں داخلوں کا طریقہ ”بالکل“ درست تو نہیں ہے، لیکن کسی قسم کے نسلی امتیاز کا ثبوت نہیں ملا۔ شنید ہے کہ SFFA جج کے اس فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں درخواست دائر کررہی ہے۔
اس قانونی جنگ کا منفی پہلو یہ ہے کہ بادی النظر میں یہ ایشیائی اور سیاہ فام طلبہ کا تنازع نظر آرہا ہے۔ سماعت کے دورانSFFA کے وکلا نے کہا کہ داخلوں کے معاملے میں ایشیائی امریکیوں کے لیے معیار اونچا رکھا گیا اور ایسے سیاہ فام
اور ہسپانوی طالب علموں کو فوقیت دی گئی جن کی تعلیمی کارکردگی کمتر تھی۔ دلیل کے طور پر SFFAنے ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک رپورٹ پیش کی جو 2013ء میں جاری کی گئی تھی۔ اس دستاویز کے مطابق اگر میرٹ کی بنیاد پر درخواستوں کا جائزہ لیا جاتا تو نئے آنے والے43 فیصد طلبہ ایشیائی نژاد ہوتے، جب کہ حقیقتاً ان کا تناسب صرف 19 فیصد تھا۔ صفائی پیش کرتے ہوئے ہارورڈ یونیورسٹی نے اس رپورٹ کو نامکمل اعداد و شمار پر مبنی قرار دیا ہے۔
سیاہ فام طلبہ اس قانونی جنگ میں غیر جانب دار ہیں۔ رنگ داروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم NAACPکا کہنا ہے کہ تعصب تمام رنگ داروں کے خلاف برتا جارہا ہے، چاہے وہ افریقی نژاد ہوں، ہسپانوی ہوں یا ایشیائی۔
……….
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔